معاشرہ گھر سے بنتا ہے اور گھر افراد کے باہمی میل جول سے تکمیل پاتا ہے۔ جب گھر کی بنیاد ہی جھوٹ و خود غرضی پر رکھی گئی ہو تو ایک مثبت معاشرہ کیسے بن سکتا ہے؟
والدین کے لڑائی جھگڑے بچوں کے ذہن کو تباہ کردیتے ہیں۔ گھر کا ماحول ہی کسی بچے کی بہتر اور بدتر شخصیت کا ضامن ہوتا ہے۔ بچہ تو آئینے کی مانند ہوتا ہے کہ اس کے سامنے جو شبیہ آئے گی وہ اسی شبیہ کو دیکھ کر اُس کا اثر قبول کرے گا۔ اگر ماں باپ میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو بچے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ وہ ایسے ماحول سے فرار چاہتے ہیں۔ ذہنی طور پربہت پسماندہ ہوجاتے ہیں۔ اپنے ہر فعل کو صحیح قرار دیتے ہیں چاہے وہ اُن کے لیے کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو۔ حد سے زیادہ شدت پسند ہوجاتے ہیں۔ کچھ بچے بہت بگڑجاتے ہیں اور کچھ گھر سے فرار کے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ کچھ ذہنی طور پر آوارہ ہوجاتے ہیں اور فحش لٹریچر وغیرہ کے عادی ہوجاتے ہیں۔ یہ سب صرف ماں باپ میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ باپ ماں کو برا بھلا کہتا ہے، ماں باپ کے عیب عیاں کرتی ہے۔ بچے کا ننھا سا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ وہ کس کو صحیح مانے۔
ہمارے معاشرے میں جھوٹ ہوا کے ساتھ گھل گیا ہے۔ باپ کا کوئی دوست آیا ہے تو باپ نے کہلوادیا کہ گھر پر نہیں ہیں۔ ننھا بچہ ذرا رویا کہ یہی سوال اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے ’’کس نے مارا؟‘‘ پھر بار بار یہی سوال دہرایا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اپنے کسی بھائی بہن، پڑوسی یا ساتھی کا نام لے دیتا ہے۔ اس طرح اس بچے کو سچ بولنے کی تلقین کس طرح کرسکتے ہیں۔ ماں، باپ کا سارا غصہ بچے پر نکالتی ہے، اسے مارتی ہے، گالیاں دیتی ہے۔ پھر جب بچہ وہی گالی دہراتا ہے تو مارا پیٹا جاتا ہے۔ سارا الزام بچے کو دے دیا جاتا ہے کہ غلط صحبت میں اٹھ بیٹھ رہا ہے۔
آج کل بچے کو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ بدتمیز ہے، منھ پھٹ ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ آج کا بچہ کل کے بچے سے کئی گنا ذہین ہے۔ کل کے بچے کو اگر اس کا استاد کوئی چیز بتاتا تھا اور اس بچے کے ذہن میں کوئی سوال یا خلش رہ جاتی تھی تو وہ پاسِ ادب سے معمور ہوکر دوبارہ نہیں پوچھتا تھا، لیکن آج کا بچہ اگر کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے تو دس دفعہ پوچھتا ہے۔ اپنے لیے اس چیز کی تسلی چاہتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بڑا گھر میں ننگے پاؤں پھرے اور بچے کو ننگے پاؤں پھرنے سے منع کیا جائے تو وہ پوچھتا ہے کہ جب آپ ننگے پاؤں پھرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں چل سکتا۔ اس بات کو بچے کی بدزبانی پر محمول کیا جاتا ہے۔
بچوں کی تربیت میں ہماری غیر ملکی تہذیب و ثقافت بہت بڑا رول انجام دے رہی ہے۔ بچے فلمیں دیکھتے ہیں اور اداکاروں جیسے ایکشن کرتے ہیں تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں لیکن آپ نے کبھی ان بچوں سے دوسرا یا تیسرا کلمہ سنا؟ سو فیصدی نہیں سناپائیں گے۔ اور پھر الزام یہ دیا جاتا ہے کہ آج کل کے بچے دین سے بے بہرہ ہیں۔
ضروری ہے کہ برائی کو اپنے قریب آنے سے پہلے ختم کردیا جائے۔ بچوں کے سامنے خود عملی نمونہ بنیں اور اپنے گھر کی فضا کو بھی لڑائی جھگڑوں سے پاک رکھیں اور صحیح معنی میں بچوں کو کل کے وقت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار کریں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ صرف اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔