قرآن مجید میں نبی ﷺ کے بارے میں ارشاد ہے: ’’اور بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر ہیں۔‘‘ (القلم: ۴)
نبی ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل بیان کیا ہے۔ ’’مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘ (مؤطا)۔ اسوہ حسنہ سے اخلاق سنوارنے اور بلند کرنے کی واضح ترغیب ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے۔‘‘ (مسلم)۔ نبی کریمﷺ نے کامل مومن اس شخص کو قرار دیا جس کا اخلاق بہترین ہو: ’’مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
اسلام کا نظامِ اخلاق اور اس کی ہدایات ہماری زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہیں۔ اس کی بتائی ہوئی اخلاقیات میں معاشی اخلاقیات بھی شامل ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رائج الوقت معاشی نظاموں میں بداخلاقیاں اس طرح سرایت کرچکی ہیں کہ ان میں حلال و حرام کی تمیز ہی مٹ کر رہ گئی ہے۔ انسانوں کو اپنے معاشرے میں ساتھ رہتے ہوئے بھی لوگوں کے معاشی حقوق کا احساس نہیں۔ اسلام اخلاقیات کو ایمان کے ساتھ جوڑتا ہے تاکہ انسان اخلاقی ترغیبات سے دوسروں کے حقوق ادا کرے اور کسی کے حق پر دست درازی نہ کرے۔ انسان کی زندگی میں لا تعداد خواہشات ہوتی ہیں، لیکن ان کو پورا کرنے کے وسائل محدود ہیں۔ نتیجتاً انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق پر دست درازی شروع کردیتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی اصولوں کو اپنائے تو مختلف خواہشات کو ایک اصولِ واحد کے تحت منظم کرکے پرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات معیشت، سیاست اور نظامِ عبادت میں یکساں طور پر اسی طرح جاری و ساری ہونی چاہئیں جس طرح جسم میں گردش کرتا ہوا خون۔
عصری نظامِ تجارت میں معاشی بداخلاقیات رائج ہیں۔ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ہی کو لے لیں کہ اشیا فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہیں لائی جارہی ہیں۔ غذائی اجناس کو ضائع کیا جارہا ہے، ناپ تول میں کمی، بدعہدی، سود، رشوت اور ملاوٹ وغیرہ… ان کی وجہ سے صارفین کا استحصال ہوتا ہے۔ ارتکاز دولت کو تقویت ملتی ہے اور طبقاتی کشمکش پروان چڑھتی ہے۔ اسلام معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے معاشی اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے۔ ذیل میں چند اہم نکات پیش ہیں:
ناجائز ذرائع آمدنی کی ممانعت
اسلام میں ناجائز ذرائع دولت کی ممانعت ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، ماسوائے تجارت جو کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے ہو۔‘‘ (النساء: ۲۹)
حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے باطل طریقوں سے مال کھانے کی ممانعت فرمائی ہے، جیسے سود خوری، قمار بازی، اور ایسے ہی ہر طرح کے ناجائز ذرائع جن سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
حرام مال سے مراد صرف کھانا نہیں بلکہ مال کا ناجائز استعمال اور اپنے تصرف میں لے آنا بھی ہے۔ باطل سے مراد ہے ہر ناجائز طریقہ جو عدل و انصاف، قانون اور سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے تحت جھوٹ، خیانت، غصب، رشوت، سود، سٹہ، جوا، چوری اور معاملات کی وہ ساری قسمیں آتی ہیں، جن کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جو سماجی اعتبار سے غلط اور مضر ہیں۔
امام شافعیؒ لکھتے ہیں: ’’تم تجارت میں باہمی رضا مندی کی خریدوفروخت یا کرایہ داری کے ساتھ مال کھاؤ، لیکن ہر رضا مندی تجارت میں معتبر نہیں ہوتی۔ رضا مندی شرعی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ تجارت میں سود کا مال حلال نہیں ہے اور نہ ایسا مال لینے اور دینے والے کے درمیان سٹہ بازی جائز قرار پاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر دونوں طرف سے رضا مندی بھی ہو، کیونکہ ان کی رضا مندی شریعت الٰہی کے برعکس ہے۔‘‘ (الام، ج۳،ص۳)
نبی اکرمﷺ نے افضل عمل حلال کمائی کے لیے جدوجہد کو قرار دیا ہے: ’’اعمال میں افضل حلال ذرائع سے کمانا ہے۔‘‘ (کنزالعمال، ج۷،ص۷)۔ اسی طرح آپؐ نے ارشاد فرمایا : ’’افضل ترین کمائی وہ تجارت ہے جو خیانت اور جھوٹ سے پاک ہو، اور انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے۔‘‘ (ایضاً)
عصری نظامِ تجارت کو اسلامی اصولوں سے ہم کنار کرنا ضروری ہے۔ جس میں حلال و حرام کو واضح کیا جائے اور اخلاقی اقدار کو روشناس کرایا جائے تاکہ معیشت خوش حالی سے ہم کنار ہوسکے۔ احتکار اور اتلافِ مال کے بجائے اشیاء کو مناسب قیمتوں پر فروخت کیا جائے۔ ایفائے عہد، سچائی، شرکت، مضاربت، اخوت اور عدل و احسان کو متعارف کروایا جائے، جیسا کہ ناپ تول کے بارے میں آتا ہے: ’’اے تولنے والے تو لواور جھکتا ہوا تولو۔‘‘ (ابن ماجہ) ان اخلاقی اقدار ہی کے ذریعہ نظامِ تجارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
اسراف اور تبذیر
اسراف سے مراد لغو امور پر خرچ کرنا، احتیاجات (ضروریات) سے زیادہ خرچ کرنا، انسان کو جو چیز پسند آئے بلا ضرورت اس کو خرید لینا، جو جی چاہے کھالینا ہے، اور مال کو حق کے علاوہ خرچ کرنا، گناہ کے کاموں پر خرچ کرنا چاہے وہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔ اگر جائز اور بھلائی کے کاموں پر خرچ کیا جائے تو تبذیر کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ گویا اسراف سے مراد ناجائز اشیاء پر خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا ہے، جب کہ تبذیر سے مراد ناجائز امور پر خرچ کرنا ہے۔ شادی بیاہ کی رسموں اور غمی کے موقع پر کئی غیر ضروری رسم و رواج پر خرچ بھی اسراف میں آتا ہے، جب کہ دوسری طرف غریب طبقے میں احساسِ کمتری اور مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔ بخیل شخص اپنی بنیادی ضروریات، اہل و عیال، رشتہ داروں، ضرورت مندوں اور سائلین پر خرچ کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ عادتِ بخل کے سبب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جاتی ہے۔ معیشت میں اشیاء کے لیے صارفین کی طلب میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور حسد و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اسی لیے اسلام میں اسراف وتبذیر سے منع کیا گیا ہے:’’کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف: ۳۱)
——