معاشرے کا تزکیہ اور تحفظ

زینب حسین غزالی

حجاب کے بنیادی مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اسلام سماج اور معاشرے میں اعلیٰ قدروں او ربلند کرداری کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات توحید و نماز سے لے کر غضِ بصر کے حکم تک افراداور سماج کے لیے ایک ایسا اخلاقی فریم فراہم کرتی ہیں جس میں برائی تو کیا برے خیالات تک پر پابندی لگ جاتی ہے۔ جریر بن عبداللہ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول سے پوچھا کہ اچانک اگر کسی عورت پر نظر پڑجائے تو کیا کریں؟ آپؐ نے جواب دیا: ’’اصرف بصرک‘‘ اپنی نگاہ پھیرلو۔ حضرت علیؓ سے ایک مرتبہ کہا: ’’اے علی! پرائی عورت پر دوبارہ نگاہ نہ ڈالو۔ پہلی تو معاف ہوسکتی ہے مگر دوسری نظر ڈالنا جائز نہیں۔‘‘ یہ دونوں ابوداؤد اور مسلم کی حدیثیں ہیں۔ دونوں باتیں دو جلیل القدر صحابہ سے کہی گئی ہیں۔ ان دونوں میں جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ عام انسانوں کی نفسیات ہے۔ وہ نفسیات اجنبی عورت پر نظر پڑنے اور ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کی ہے۔ کوئی ضرورت نہیں کہ اجنبی عورت کی طرف اٹھنے والی ہر نگاہ نظر بد ہی ہو۔ مگر اس کا امکان بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ فطری بات ہے اسی لیے اپنے جذبات، نگاہ اور خیالات کو بھی صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی گئی ہے اور اسلام اس پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔

اب سورئہ احزاب کی ان آیا ت پر نظر ڈالیں جن میں پردے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ ان آیات 32-33کو دیکھئے، خطاب اصلاً ازواجِ مطہرات سے ہے مگر بات تمام خواتین معاشرہ کے لیے ہے۔ آیت 32 میں کہا گیا ہے:

’’اندازِ کلام میں لوچ نہ رکھو کہ بیمار نفسیات والا آدمی اس کے کچھ اور معنی سمجھ کر رال ٹپکانے لگے۔‘‘

بیمار نفسیات، اور طمع یہی وہ الفاظ ہیں جن کے ذریعے سے موجودہ دور کے ماہرینِ نفسیات مجرمین زنا کی ذہنیت کو دیکھتے ہیں۔ آپ مجرمین زنا کے انٹرویوز دیکھ لیں یا ماہرینِ نفسیات کے ذریعے ان افراد کا نفسیاتی تجزیہ پڑھ لیں یہی بات کہی جاتی ہے کہ وہ ایک کمزور لمحہ تھا جب وہ اس جرم کا ارتکاب کربیٹھے اور یہ زنا کے مرتکبین اصلاً نفسیاتی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔

اب ذرا اپنے شہر کے کسی چوراہے کا منظر دیکھئے جہاں نوجوانوں کا ایک گروہ ہمیشہ بیٹھا آنےجانے والی لڑکیوں کو تاکنے اور گھورنے کا کام مسلسل کرتا رہتا ہے۔ وہ گزرنے والی لڑکیوں پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے بھی کرتا ہے اور ہر گزرنے والی لڑکی اس جگہ سے بڑی ان کمفرٹبل کیفیت سے گزرتی ہے۔ کیا علاج ہے اس کا؟ رسولؐ کے زمانے میں توافراد اور معاشرہ بڑا صاف ستھرا تھا اور اس کا تزکیہ اور تربیت خود رسولؐ کررہے تھے۔ مگر اس کے باوجود نگاہ اٹھ ہی جاتی ہے۔ جیسا کہ صحابی خود پوچھتے ہیں۔ تو کیا صرف نظر جھکالینا ہی کافی ہے یا مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

جی ہاں! یہا ںضرورت پیش آتی ہے کہ عورت جب گھر سے باہر نکلے تو ایسے لباس میں نکلے کہ اس کی طرف اٹھنے والی ہر نگاہ اور اس کے جسم و وجود کے درمیان ایک ’آڑ‘ رہے تاکہ وہ اس نگاہ کی برائی سے محفوظ رہے۔ یہ تحفظ صرف اسی کو حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف نگاہ اٹھ رہی ہے بلکہ اٹھنے والی نگاہ کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ حجاب سے عورت کو بھی تحفظ حاصل ہوتا اور مردوں کو بھی کہ ان کی نگاہ اور عورت کے درمیان ایک آڑ موجود ہے اور اٹھنے والی نگاہ اس سے ٹکر ا کر ایک نئے احساسِ پاکیزگی کے ساتھ واپس آجاتی ہے اور احساس دلاتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہی حجاب کا مقصد بھی ہے اور یہی اس کا حاصل بھی ہے۔ اس کے ذریعے سماج اور سماج کے افراد کے ذہن وفکر میں پاکیزگئ نگاہ کا تصور مضبوط ہوتا ہے جو سماج میں حیا کو فروغ دیتا ہے اور اسے عریانیت اور فحش خیالی سے پاک بھی رکھتا ہے اور برائی کے جراثیم کے خاتمہ پر منتج ہوتا ہے۔

حجاب کا ایک پہلو اور ہے جسے موجودہ تہذیب کے تناظر میں اور زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اس تہذیب کے فیشن میں جسم ڈھانپنے سے زیادہ جسم کی نمائش کا پہلو ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ نظریہ کہ ’’اگر آپ خوبصورت ہیں تو اس پر فخر کیجیے۔‘‘ الفاظ کی حد تک کوئی برا نہیں ہے۔ ہر انسان کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نےاسے صحت مند اور پُرکشش جسم کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ مگر ان الفاظ کا مطلب یہ نہیں جو ہم نے بیان کیا بلکہ اس سے بالکل مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ خوبصورت چیز سے لوگوں کی نظروں کو سیرابی فراہم کی جائے۔اگر یہ بات درست نہیں ہے تو لباسوں سے جسم کیوں جھانکتے نظر آتے ہیں۔ یہ بڑا سوال ہوگا۔ عملاً بات وہی ہے کہ خوبصورتی کو دعوت نظارہ دینی چاہیے۔ یہ بات اشیاء کی حدتک تو درست ہوسکتی ہے مگر جسم کے سلسلے میں یہ تصور سماج کو برائی اورفحاشی سے دوچار کرے گا اور کررہا ہے۔ جبکہ پردہ کا تصور اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ زینت اور خوبصورتی کو چھپانے کا ذریعہ ہے اور سماج اور سماج کے افراد کو یہ تصور دیتا ہے کہ جسم وہ بھی عورت کا جسم اور اس کی خوبصورتی دکھانے اور ظاہر کرنے کی چیز نہیں۔ یہ تصور اگر کسی سماج میں ہو اور اسے عام تصوربنادیا جائے تو سماج اور اس کے افراد کے اذہان و قلوب ایک نئی سوچ اور نئے جذبے سے ہمکنار ہوں گے۔ وہ نئی سوچ اور جذبہ جو پاکیزگی اور حیا کے تصور پر مبنی ہوگا، جو سماج اور افراد دونوں کے ذہن و فکر کے تزکیہ کا ذریعہ ہوگا۔ اس سوچ کے نتیجے میں سماج ان بہت ساری برائیوں سے محفوظ ہوجائے گا جو عریانیت کے سبب فحاشی کی صورت میں دنیا دیکھ رہی ہے۔

حجاب کے بارے میں اس بات کو بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایسے معاشرے کی علامت اور اس کا مظہر ہے جس کے افراد حسنِ اخلاق کا پیکر ہوں۔ حجاب اس کی علامت ہی نہیں بلکہ ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کے سماج میں فروغ کا بھی ذریعہ ہے جو اسے بے شمار اخلاقی برائیوں سے تحفظ دینے والی اور پاک کرنے والی ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن ایمان والوں کی میزان میں سب سے وزنی چیز حسنِ اخلاق اور عمدہ سیرت و کردار ہوگا۔‘‘

مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا کہ:

’’اللہ تعالیٰ فحاشی پھیلانے والوں اور زبان سے گندی باتیں نکالنے والوں کو پسند نہیںکرتا۔‘‘

کسی بھی معاشرے میں حجاب کا تصور مردوخواتین کو حسنِ اخلاق کا خوگر بناتا اور گندی سوچ اور گندی باتوں سے محفوظ رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور اس سے حفاظت بھی کرتا ہے۔

زنا یا بدکاری کو ہر سماج میں ناپسند کیا جاتا ہے اور جرم ہے جس کے مرتکب کو قانون سزا دیتا ہے۔ حجاب جس معاشرے کا نمائندہ اور جس سماج کی تشکیل کا داعی ہے وہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے نہایت عظیم الشان ہوتا ہے اور اس کے افراد اخلاقی برائیوں سے یکسر دور رہتے اور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جس سماج میں بری نظر کو آنکھوں کا زنا تصور کیا جاتا ہو، ناحق لینے اور حرام کو پکڑنا ہاتھوں کا زنا سمجھا جاتا ہو، گندی اور فحش باتوں کو زبان کا زنا گردانا جاتا ہو اور غلط اور برائی کے راستے پر چل کر جانے کو ٹانگوں کو زنا قرار دیا جاتا ہو اس سماج کی پاکیزگی اور بلند کرداری کا تصور کرکے، اس میں زندہ رہنے کی اور جینے کی خواہش ہر انسان کے دل میں یقینی ہے۔

حجاب ایسا ہی معاشرہ تشکیل دیتا ہے اور سماج اور اس کے افراد کی ایسی ہی سوچ پروان چڑھاتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں