ایک بار میرے ساتھ انگلینڈ کی فلائٹ سے ایک شخص سفر فرما رہا تھا،بات بات پہ وہ ایک جملہ ضرور کہتا کہ انگلینڈ میں تو ایسا نہیں ہوتا۔لیکن جونہی ہم ائیر پورٹ سے باہر نکلے اس نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ ہاتھ میں پکڑی پانی کی خالی بوتل ایسے پھینکی جیسے کوئی گندگی کو کچرے کے ڈھیر پر پھینکتا ہے۔مجھ سے رہا نہ گیا تو میں مسکراتے چہرے سے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ــ’’کیا انگلینڈ میں ایسے ہوتا ہے؟‘‘ ذرا شرمندہ سا ہوا اور بوتل اٹھا کر مناسب جگہ پر رکھ دی۔
میں جس ملک میں رہائش پذیر ہوں وہاں پر بھی قانون کی اس قدر حکمرانی ہے کہ رات کے پچھلے پہر بھی جب کہ ٹریفک سگنل پر کوئی پولیس والا اپنے فرائض منصبی پر نہ بھی معمور ہو،وہاں بھی لوگ سرخ سگنل کو کراس کرنا جرم خیال کرتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے اور اگر ٹریفک جرمانہ ہو گیا تو کسی طور معافی ممکن نہیں ہوگی،ہم کبھی ساحل سمندر پر جائیں تو کھانا کھانے کے بعد کچرے کا لفافہ ہاتھ میں اٹھائے کوڑے دان کو ایسے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ پیاسا صحرا میں پانی۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بلدیہ کا کوئی افسر اگر دیکھ لے گا تو جرمانہ ادا کرنا پڑ جائے گا۔جبکہ اپنے ملک میں کچرے کو شاپر میں ڈال کر یوں دور سے دور پھینکاجاتا ہے جیسے کوئی اتھلیٹ ڈسک پھینک رہا ہو۔
اسی طرح جب ہم یورپ کی مثال دیتے ہیں تو اکثر کہتے ہیں کہ وہاں لوگ اخلاقیات کے دامن کو نہیں چھوڑتے،تعلیم وتربیت اعلی ہے جبکہ عوام الناس کی اخلاقی اقدار عروج پر نظر آتی ہیں۔لوگ سرکاری دفاتر، پبلک مقامات،میٹرو ،پارک،سینما ہالز وغیرہ میں انتہائی شائستگی سے لائن میں لگے اپنی اپنی باری کے منتظر رہتے ہیں۔ان سب کی وجوہات اور ممکنات کا اندازہ لگایا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے تین سو سال قبل اخلاقی گراوٹ کا شکار یورپ کیسے اپنے آپ کو سدھارنے میں کامیاب ہو گیا۔تو یقیناً قانون کی حکمرانی اور عملدرآمد سرفہرست ہوگا۔کیونکہ قانون کی پاسداری سے ہی لوگوں کی اخلاقی تربیت ممکن ہو پاتی ہے اور جن اقوام کا اخلاقی معیار اعلی رتبہ پر فائز ہو وہاں اقدارکا عروج اور ترقی کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔اوپر کی مثالوں کو دیکھ کر اگر ہم یہ جائزہ لیں کہ ہم بہ حیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں تو شرمندگی محسوس ہوگی۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟وہ اس لئے کہ ہم نے برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔شائد مولانا روم سچ ہی کہتے تھے کہ لوگوں کے ہجوم سے انسان تلاش کر رہا ہوں۔یقین جانئے آج بھی ہمارے ارد گرد لوگوں کا اجتماع ہے جن میں انسانیت نہیں۔اسی لئے ہمیں غلامی عجب نہیں لگتی۔وہ سیاسی غلامی ہو کہ معاشی،اخلاقی ہو کہ تہذیبی و ثقافتی۔غلام قوموں کے معیار اور اقدار بھی ان کی سوچ کے مطابق ہی ہو جایا کرتے ہیں۔اب یہ کیسے پتہ چلے کہ غلام کون ہے اور آزاد کون؟تو اس کے لئے ایک سادہ سا پیمانہ ہے کہ جس قوم میں شریف کو بے وقوف،مکار کو چالاک،قاتل کو بہادر اور اہل ثروت کو بڑا آدمی سمجھا جائے، سمجھ جائیں کہ اس قوم نے غلامی کے طوق کو گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔لہٰذا یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ سماج تب بدلے گا جب ہم بدلیں گے۔لیکن سب کہتے ہیں کہ ہم کیوں بدلیں معاشرہ کیوں نہیں بدل جاتا۔
ٰمزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/7541/
https://hijabislami.in/8598/