معاشرے کا استحکام خواتین کو حقوق کی فراہمی میں ہے

ترتیب و پیشکش: غزالہ عزیز

مشہور و معروف ایکٹریس ’’مارلن منرو‘‘ نے خودکشی سے پہلے اپنی قریبی سہیلی کو لکھا تھا :’’میری ظاہری چمک دمک اور ٹھاٹ باٹ دیکھ کر تم دھوکا نہ کھاؤ، اس دنیا میں مجھ سے زیادہ محروم اور بدنصیب عورت شاید ہی کوئی ہو۔ میری تمنا تھی ماں بننے کی، لیکن میں محروم رہی۔ میں ایک شریفانہ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھی لیکن میری یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی۔ اب میں اس دنیا سے رخصت ہورہی ہوں کیونکہ یہ دنیا مجھے کاٹ کھا رہی ہے، اور جاتے جاتے میں تم کو یہ نصیحت کرنا چاہتی ہوں کہ آزادی کی اس دنیا میں کبھی قدم نہ رکھنا اور ایک سادہ،پُرسکون، مطمئن، پاک گھریلو زندگی گزارنا۔ یہی عورت کی سب سے بڑی کامیابی ہے اوریہی اس کی معراج ہے۔‘‘
عصر حاضر کی ایک اور مشہور اداکارہ ’’صوفیہ لارین‘‘ اعتراف کرتی ہے کہ میں اداکاری کی خاطر عرصے تک ماں نہ بن سکی اور ایک عجیب بے چینی کا شکار رہی، ۵۲ برس کی عمر میں ماں بننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھ میں کیا کمی تھی اور میں اتنے عرصے تک کتنے قیمتی احساس سے محروم رہی۔
آج عورت کو کس طرح استعمال کیا جارہا ہے، معاشرے میں کام کرنے والی ایک سوشل ورکر کے ان الفاظ سے احساس ہوتا ہے کہ ’’عورت کو جنسی بھوک مٹانے والی شے بنادیا گیا ہے، بیچنا ٹائر ہوتا ہے اور دکھائی نیم برہنہ عورت جاتی ہے۔‘‘ آج خواتین کو اپنے خلاف ایک نہایت وسیع اور پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے، اس جنگ کا مقصد عورت کو اس کی محفوظ پناہ گاہ ’’گھر‘‘ سے نکال کر کارخانوں، ملوں اور دفاتر میں نہایت ارزاں نرخوں پر نہایت توجہ اور انہماک سے کام کرنے والا محنتی کارکن بنانا ہے۔ عورتوں کے حقوق اور آزادی کے پردے میں لڑی جانے والی اس جنگ میں سارے کا سارا فائدہ سامراجی نظام اور استحصالی طبقے کا ہے اور تمام تر نقصان عورت کا۔
ہمارے معاشرے کی ذی شعور خواتین اس نفع و نقصان کا شعور رکھتی ہیں؟ اپنے حقوق کا شعور اور ان کے حصول کے لیے کوئی طریقہ کار ان کے ذہن میں ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی، کچھ خواتین سے رابطہ کیا اور ان سے اس سلسلے میں چند سوالات کے جوابات حاصل کیے۔ دیکھیے وہ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں۔
سوالات
۱- کیا خواتین اپنے حقوق کا شعور رکھتی ہیں؟
۲- خواتین کے لیے ان کی اپنی نظر میں ان کا سب سے اہم حق کیا ہے؟
۳- اپنے حقوق کے حصول کے لیے انہیںکیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے؟
۴-اگر خواتین کو ان کے حقوق دے دیے جائیں تو کیا معاشرے میں تبدیلی آسکتی ہے؟
٭ ڈاکٹر رفعت رعنا (سوشل ورکر، کلینک کے ساتھ ایک اسکول بھی چلا رہی ہیں، جہاں غریب بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے)
۱- اپنے حقوق کا شعور نہیں ہے۔
۲- پہلا حق عزت اور تحفظ کا حصول ہے۔
۳- تعلیم حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں اور وقت کو گھریلو سیاست اور فضول باتوں میں ضائع کرنے کے بجائے مثبت کاموں میں استعمال کریں، دوسروں کی مدد اور فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
۴- جی ہاں آسکتی ہیں۔ گھر میں سکون ہوگا، محبت ہوگی تو مرد گھر میں وقت گزارنا پسند کریں گے، بچے بھی خوش اور مطمئن ہوں گے اور اس سے صحت مند معاشرہ جنم لے گا۔
٭ تہینہ اعظم (اسٹوڈنٹ ویمن اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ)
۱- عورت کو فرائص کا تو پتہ ہے لیکن حقوق کا شعور نہیں ہے۔
۲- پسند کی شادی کا حق ہونا چاہیے، لیکن اس راستے میں خود خواتین ہی رکاوٹ ہوتی ہیں۔
۳- تعلیم کے ذریعے بلکہ ہائر ایجوکیشن کے ذریعے، حقوق کی آگاہی کے ذریعے، اس سلسلے میں اساتذہ اور ماؤں کو حقوق کا شعور ہوگا تو وہ آگے دے سکیں گی۔
۴- بالکل، بہت بڑی تبدیلی آئے گی کیونکہ آبادی کا ۵۱ فیصد خواتین ہیں۔
٭ شمیم اختر (ورکنگ ویمن)
۱- شعور نہیں ہے، یہاں تو پورے عوام ہی بے حس اور بے شعور ہیں تو عورت کا کیا ذکر!
۲- جس مقام پر ہے اس کے مطابق اس کو اس کا حق دیا جانا چاہیے، مثلاً اگر بیٹی ہے یا ماں ہے یا بیوی ہے… ان حیثیتوں میں اس کو عزت اور حق ملنا چاہیے۔ پھر اگر وہ کہیں ورکنگ ویمن ہے تو اس جگہ اس کی عزت ہونی چاہیے۔
۳- ڈبیٹ کرنی چاہیے لیکن اپنی حد اور مقام پر رہتے ہوئے۔ یہ نہ ہو کہ ایک رسہ کشی کی کیفیت ہو کہ مرد کو نیچا دکھانا ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، اس کی اِس حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں ان کامقام خود لینے کی کوشش کی جائے گی وہاں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔
۴- صرف عورت کو نہیں معاشرے کے ہر فرد کو اس کا حق دینا ہوگا، تبدیلی جب ہی آئے گی۔ دین اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ’’وہ مومن نہیں ہوسکتا جو اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا حق ادا کیے جائیں تو سب کو خود بخود ان کے حقوق مل جائیں گے۔
٭ ڈاکٹر مہ جبیں (لیڈی ڈاکٹر)
۱- پہلے شعور نہیں تھا، لیکن اب ہوتا جارہا ہے۔
۲- صلاحیتیں آزمانے کے میدان کا حصول … مثلاً کاٹیج انڈسٹری، گونگے بہرے بچوں کے اسکولوں اور دیگر اسکولوں میں کام وغیرہ۔
۳- تعلیم دیں، تجربات سے سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں۔
۴- ہاں ضرور تبدیلی آئے گی۔ دیے سے دیا جلتا ہے۔ مثال بننا ہے لیکن اچھی مثال بننا ہے، ایسا نہ ہو کہ خواتین معاشرے میںفسادپھیلانے کا ذریعہ بن جائیں۔
٭ اروبا (ایجوکیشنسٹ)
۱- کچھ شعور تو موجود ہے لیکن مکمل آگاہی نہیں ہے۔
۲- خواتین کے لیے سب سے اہم حق تعلیم کا ہے۔
۳- اپنے حقوق کے لیے پہلے پیار و محبت اور افہام و تفہیم سے کام لینا ہوگا، پھر اگر نہ ملے تو لڑنا ہوگا۔
۴-یقینا معاشرے میں جب ایک دوسرے کی عزت کی جائے گی اور ایک دوسرے کے حقوق کا دھیان رکھا جائے گا تو معاشرہ مستحکم ہوگا۔ پھر بچے ماؤںکی فرسٹریشن سے بچیں گے تو ان میں معتدل اور متوازن شخصیت پروان چڑھے گی۔
ان سوالات کے جوابات میں عمل کے بہت سے نکات موجود ہیں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ درحقیقت مظلومی نسواں کو عقدئہ مشکل بنانے میں خود عورت کی اپنی کوتاہیاں بھی کم نہیں۔ عورت نفسیاتی طور پر عقل کے بجائے دل پر بھروسہ کرتی ہے۔ بعض دفعہ خود عورت ہی عورت کے استحصال میں ملوث ہوتی ہے۔ اقبال عورت کے معاملے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
میں بھی مظلومیٔ نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدئہ مشکل کی کشود
اس عقدئہ مشکل کو حل کرنے میں جہاں دیگر نظام اور مذاہب افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں وہاں اسلام ایک انتہائی اعتدال اور مساوات کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ عورت کو ایسے ایسے حقوق عطا کرتا ہے، جن کے بارے میں اس سے پہلے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
اسلام اسے مکمل انسانی اور سماجی حقوق دے کر وراثت کا حق دلواتا ہے، شادی کے معاملے میں پسند و ناپسند کا حق دیتا ہے، خلق کا حق دلواتا ہے، اس کے ساتھ نہایت نرمی اور درگزر کا معاملہ کرنے کی ہدایت دیتا ہے، اس کو عزت و احترام کی وہ بلندیاں عطا کرتا ہے، جس پر پہنچنے کی مردوں کو حسرت رہی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146