طلبہ قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کسی مفکر نے کہا تھا کہ مجھے ’’آج کا کلاس روم بتاؤ میں تمھیں کل کا معاشرہ بتاؤں گا۔‘‘ جیسا آج کا تعلیمی ادارہ ہوگا ویسا ہی کل کا معاشرہ ہوگا۔ اگر آج کلاس میں جھوٹ، چوری، غنڈہ گردی، دھوکا بازی وغیرہ ہوتے ہیں تو ہم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کل ہمارا معاشرہ صالح ہوگا۔‘‘
احساسِ ذمہ داری
ہمیں پہلے تو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں یونہی نہیں بھیج دیا ، بلکہ ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے اور ایک ذمہ دار کی حیثیت سے بھیجا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف طور پر وہ مقصد بتادیا ہے:’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک خلیفہ ہیں۔ خلیفہ کہتے ہیں ’’نائب‘‘ کو اور نائب کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی نہیں بلکہ اس کی مرضی کو نافذ کرتا ہے جس کا وہ نائب ہے۔ نائب کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ جس کا نائب ہے، اس کی اطاعت کرے اور اس کے ذریعے دیے گئے اختیارات کے دائرے سے باہر نہ نکلے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اپنے نائب ہونے کی حیثیت کو نہیں پہچانتا۔ اس کی دی گئی نیابت کا حق ادا نہیں کرتا۔ ایسے میں وہ امین نہیں تصور کیا جائے گا اور نہ ہی یہ سمجھا جائے گا کہ اس کے اندر اپنے بڑے ذمے دار کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے۔ اسی طرح کا معاملہ انسان کا ہے کہ جب انسان اپنے آقا کی اطاعت نہیں کرتا تو وہ باغی تصور کیا جاتاہے۔ اس کے لیے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ انسان اپنے اندر اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کرے اور اس کی ابتدا خود اپنی ذات سے ہوتی ہے۔
اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے ہم خود اپنے آپ کو تیار کریں۔ او ر جب ہم تیار ہوجاتے ہیں تو اسلام ہمارے لیے عملی خاکہ بھی پیش کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمارا دائرہ کار کیا اور کہاں تک ہے۔ اس عملی خاکے کے متعلق جاننے کے لیے ہمیں قرآن و سنت کا علم حاصل کرنا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم اچھے اور برے کی تمیز کرسکیں گے اور ایسے صالح لوگوں کی آج ضرورت ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
نیکی کو پھیلانا اور بدی سے روکنا۔ اس کا ایک بہترین طریقہ خاموش تبلیغ ہوسکتا ہے۔ یعنی ہم اپنے کردار سے اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
ہم اپنے اعمال اور کردار سے دوسروں کو متاثر کریں گے۔ دوسروں کے لیے ہم مثالی بنیں گے، جیسا کہ کسی شاعر نے خوب کہا تھا:
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکرِ عمل بن کر غیب کی صدا ہوجا
معاشرے کی تعمیر کے لیے ہمارے پاس سچی ہمدردی ہو اور یہ جذبہ ہو کہ انسانوں کو جو ہمارے اپنے بھائی بہن ہیں، عذاب میں مبتلا کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم معاشرے کو بگڑنے نہیں دیں گے۔ ہم بزدل نہیں ہیں۔
آج اگر دنیا میں برائیو ںکا راج منظم طور پر ہورہا ہے تو کیا نیکی کو فروغ دینے کے لیے لوگوں کو منظم نہیں کیا جاسکتا؟ ہاں اس کی ضرورت ہے۔ طلبہ کیونکہ قوم کا مستقبل اور طاقت و قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور محض اپنی طاقت کے بل پر حالات کا رخ موڑ دینے کی قوت رکھتے ہیں اس لیے اگر وہ احساسِ ذمہ داری اپنے اندر پیدا کرلیں تو ماحول بدل سکتا ہے۔ ایک احساس تو اپنے نائب اور خلیفہ ہونے کا اور دوسرا احساس سماج و معاشرہ کے ذمہ دار شہری ہونے کا۔
اگر بہ حیثیت مسلمان اور بہ حیثیت شہری ہم طلبہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں تو سماج میں برائیوں کے سیلاب کے سامنے بند باندھا جاسکتا ہے اور اسی طرح اچھائیوں کو فروغ دے کر سماج کو نیکی کی راہ پر لگایا جاسکتا ہے۔
——