اللہ تعالیٰ کی عبادت بندوں پر اس کا حق ہے اور اسے حقوق اللہ کا نام دیا گیا جب کہ بندوں کی مدد انسان پر بندوں کا حق ہے اور اسے حقوق العباد کا نام دیا گیا۔ دین حقیقت میں حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کو پورا کرنے کا نام ہے۔
حقوق العباد کا تعقل معاملات سے ہے، یہ اللہ کا نہیں بلکہ بندوں کا حق ہے، اللہ اسے معاف نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں عدل و انصاف سے کام لے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا اسی لیے کہا گیا ہے: ’’الدین المعامل‘‘ کہ دین نام ہے معاملات کا اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت دین دار وہ نہیں جو خوب نمازیں پڑھتا ہو، زکوٰۃ ادا کرتا ہو، خوب صدقہ و خیرات کرتا ہو، خوب روزے رکھتا ہو، حج پر حج اور عمرے پر عمرہ کرتا ہو، پوری پوری رات نوافل پڑھتا ہو، ذکر واذکار کرتا اور تہجد پڑھتا ہو، بلکہ در حقیقت دین دار وہ ہے جو معاملات میں درست ہو، وہ نہ امانت میں خیانت کرتا ہو، نہ دھوکا و فریب سے کام لیتا ہو نہ خرید و فروخت میں ہیرا پھیری کرتا ہو، نہ ملاوٹ کرتا ہو نہ عیوب کو چھپاتا ہو۔
آج ہماری نگاہوں کے سامنے ایسے لوگ ہیں بلکہ بہتوں کے ساتھ تجربہ ہوا ہے کہ ان کے ہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی، ان کی زبان پر تسبیحات جاری رہتے، پیشانی پر سجدے کے نشان اور گڈے پڑے ہوتے، وہ تہجد کے پابند ہوتے، خوب نفلی نمازیں پڑھتے، صدقہ و خیرات بھی کرتے عمرے پر عمرہ کرتے ہیں، مگر معاملات میں کھرے نہیں ہوتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین سمجھتے تھے کہ اصل دین داری کیا ہے، انھوں نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا، حضرت عمرؓ کے پاس ایک شخص مقدمہ لے کر آیا، آپ نے اس سے گواہی طلب کی، وہ گواہ لے آیا، حضرت عمرؓ نے اس گواہ سے پوچھا کہ تم اس کی دین داری کس طرح جانتے ہو؟ کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو پوچھا کیا اس کے پڑوس میں رہے ہو؟ اس نے کہا نہیں، پھر تیسرا سوال کیا، کیا تم نے اس کے ساتھ مالی معاملہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا نہیں، تو حضرت عمرؓ نے فرمایا شاید تم نے اسے مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے، رکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھا ہوگا، پھر اسے اپنے پاس سے اٹھ کر چلے جانے کو کہا، حضرت عمرؓ نے واضح کر دیا کہ دین داری نماز روزے اور اس طرح کی عبادت میں نہیں بلکہ اصل دین داری معاملات میں ہے، اس لیے انھوں نے دین داری کو پہنچاننے کا معیار بتایا کہ دیکھو اگر کوئی معاملات میں صاف ستھرا اور سچا ہے تو وہ دین دار ہے اور اگر فریبی، دھوکہ بازار اور مکار ہے تو وہ دین دار نہیں خواہ کتنا ہی بڑا نمازی اور ضربیں لگانے والا اور تہجد پڑھنے والا کیوں نہ ہو۔
آج ہمارے درمیان دین داروں کی صورت والوں کی بھرمار ہے، مگر جب سابقہ پڑ جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو بڑا دھوکہ باز، فراڈی، جھوٹا مکار اور دغا باز ہے، جب کہ بدترین بد دینی مالی معاملات کی گندگی ہے، اور بدترین حیلہ گری و چالبازی یہ ہے کہ دین کے نام پر دوسروں کا مال ہڑپ لیا جائے۔ اجرت پر کسی سے کام کرانے کے بعد اس کی اجرت ادا نہیں کی جائے یا بیس کی جگہ دس دے کر دفع کر دیا جائے۔ عقل مندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے۔ اس طرح انھوں نے اپنے لیے آگ کا گڑھا کھودا ہے، حدیث کے اندر آیا ہے کہ سب سے پہلے جو چیز اس دنیا میںضائع کی جائے گی وہ امانت ہے، جب کہ سب کے اخیر میں نماز ضائع کی جائے گی۔
آج مسلمانوں کی حالت عجیب و غریب ہے، وہ عبادات میں مسلمان ہیں مگر معاملات میںدین سے قرآنی نصوص سے اور رسول اللہ کی صحیح احادیث اور تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ نماز اور روزہ اور مساجد و محراب ہی کی طرح معاملات کی درستی و صفائی پر توجہ دیتے۔
اسلام میں جہاد اور مجاہدین کی بڑی فضیلت آئی ہے، یہاں تک کہ ان کے اعزاز و اکرام کو دیکھتے ہوئے انبیا علیہم السلام بھی ان پر رشک کریں گے، مگر اس کے باوجود ان سے بھی معاملات کے بارے میں سوالات کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ اصحاب حق کو ان کا حق ان سے دلائیں گے۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اپنے صحابہؓ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمھیں پتا ہے کہ مفلس و نادار کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم ایسے شخص کو مفلس کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں اور نہ ہی کوئی دنیاوی ساز و سامان۔
اس پر اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! وہ شخص مفلس نہیں بلکہ مفلس وہ شخص ہے، جو قیامت کے روز نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ لے کر آئے گا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر کوئی بہتان لگایا ہوگا، کسی کو زد و کوب کیا ہوگا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی حسنات اور نیکیوں کو لے کر ان لوگوں میں بانٹ دے گا۔ اور اگر اس کی نیکیاں اس پر عائد حقوق کی ادائیگی سے قبل ہی ختم ہوجائیں گی، تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان اصحاب حقوق کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈال دیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم)lll