انسان خطا کا پتلا ہے۔ عقل مند ہو یا بے وقوف، عالم ہو یا جاہل، لغزش سب سے ہوتی اور غلطی اور گناہ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، جس سے غلطی نہ ہوئی ہو اور نہ کوئی ایسا ہے جس نے صرف نیکیاں ہی کی ہوں۔ نیکی و بدی، خیر و شر، حق و باطل، وفا و دغا اور سچ و جھوٹ غرض سب متضاد چیزیں انسان کے مادے و خمیر میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عفو و درگزر اور معافی و بردباری کو پیدا فرمایا اور اس کو اپنی صفات حسنہ میں سے ایک صفت بنا دیا۔ قرآن مجید میں ہے:’’اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الاحزاب)
اگر گناہ و خطا نہ ہوتی تو عفو و بردباری بھی نہ ہوتی۔ کسی بھی شخص کی بردباری کا علم غصے کے وقت اور اس کی سخاوت کا علم حاجب کے وقت ہوتا ہے۔ اگر رنگ ساز کے پاس سفید کپڑا نہ ہو تو کسی کو کیا معلوم ہوگا کہ وہ رنگ ساز ہے۔ آپﷺ کی شفاعت بھی در اصل ایسے گناہ گاروں اور خطاکاروں کے لیے ہے جو غلطی کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’لوگوں کے ساتھ معافی اور عفو و در گزر والا معاملہ کرو، کیا تم یہ پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔‘‘ (النور)
اللہ تعالیٰ نے اسے تقویٰ کے اعلیٰ مراتب میں سے شمار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور معاف کرنا تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے۔‘‘(البقرہ)
اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ اس پر اجر و انعام کا اعلان کیا اور وعدہ لیا تاکہ باہمی محبت و مودت کو باقی رکھنے میں رغبت ہو۔
’’جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ (الشوریٰ(
معاف کرنے سے بندے کو دو انعامات ملتے ہیں، ایک تو یہ کہ لوگ اس کے مشکور و ممنون ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ عموماً لڑائی جھگڑوں اور باہم ناراضی کا سبب غصہ بنتا ہے۔ جو لوگ ایسے موقع پر غصے کو پی جاتے ہیں اور بردباری اور درگزر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ نے محسنین کا لقب دیا ہے اور فرمایا کہ میں انہیں محبوب رکھتا ہوں۔ ’’اور جو لوگ غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا اور محبت کرتا ہے۔‘‘ (آل عمران)
آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کے ساتھ مت جھگڑو، نہ ہی اپنے بھائی کے ساتھ مذاق کرو۔ ایسا وعدہ بھی نہ کرو جسے پھر پورا نہ کرسکو۔‘‘
نبی اکرمﷺ پر جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’عفو و درگزر کو لازم پکڑو،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیا رکرو۔‘‘ (الاعراف) تو آپؐ نے جبرئیل امین سے معلوم کیا، یہ کیا ہے؟ حضرت جبریل نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو آپؐ سے ناتا توڑے آپ اس سے ناتا جوڑو، جو آپ کو نہ دے اسے عطا کرو اور جو آپؐ پر ظلم کرے اس سے درگزر فرماؤ۔‘‘(بخاری)
ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا: ’’جسے غصہ آجائے اور وہ اسے ضبط کر جائے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ایسے شخص کے لیے لازم ہو جاتی ہے۔‘‘
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’آپﷺ ایک دفعہ سفر میں تھے۔ آپؐ نے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں کنارے موٹے تھے۔ ایک اعرابی نے آپؐ کو اس چادر سے پکڑ کر جھٹکا دیا، یہاں تک کہ اس کے نشانات گردن مبارک پر واضح دکھائی دینے لگے، وہ کہنے لگا کہ اے محمد! جو کچھ اللہ نے آپ کو مال عطا کیا ہے اس میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم صادر فرمائیں۔ ویسے بھی آپؐ مجھے اپنی ذاتی اور آباء و اجداد کے مال سے نہیں دیتے۔ آپﷺ صحابہ کرامؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اسے مطلوبہ چیز دے دی جائے اور اسے کچھ بھی نہیں کہا جائے۔ دوسری روایت میں ہے: ’’قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ جس شخص کا اللہ پر اجر واجب ہو وہ کھڑا ہوجائے۔ اس کے جواب میں کوئی شخص بھی کھڑا ہونے کی جسارت نہیں کرسکے گا۔ سوائے اس شخص کے جس نے دنیا میں عفو و درگزر والا معاملہ کیا ہوگا۔‘‘ پس اگر کوئی معاف کرے تو وہ بھی اس مرتبہ تک پہنچنے کی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔
آج معاشرے میں لڑائی، جھگڑے، نفرت، ناراضی اور بد اعتمادی عام ہو رہی ہیں۔ اس کے سبب مختلف امراض اور بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ان دونوں مسائل کی زیادہ تر وجہ ٹینشن اور ڈپریشن ہے جسے ہم ہمہ وقت دل و دماغ پر سوار رکھتے ہیں۔ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا، جتنا ہم اسے سوچ سوچ کر اپنی طبیعت خراب کرلیتے ہیں۔ انسان خطاکار اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ اکثر غلطی بندہ جان بوجھ کر نہیں کرتا بلکہ ہوجاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بلا جھجک معافی مانگ لیں کہ یہی بڑا پن ہے۔ اس سے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا ہے اور پریشانی بھی کم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح معاف کرنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرے، غصہ پی جائے اور کھلے دل سے معاف کردے۔ آج اگر ہمیں اپنے ماحول و معاشرے کو خوش گوار بنانا ہے تو ہمیں معافی کو عام کرنا ہوگا۔ اس سے محبتیں فروغ پائیں گی، رشتے مضبوط ہوں گے، دوست قریب ہوں گے، اعتماد پختہ ہوگا اور پرسکون اور چین سے بھرپور معاشرہ تشکیل پائے گا۔lll