اسلام دنیا کا ایسا دین ہے کہ جس میں زور، زبردستی اور جبر کا کوئی معاملہ نہیں۔ اسلام قبول کرنے سے لے کر معاملات تک میں اسلام سختی و زبردستی سے منع کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ (دین میں کوئی سختی نہیں ہے) جو چاہے اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرکے دلائل کی روشنی میں اسلام میں داخل ہوجائے۔ اسلام ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے رضا کارانہ طور پر خدمات لینے کی تعلیم دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
لا یکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا۔
’’اللہ کسی کو بھی اپنی طاقت و وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔‘‘
ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے ’’جس کا رزق کشادہ ہو، اس پر اسی کے بقدر، اور جو تنگ دست ہو اس پر اسی کے بقدر (بچے کا نان ونفقہ) ہے۔‘‘ ان ارشادات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ قدرت کا قانون ہے کہ ہر انسان سے اس کی استطاعت و طاقت کے بقدر ہی حساب لیا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ کسی بیمار یا معذور شخص کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ہر حال میں کھڑے ہوکر ہی نماز ادا کرے، یا کسی بیمار کو مجبور کیا جائے کہ وہ بیماری میں یا استطاعت نہ رکھنے کے باوجود رمضان کے روزے رکھے۔ بلکہ ایسے افراد کے لیے شریعتِ مطہرہ نے آسانی کاحکم دیا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق ہی عمل کریں۔ بیمار یا معذور شخص اگر کھڑا نہیں ہوسکتا تو اس کے لیے یہ آسانی موجود ہے کہ وہ بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز ادا کرے۔ اگر اس پر بھی قادر نہیں تو اشاروں سے ادا کرے۔ اسی طرح بیمار شخص کے لیے یہ رخصت ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کو فی الوقت چھوڑ کر بعد میں ان کی قضا کرلے۔ یہ تمام رخصتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی آسانی اور ان کی بشری کمزوریوں کو دیکھ کر ہی عنایت فرمائی ہیں، ورنہ ان احکام پر عمل کرنا انسان کے لیے بہت مشکل ہوتا۔
جب اس کائنات کے خالق و مالک کا اپنے بندوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو وہ اپنے بندوں پر بھی لازم کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے آپس کے معاملات میں نرمی اور رخصت و مہلت کا مظاہرہ کریں۔
اسلام مسلمانوں کے آپس کے معاملات میں خیرخواہی کے جذبے کو پروان چڑھانے کی ضرورت پر بہت زور دیتا ہے۔ یہ اسلام کا ہی خاصّہ ہے کہ وہ معاشرے میں امن، عدل ومساوات، پیارومحبت، اخلاص و ہمدردی پیدا کرنے کے لیے اپنے ماننے والوں کو تفصیل سے تعلیم دیتا ہے۔ ایک بہترین معاشرے کے قیام کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارشاداتِ گرامی اور نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے لیے بہترین ذریعہ ہیں جن پر عمل کرکے ایک نیک، صالح اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشادات ہیں:٭’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘٭’’حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ (کی ایذا) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ ٭’’ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو نہ حقیر جانے نہ اس کو رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے۔‘‘ ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ایک آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔‘‘آنحضرت ﷺ نے دو مسلمانوں کے آپس میں خندہ پیشانی سے ملنے کو بھی باعثِ اجر و ثواب قرار دیا ہے۔کسی کی سواری پر اس کا سامان رکھوانے میں مدد کرنے کو اجر کا باعث گردانا گیا ہے۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو اور جان و مال سب حرام ہیں۔ یہ چند مثالیں ہیں، جو ایک بہترین معاشرے کے قیام کے لیے اساسی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک معاشرے کے افراد میں خیرخواہی کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا، اس وقت تک ایک نیک اور صالح معاشرہ قائم نہیں ہوسکے گا۔
مسلمانوں کے آپس کے معاملات میں خیرخواہی کے جذبے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک پُرامن اور نیک و صالح معاشرہ تو قائم ہوگا ہی، لیکن اس کے بدلے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا بھی حاصل ہوگی جو درحقیقت ہر مسلمان کا مطلوب و مقصود ہے۔
تجارتی و دیگر معاملات میں کبھی کبھار انسان پر ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ وہ بالکل مفلس ہوکر رہ جاتا ہے۔ محلات سے فٹ پاتھ اور جھونپڑی سے بڑے بڑے محلات تک پہنچ جانے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ’’یہی دن (روز و شب) ہیں جنھیں ہم لوگوں کے مابین گردش میں لاتے رہتے ہیں۔‘‘
آفات درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پر بسا اوقات آزمائش ہوتی ہیں، تو بعض بندوں کی سرکشی کی وجہ سے ان کے لیے سزا ہوتی ہیں۔ بہرحال ان حالات میں اسلام اپنے پریشان حال اور تنگ دست بھائی کے ساتھ نرمی اور نیک سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
حضرت جابرؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو بیچنے میں، خریدنے میں اور تقاضا کرنے میں نرمی کرتا ہے۔‘‘ (بخاری)
باہمی لین دین اور خریدو فروخت کے معاملات میں نرمی اختیار کرنا معاشرتی تعلقات کے استحکام اور آپس کے تعاون و ہمدردی کے نقطۂ نظر سے انتہائی ضروری ہے۔ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے خرید و فروخت اور اپنا حق طلب کرنے میں نرمی کرنے والے کی فضیلت بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر اپنی رحمت کانزول فرماتے ہیں جو دوسرے کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ بارہا دیکھا گیا ہے کہ اپنا حق وصول کرنے میں بھی جھگڑے وغیرہ ہوجاتے ہیں، اور تاجر حضرات رقم وقت پر ادا کرنے پر بھی آپس میں جھگڑا اور تعلقات کو خراب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شریعتِ مطہرہ نے اپنا حق وصول کرنے والوں اور مقروض دونوں کے لیے حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ ایسا شخص جو حوادثِ زمانہ کی وجہ سے بالکل مفلس ہوکر رہ گیا ہو، اُس کے ساتھ نرمی کامعاملہ کرنا ضروری ہے لیکن ایک ایسا شخص جس کے پاس پیسے موجود ہیں اور کوئی مجبوری بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہے تو یہ درست نہیں۔ ایسے شخص کے لیے نبی کریم ﷺ کاارشادِ گرامی ہے: ’’مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔‘‘ اور ظلم کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:’’ظلم قیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے۔‘‘ اور قیامت کے دن اندھیرے کا مطلب واضح طور پر جہنم کے علاوہ اورکچھ نہیں۔
مالدار کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر واجب الادا رقم کو ادا کرنے میں تاخیر کرے، کیوںکہ یہ رقم ہر وقت اس پر بصورتِ قرض واجب رہے گی۔ اور قرض کے حوالے سے احادیثِ مبارکہ میں وعیدیں آئی ہیں اور تلقین کی گئی ہے کہ جلد از جلد قرض ادا کردیا جائے۔ اگر قرض کی حالت میں ہی کسی کا انتقال ہوجائے تب بھی یہ اچھا فعل نہیں ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کی نمازِ جنازہ صرف اسی وجہ سے نہیں پڑھی کہ اس پر قرض واجب تھا۔
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ جب اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا: مجھے یاد نہیں، (کہ میں نے کوئی نیک کام کیا ہو) اس پر کہا گیا کہ اچھی طرح سوچ لے۔ اس نے کہا کہ مجھے قطعاً یاد نہیں ہے، ہاں (اتنا ضرور جانتا ہوں کہ) میں دنیا میں جب لوگوں سے (خریدوفروخت کے) معاملات کیا کرتا تھا تو تقاضے کے وقت (مطالبات کی وصولی میں) ان پر احسان کیا کرتا تھا۔ ایسے کہ مستطیع لوگوں کو تو مہلت دے دیتا تھا اور جو نادار ہوتے ان کو معاف کردیتاتھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل کردیا۔ ‘‘ (متفق علیہ)
ایک روایت میں اس طرح ہے کہ (جب اس شخص نے اپنا یہ عمل بیان کیا) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں اس کا (معاف کرنے) کا حق تجھ سے زیادہ رکھتا ہوں (اور فرشتوں سے کہا کہ) میرے اس بندے سے درگزر کرو۔‘‘
اس حدیث سے دو باتوں کا علم ہوا، ایک تو اپنے حق کی وصولی کے لیے مستطیع کو مہلت دینا یعنی ایک ایسا شخص جو فی الوقت وقتِ مقررہ پر آپ کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے لیکن حالات کی بہتری کی امید ہے کہ کچھ وقت کے بعد اس کے حالات اتنے بہتر ہوجائیں گے کہ وہ اپنا قرض وغیرہ ادا کردے گا، تو ایسے شخص کو اُس کے حالات کی بہتری تک مہلت دی جائے کہ جب اس کے حالات بہتر ہوں وہ قرض ادا کردے۔
دوسری بات نادار شخص کو معاف کردینے کی ہے کہ ایک شخص بالکل دیوالیہ ہوگیا ہے اور اس کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور مستقبل قریب میں ایسے حالات بھی دکھائی نہیں دیتے کہ اس کے حالات بہتر ہوسکیں گے تو ایسے شخص پر واجب الادا قرض وغیرہ معاف کردینا ثواب کا کام ہے۔
اس واقعہ اور حضرت جابرؓ والی حدیث سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ مستطیع کو مہلت دینا اور نادار شخص کا قرضہ معاف کردینا بڑے اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بہترین نیک و صالح معاشرے کے قیام کے لیے ان اساسی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ——