اس دور کو ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا دور کہا جاتا ہے۔ مورخین کہتے ہیں کہ جس تہذیب کو فتح ہوتی ہے، اسی مذہب کو فتح حاصل ہوتی ہے۔ اور جس تہذیب کو شکست ہوتی ہے اس کے مذہب کو بھی شکست ہو جاتی ہے۔
جب اسلام کا غلبہ تھا تو تمام دنیا یہ محسوس کرتی تھی کہ تہذیب ہے تو مسلمانوں کا، تمدن ہے تو مسلمانوں کی، فکر و علم ہے تو مسلمانوں کا۔ لیکن اب اسکے برعکس ہمارے اوپر مغرب کے افکار، فلسفے، طرزِ زندگی، تہذیب، تمدن سب کچھ چھاتا چلا جا رہا ہے۔ اب ہمیں اسلام تو پسند ہے، اسلامی تہذیب پسند نہیں۔ حالاں کہ مسلمان تو چلتے پھرتے پہچانا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو عسکری شکست بھی ہوئی اور فتح بھی، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے کسی دور میں بھی نظریاتی طور پر شکست نہیں کھائی۔ تمام تہذیبی رویوں میں سب سے بہترین رویہ محمدﷺ کا ہے۔ آپؐ نے صحابہ کو سکھایا کہ تمہارے ظاہری رویے میں کہیں بھی غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت نہیں ہونی چاہیے۔
اگر رہن سہن، لباس، پوشاک اور خاندانی رسم و رواج غیر اسلامی ہوں تو کیا ایمان صرف دل میں رکھنے کے لیے بھیجا گیا ہے! جب کہ ظاہر کا رویہ غیروں کی تقلید میں ہو۔
اقدار کیسے بدلتی ہے؟
(۱) عسکری غلبہ سے۔
(۲) بنیادی نظریات کی تبدیلی سے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بغداد میں تاتاری ایسے چھائے کہ مسلمان کی مرعوبیت کا یہ حال تھا کہ ایک نہتی عورت مسلمان کا سر اتار دیتی اور وہ جگہ سے ہل نہ پاتا۔
کہتے ہیں کہ دجلہ و فرات کا پانی ایک مہینہ مسلمانوں کے خون سے سرخ رہا اور ایک مہینہ مسلمانوں کی کتابوں کی سیاہی سے کالا۔ تاتاریوں نے صرف سروں کے مینار قائم نہیں کیے بلکہ مسلمانوں کاعلمی ورثہ بھی برباد کر دیا۔ ۷۰ سال کے بعد یہ ساری کی ساری تاتاری قوم مسلمان ہوگئی۔ مسلمانوں نے اپنے تہذیبی سرمایہ کی بنیاد پر تاتاریوں کو فتح کر لیا۔ آج ہمیں یہی تہذیبی معرکہ در پیش ہے۔
سمرقند و بخارا کی تاریخ باعث عبرت بھی ہے اور باعث نصیحت بھی۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ابن ماجہ، امام بخاری اور بڑے بڑے اولیاء اللہ بستے تھے۔ مورخین کہتے ہیں کہ یہودیوں کے کچھ گھرانے سمرقند، بخارا تجارت کی غرض سے گئے اور بہت جلد ان کا شمار اعلیٰ تاجروں میں ہونے لگا۔ ان یہودی تاجروں کے پاس اپنا نظام تعلیم تو تھا نہیں، لہٰذا مسلمانوں کے مدرسوں میں ان کے بچے پڑھتے رہے، اب یہ شناخت نہ ہوسکی کہ یہ یہودی بچے ہیں۔ یہ بچے ان تعلیمی اداروں سے نکلے اور بڑے بڑے مفتی بنے۔
چناں چہ تاجکستان اور ازبکستان میں یہودی علمائے سو داخل ہوگئے۔ اس سرزمین سے قدرتی وسائل نکالنے کے لیے یہودیوں نے کہا کہ ہم آپ کی خدمت کریں گے، ہم آپ کے لیے تعلیمی ادارے بنانا چاہتے ہیں، آپ کی صحت کی فکر ہے، ویکسی نیشن کی مہم چلاتے ہیں۔
ایسے میں مسلم علماء فتوی دیتے رہے کہ یہ اپنی مرضی سے آئیں گے لیکن آپ کی مرضی سے جائیں گے نہیں، تو عوام کو علماء کا دشمن بنا دیا کہ دیکھو یہ دقیانوس ہیں، ترقی کے دشمن ہیں، نہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں نہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ تو ہمارے لیے پل، سڑکیں، اسکول بنانا چاہتے ہیں۔
علماء کہتے رہے… اپنا معاشرہ، اپنی زمین، اپنی ملک ان کے حوالے مت کرو۔ فلسطین کی زمین جب یہودیوں کے ہاتھ بیچی گئی تو علماء منع کرتے رہے، پھر آخر کار انہی زمینوں پر اسرائیل بنا اور پھر جب ہر طرح سے قدم مضبوط ہوگئے تو سب سے پہلے سرزمین فلسطین سے علماء کی نسل کشی کی گئی۔ علمائے کرام ختم ہوگئے، تجارت معیشت ان کے ہاتھ میں آگئی۔
نصاب میں یہ تعلیم دی جاتی کہ جس طرح بھوک لگتی ہے تو تم کھانا کھانے میں شرم محسوس نہیں کرتے، اسی طرح اگر تمہارے دل میں شہوانی جذبہ پیدا ہوتا ہے تو اسے پورا کرنے میں شرم کیوں؟ریڈیو 24 گھنٹے چلانے کا قانون تھا، جس میں لغویات، فحش موسیقی، راگ رنگ سنائے جاتے۔ مقصد اخلاق بگاڑنا تھا۔
شراب کو اتنا عام کیا گیا کہ سوڈے کی بوتل چار روبل میں تو شراب کی دو روبل میں دست یاب ہوتی، اور یہ بھی بتایا جاتا کہ شراب سردی سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔
گھروں میں پولیس چھاپے مارتی کہ گھر میں نماز تو نہیں پڑھی جاتی! محلوں میں بچوں کو ٹافیاں دے کر پوچھا جاتا۔
ترکی کی تاریخ پر نظر ڈالیے
۸۰ سال کے بعد ترکی میں عورت کو سر ڈھانپنے کی اجازت ملی۔ ۱۹۶۸ء میں جب پابندی سخت تھی اس وقت بھی ایک طالبہ نے یونیورسٹی کے اس قانون سے بغاوت کی تو ایک رکن پارلیمنٹ کو حلف لینے سے روک دیا کہ وہ اسکارف پہنے ہوئے تھی۔ سیکولر پارلیمنٹ میں تیس منٹ تک چلاتے رہے’’آؤٹ، آؤٹ‘‘ ۸۰ سال بعد اجازت ملی کہ دین دارانہ اسکولوں میں سارا دن اسکارف پہنا جاسکتا ہے جب کہ دوسرے اسکولوں میں جزوی طور پر یعنی صرف قرآن کے پیریڈ میں۔
اس پر ترکی کے ایک سیکولر اخبار نے لکھا کہ اسکارف پہننے کی اجازت دینے سے بچیوں میں دینی رجحانات پیدا ہوں گے، جو درست نہیں۔ خطرہ ہے اسکارف کی اجازت چادر تک نہ جا پہنچے، اس سے ذہنی نشو و نما پر خراب اثرات مرتب ہوں گے۔
عراق میں ۷۰ سال بعد ساری کی ساری تاتاری قوم مسلمان ہوگئی۔ مسلمان مرد، بالخصوص مسلمان عورت نے اپنے تہذیبی ورثے کو نہیں چھوڑا۔
غیر اسلامی تہذیب کی عمر کم ہوتی ہے اور وہ بدل جاتی ہے۔ اسلام کی تہذیب ہمیشگی رکھتی ہے۔ لیکن جب کسی قوم کے بنیادی نظریات بدل دیں تو دائمی تبدیلی کا خطرہ یقینی ہے۔
کسی قوم کی مشابہت یا نقالی سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ پہلے فطری ہچکچاہٹ، کراہیت ختم ہوتی ہے، پھر مرعوبیت پیدا ہوتی ہے، پھر فرماں برداری عمل میں آتی ہے اور پھر نتیجہ دین سے دوری ہوتا ہے۔
تہذیب کو زندہ رکھنے میں سب سے اہم اور بنیادی کردار عورت کا ہے، اسی لیے اسلام نے عورت کو بہت ساری ذمہ داریوں سے ہلکا کیا۔ اس کا دائرۂ کار وہ رکھا جہاں بیرونی معاشرے کے اثرات اور ان کی تباہ کاریوں سے وہ محفوظ رہے۔ اس کے تمام تر اخراجات کا بوجھ اس کے کاندھوں سے لے کر کسی اور کے سپرد کیا۔ باپ، بھائی، شوہر اور حکومت کو کفالت کی ذمہ داری دی۔ ہر ہر مقام پر خصوصی مراعات دی گئیں۔ رتبہ بلند کیا، جنت جیسا اعلیٰ مقام اس کی خدمت کے انعام میں رکھا۔
یہی وجہ ہے کہ اقدار کی تبدیلی کے لیے عالمی منصوبے میں عورت کو ہدف بنایا گیا ہے، عورت کی فطری ذمہ داریوں سے برگشتہ کر کے ہر طرح سے عورت کو نشانہ بنایا اور عالمی اداروں نے مسلم ممالک سے اس شرط کے ساتھ مالی معاونت کا معاہدہ کیا کہ ان کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جائے، جس طرح وہ اسلام کے خلاف عورت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کمال ہوشیاری سے وہ انداز اختیار کیا جس میں بظاہر عورت سے ہمدردی اور بھلائی کا عنصر دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ:
*عورت کو اپنی آمدنی میں خود مختاری اور کشادگی حاصل ہو اس کے لیے عورت کو ملازمت کی سہولیات دی جائیں۔
* پاپولیشن کنٹرول کے لیے، عورت کی تعلیم میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ ملازمت بھی کرے اور بچے بھی کم ہوں۔
*عورت کو ترغیب دی جائے کہ شادی لیٹ کرے۔ اس کے لیے اسے میرج لائف کے تمام منفی پہلو دکھائے جایا کریں۔
*جنسی مساوات میں عورت اور مرد کو ہر سطح پر برابری دی جائے۔
*اسمبلی میں خواتین کو نمائندگی دی جائے۔
*بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ابارشن کو قانونی حیثیت دی جائیـ۔
*صنفی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے Too*s فراہم کیے جائیں، بالخصوص Sex worker کو سہولیات حاصل ہوں۔
*ازدواجی رشتے توڑنے کے لیے قانونی سہولیات دی جائیں کہ کم وقت میں فیصلہ ہوجائے، جب کہ دوسرے مقدمات طویل وقت لیں تو کوئی حرج نہیں۔
*حیا کا فقدان ہو، مخلوط ماحول کے ذریعے خاندانی نظام کو کمزور کیا جائے۔
یہ طے پایا کہ ورلڈ بینک اس کنڈیشن پر فنڈ دے گا کہ اس معاہدے پر عمل کی کیا پیش رفت ہے، اس کی رپورٹ دینی ہوگی اور باقاعدہ کارکردگی کی رفتار پر ان کا عملہ نگرانی بھی کرے گا۔
آج بھی دنیا میں جو معاشرہ اصلاح کا کام کرنا چاہتا ہے اسے آسمانی اور انبیاء کے طریقے اور طرز پر کام کرنا ہوگا۔
قرآن کہتا ہے کہ رائی کے برابر بھی کوئی عمل اثر نہیں کرتا جب مخاطب کا دل و دماغ آخرت کی فکر سے خالی ہو۔
قوموں کی بدعملی اور دین فراموشی کی اصل وجہ آخرت فراموشی تھی۔ ان کے دین کے زوال کی ابتدا ایمان بالآخرت کے زوال سے ہی ہوئی تھی۔ اس فکر آخرت سے جوں جوں ذہن غافل ہوتا ہے نماز سے رشتہ کٹتا جاتا ہے، پھر نماز سے جتنا دور ہوتے ہیں پوری شریعت سے تعلق ختم ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کی مرضی سے یکسر بے نیاز ہوکر وہ اپنے نفس اور اس کی خواہشوں کو اپنا دین اور شریعت بنا لیتے ہیں۔
’’انہوں نے نماز ضائع کردی اور اپنی خواہشوں کے پیرو بن کر رہ گئے۔‘‘ (سورہ مریم:۵۹)
جب تک فکر آخرت بیدار نہیں ہوتی کوئی دلیل، کوئی وعظ، کوئی ترغیب اور کوئی تلقین اسے دین کے طریقہ زندگی کی طرف واپس نہیں لاسکتی۔
دین کا تصور کامیابی یہ ہے کہ جو آخرت میں کامیابی پاگیا وہی کامیاب ہے۔ خواہ دنیا میں اس کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو، پہننے کو کپڑا نہ ہو، علاج کے لیے دوا نہ ہو، لیکن اللہ اس سے راضی ہوگیا، وہ کامیاب ہے۔ اس کے برعکس جس کے پاس دنیا بھر کی دولت، ذہانت، شہرت ہو لیکن اللہ نے اس کی سعی کو مسترد کر دیا تو وہ ناکام ہے۔ فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہمیں کون سی کامیابی مطلوب ہے؟***