معاشرے کی اصلاح

شمشاد حسین فلاحی

ہندوستان میں مسلمان دین سے دوری کی جو زندگی گزار رہے ہیں وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ عام زندگی، رسم و رواج، سوچ وفکر، اخلاق و معاشرت غرض تمام چیزیں دیکھ کر کم ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم مسلمان اسلام سے مطابقت رکھنے والی زندگی گزار رہے ہیں۔ عریانیت و بے حجابی جس طرح سماج میں عام ہے ہم بھی اس کا شکار ہیں۔ جاہلانہ رسمیں جس طرح غیر مسلم سماج میں پائی جاتی ہیں ہم بھی ان کے جال میں گرفتار ہیں، شادی بیاہ کے موقعوں پر جس طرح ان کے یہاں فضول خرچی ہوتی ہے ہمارے یہاں بھی ہے، خدا بیزار لوگ اپنی تقریبات میں جس طرح آزادی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہم بھی عملاً اسلامی اقدار چھوڑ دیتے ہیں۔ جو معاشرتی برائیاں دوسروں میں ہیں ہم بھی ان کا کسی نہ کسی حد تک شکار ہیں۔ دوسرے جس طرح شرک و بت پرستی کی کیچڑ میں لت پت ہیں ہم بھی بہت سی جگہوں پر ان میں مبتلا ہیں۔ دوسرے حرام اور حلال رزق میں فرق نہیں کرتے تو ہم بھی حلال و حرام کی فکر سے بڑی حد تک دور ہیں۔ دوسرے لوگ معیار زندگی کی دوڑ میں لگے ہیں تو ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہاں وہ تعلیم کے میدان میں آگے ہیں تواس کی ہمیں فکر نہیں۔ ہمیں کم ہی فکر ہے کہ اپنی نسلوں کو تعلیم یافتہ کرنے اور ملک و ملت کے لیے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

جبکہ ہمارے اور دوسروں کے درمیان فرق ہونا چاہیے۔ ہم اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے اور آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ مر کر اللہ کے پاس جانا اور اپنی پوری زندگی کی اچھائیوں اور برائیوں کا حساب کتاب اللہ تعالیٰ کے سامنے دینا ہے۔ مگر — افسوس کہ ہماری زندگی میں اس عقیدہ اور اس ایمان کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ہماری گھریلو زندگی اور خاندانی تقریبات سے لے کر اجتماعی زندگی اور معاملات تک میں دین سے دوری اور جہالت نظرآتی ہے۔

مسلم معاشرہ کی خواتین کی حالت دوسروں کے مقابلہ اس حیثیت سے تو بہتر ہے کہ عام معاشرہ کی خواتین کی طرح بڑے پیمانے پر وہ اخلاقی برائیوں میں مبتلا نہیں ہیں مگر تعلیم اور فکروسوچ کا معاملہ دگرگوں ہے۔ دین کے نام پران کی معلومات محض روایتی عقائد اور سنی سنائی باتیں ہیں جن میں اکثر جگہوں پر شرک و بدعات سرایت کیے ہوئے ہیں۔ لاکھوں لاکھ خواتین ایسی ہیں جو قرآن تک پڑھنا نہیں جانتیں اور جو مزاروں پر حاضری کو ہی دین سمجھتی ہیں۔ اور بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں جہاں جہالت کو دین کے نام پر اختیار کرلیا جاتا ہے۔ اس کی مثال کے لیے شادی بیاہ اور خوشی و غم کے دیگر مواقع کو لے سکتے ہیں۔

اس وقت مسلم معاشرہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ ان میں سے کچھ ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کا سبب وقت کی تبدیلی، سیاست اور حکومتی پالیسی سے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں گجرات جیسے واقعات نے ہمارے سامنے کیا کیا چنوتیاں رکھی ہیں اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں مسلمانوں کو کس قسم کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہاں کچھ لوگ مسلمانوں کے وجود اور ان کی دینی شناخت ختم کرنے کے لیے پوری جدوجہد کررہے ہیں اور مختلف طریقوںسے ہماری خواتین کو مکاری کے جال میں پھنسا کر ’’جدیدیت‘‘ یا ماڈرنزم کا درس دیا جارہا ہے اور ان کا مقصد ان میں بے دینی کو قائم کرنا اور ہماری نئی نسل کو خدا بیزار بنانا ہے۔

اب بات صرف یہ ہے کہ یا تو ہمیں حالات کے دھارے میں بہ جانا ہے یا اسے موڑنے کی جدوجہد کرنی ہے۔ ہم جانتے ہیں زندہ قومیں ہمیشہ حالات کے دھارے کو بدلنے ہی کی فکر میں رہتی ہیں اور اس وقت ہمیں بھی زندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئی جدوجہد شروع کرنی ہے۔ اور یہ جدوجہد مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس میں دینی بیداری لانے کی ہے۔

بے شمار رسوم و رواج اور ان گنت مواقع پر خواتین کا کردار ہمارے گھروں میں کلیدی اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو سیکڑوں برائیوں کو اپنے گھروں سے بہ آسانی ختم کرسکتے ہیں۔ شادی بیاہ اور غمی کی رسموں میں شاندار مثالیں قائم کرکے بدعات اور برائیوں کے خاتمے اور ان کو زبردست دینی بیداری کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔ ہم اگر چاہیں تو اپنی شادیوں کے ذریعہ اسلام کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش اور انتقال کے موقعوں پر لوگوں کو یہ بتاسکتے ہیں کہ اسلام ہمیں کس چیز کی تعلیم دیتا ہے۔ ہم ایک ایسے گھرانے کی لڑکیوں کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں جہاں ماں کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت پاس پڑوس کی خواتین نے گھر آکر رونا پیٹنا اور نوحہ خوانی شروع کی تو ان نوجوان لڑکیوں نے اس طرح کی خواتین کو سختی سے ڈانٹ کر خاموش کردیا اور لوگوں کو بتایا کہ اسلام ایسے موقعوں پر کیا رہنمائی کرتا ہے۔

مسلم معاشرہ کی اصلاح کا عمل اس وقت تک نہیں ہوگا بلکہ شروع ہی نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنی نصف انسانیت کے ذہن و فکر اور طرز عمل کی اصلاح نہ کریں۔ اور یہ اصلاح کا کام کوئی تحریک، کوئی جماعت یا کوئی پلیٹ فارم اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ ہماری خواتین اس کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ان کا تعاون نہ کریں۔

حالات اور وقت مسلم خواتین اور طالبات سے اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ مقامی سطح پر اصلاح معاشرہ کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور اپنی گھریلو اور معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی برائیوں اور بدعات کو نشانہ بناکر گھر گھر جائیں خواتین کو دین سکھائیں اور غلط رسموں اور غیر اسلامی رواجوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انہیں سمجھائیں۔ جو پڑھ سکتی ہیں انہی دینی لٹریچر فراہم کریں اور اس وقت تک نہ رکیں جب تک گاؤں، محلہ یا آبادی کی ہر ہر عورت کے اندر اور اس کے گھر میں دین کا صحیح شعور بیدار نہیں ہوجاتا۔ اگر یہ کام ہوگیا تو ہم دیکھیں گے بچے اور مرد بھی ان کی پیروی میں اسلام کی نمائندگی کرنے لگے ہیں۔

بہ ظاہر یہ کام بہت بڑا اور مشکل نظر آتا ہے لیکن مقامی سطح پر منصوبہ بندی اور پوری فکر کے ساتھ کیا جائے تو چند ماہ میں حالات بدلتے نظر آئیں گے اور ہم دیکھیں گے خاندان کے خاندان جاہلانہ رسموں اور معاشرتی برائیوں کے جال سے نکل کر دین کو اختیار کرتے جارہے ہیں۔

اگر ہم نے اس وقت اپنے معاشرہ کی اصلاح اور دینی بیداری کی فکر نہ کی تو آنے والے وقت کی فکری یلغار اور معاشرتی و اخلاقی برائیوں کے طوفان کے سامنے ہم ٹھہر نہ سکیں گے اور اندیشہ ہے کہ اپنی شناخت اور اپنا سب کچھ کھو بیٹھیں۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں