معاہدہ

ڈاکٹرنشان زیدی

’’شانتا کل تم جلدی آجانا۔‘‘ کویتا نے شانتا کے ہاتھ پر ۲۰کا نوٹ رکھتے ہوئے کہا۔
کیوں بی بی جی! کیا کوئی ضروری کام ہے؟‘‘شانتا نے نوٹ کو ساڑی کے پلّومیں باندھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کل روی آرہاہے۔‘‘
’’ارے روی بابوآرہے ہیں امریکا سے؟بی بی جی وہ توبہت دنوںکے بعدآرہے ہیں۔‘‘
’’ہاں پورے پانچ سال کے بعد۔‘‘ کویتا نے لمبی سانس بھری۔
’’پانچ سال گزرگئے۔‘‘ شانتا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں پورے پانچ سال گزرگئے۔ وقت کو جاتے ہوئے دیرنہیں لگتی ہے۔‘‘
’’بڑے اچھے سوبھاؤکے ہیں روی بابو بہت ہی دیالو۔میں تو کہتی ہوں انسان نہیں وہ بھگوان کا روپ ہیں۔ کتنا کچھ انھوں نے میرے ساتھ کیا ہے۔ بی بی جی کیا ان کی وہ گوری میم بھی آرہی ہیں؟‘‘
’’نہیں روزی نہیںآرہی ہے۔‘‘
’’ان کا تودل بھی نہیں لگتا تھا۔ گٹ پٹ گٹ پٹ کرتی تھیں۔‘‘
’’لیکن روی بتارہا تھا اس نے ہندوستانی زبان سیکھ لی ہے۔ اوربہت اچھی زبان بولنے لگی ہے روزی۔‘‘
’’یہ توبہت اچھی بات ہے۔‘‘
’’اماں اماں جلدی گھر چل سانجھ ہورہی ہے۔ ‘‘چھ سالہ آنندنے شانتا کا کندھا پکڑ کرکہا۔
’’اچھا بی بی جی اب چلتے ہیں۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
شانتا کو کویتا اوراس کے گھر سے بہت ہی محبت تھی۔ شانتا جب پانچ سال کی تھی جب سے کویتا کے پاس رہتی تھی۔ اس کی شادی بھی کویتاہی نے کی تھی اورجب شانتا کا شرابی شوہر اس کومارتا تب بھی وہ یہیں آکر پناہ لیتی۔
’’بی بی جی اب تو روی بابو سے بھی کہو بچہ بنالیں۔ یا کوئی خوش خبری ہے توبتاؤ۔‘‘
’’نہیں شانتا روزی بچہ نہیں چاہتی۔‘‘ کویتا نے بڑی مایوسی سے کہا۔
’’ارے ایسی کون سی عورت ہوگی جسے بچوں سے پریم نہیں ہوتا۔بچے تو بھگوان کا روپ ہوتے ہیں۔‘‘
’’روزی کوبچوں سے پیارتو ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ اس کا جسم اور ’فیگر‘خراب ہوجائے گا۔‘‘
’’لوکرلوبات کیسی ہیں گوری میم؟‘‘
’’روی بابوتو بچوں سے بہت پریم کرتے تھے۔ آنند کو کیسے ہرسمے گود میں لیتے تھے۔ ارے اور جب یہ بیمار ہوگیاتھا توکتنا پیسہ انھوںنے پانی کی طرح بہادیاتھا۔ نہ توہماری کہاں اوقات تھی اتنے بڑے اسپتال میں علاج کراتے۔‘‘
’’ہاں روی توبہت پیار کرتا ہے بچوں سے لیکن۔۔۔‘‘ کویتا کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ارے میں بھی کیا بات لے کر بیٹھ گئی۔ ابھی کتنا کام پڑا ہے۔‘‘ شانتا نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔
’’بی بی جی کیا میں کھیر بنالوں روی بابو کوبہت پسند تھی میرے ہاتھ کی کھیر۔‘‘
’’ہاں اور پھرروی کا کمرا بھی صاف کردینا۔‘‘
’’شانتا گھرمیں کتنا سناٹا ہے نا۔روی کے آنے سے کچھ رونق بڑھ جائے گی۔‘‘ کویتا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بی بی جی بابوجی کے سامنے کتنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن بابوجی کے بعد روی بابو نے کبھی آپ کو اداس نہیں ہونے دیا۔‘‘
’’لیکن اب تویہ گھرکاٹ کھانے کو دوڑتاہے۔ دعا کرو بھگوان روی کو بچہ دے دے تومیرے گھر کی رونق بڑھ جائے گی۔‘‘
’’ماں۔۔۔‘‘روی کی آواز پر وہ دونوں چونک پڑیں۔
’’ارے روی توآگیامیرے بچے لیکن تم نے توشام کو آنے کے لیے کہا تھا۔‘‘ کویتا نے روی کو سینے سے لگا لیا۔ ’’ارے روزی بھی آئی ہے۔ لیکن روی تم نے تو۔۔۔‘‘
’’ہاں ماں میں نے منع کیاتھا وہ اس لیے کیونکہ میںآپ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔‘‘
’’آؤبیٹا آرام کرلو۔‘‘ کویتا نے روزی کوگلے سے لگالیا۔
’’ارے یہ کون ہے شانتا؟‘‘ روی نے آنند کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ایک ٹک روزی کو دیکھ رہا تھا۔
’’روی بابویہ آنند ہے آپ نے پہچانا نہیں۔‘‘
’’ارے آنند اتنا بڑاہوگیا۔ آؤبیٹا آؤ۔‘‘
’’روی بابوآپ نے ہی تواس کو دوسری زندگی دی ہے۔‘‘
’’شانتا تیرا بولنا کم نہیں ہوا۔‘‘
’’اچھا بچو!تم لوگ فریش ہوکر آؤمیں کھانالگاتی ہوں۔‘‘
’’جی ماں!‘‘
’’ماں کہاں ہیں آپ! ہمارے پاس آکر بیٹھئے۔‘‘ روی نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں اب تم دونوں آرام کروتھک گئے ہوگے۔‘‘
’’ماں کوئی ہم پیدل توآئے نہیں ہیں جو تھک گئے ہوں گے۔‘‘ روزی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اچھا آپ لوگ چائے پیجئے۔‘‘ شانتا نے ٹیبل پر چائے رکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے شانتا توبڑی سمجھ دار ہوگئی ہے۔‘‘
’’روی بابومیں آپ کی عادتیں نہیں بھولی ہوں چاہے آپ مجھے کتنا بھی بھول جائیں۔‘‘شانتا نے چائے پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے روز شانتا کے لیے جو گفٹ لائے ہیں وہ توتم نے دیا ہی نہیں۔‘‘
’’بابوجی اس کی کیا ضرورت تھی۔ پہلے سے ہی آپ کا ہمارے اوپربہت احسان ہے۔‘‘
روی کو آئے ہوئے پورا ایک ہفتہ گزرگیاتھا۔اس دن روزی مارکیٹ گئی ہوئی تھی۔
’’روی بیٹا کچھ کررہے ہو؟‘‘ کویتا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ماںآئیے۔‘‘
’’بیٹامیں بہت دن سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔‘‘
’’کہیے نا کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔‘‘ روی نے کویتا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا تمہاری شادی کواتنے سال گزرگئے۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ۔۔۔ وہ ہمارا آنگن بہت سونا ہے۔۔۔ ‘‘کویتا نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’میں سمجھ گیا ماں۔ میری خود یہی خواہش ہے آپ کو توپتہ ہے مجھے بچوں سے کتنا پیار ہے۔‘‘
’’توپھربیٹا۔۔۔‘‘
’’لیکن ممی روزی اس کے لیے کسی بھی طرح تیارنہیں۔ وہ کہتی ہے کہ میری فیگر خراب ہوجائے گی۔ ماں ویسے روزی ہر طرح بہت اچھی ہے۔ ایک اچھی بیوی کے سارے گُر ہیں اس میں۔ لیکن بچے کے لیے تیارنہیں ہوتی۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے عورت کا وجود توتب تک پورا نہیںہوتا جب تک وہ ماںنہیں بنتی۔‘‘
’’ماں ایسا بھی نہیں کہ اسے بچوں سے محبت نہیں ہو۔‘‘
’’توکیا وہ بچہ کوگود لینا چاہتی ہے۔‘‘
’’لیکن بیٹا کسی کے بچے کوگود لینے سے ہماری نسل توآگے نہیں بڑھے گی۔‘‘ کویتا نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعدکہا۔
’’ہاں ماں لیکن میں کیا کروں۔۔۔ اورپھراس کی جاب بھی ایسی ہے جلدی چھٹی نہیں ملتی۔ وہ تواسے آفس کا کام بھی تھا یہاں توآبھی گئی۔ ‘‘
بیٹا ایسی کون سی جاب ہے جواسے چھٹی نہیں ملے گی۔ رہی فیگر کی بات کیا ہیروئن کو اپنی فیگر کا خیال نہیں ہوتا۔ ایک سے بڑی ایک سپراسٹارہیروئن بچے پیدا کررہی ہیں۔ عورت کا وجود تو تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ ماں نہ بنے۔
’’ماں میں نے روز کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانتی۔ وہ امریکن ہے۔اس کی سوچ ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔‘‘
’’کیا امریکن کے بچے نہیں ہوتے۔ ہالی ووڈ کی ہیروئنز کے کئی کئی بچے ہیں وہ تواسکرین پرآتی ہیں انھیں اپنی فیگر کا خیال نہیں ہوتا۔عورت عورت ہے، چاہے وہ کہیں کی ہو۔ وہ ماں بننے میں فخرمحسوس کرتی ہے۔ اگر تم کہو تو میں بات کروں روزی سے؟‘‘
’’نہیں ماں چاردن کے لیے وہ یہاں آئی ہے۔میں نہیں چاہتا کوئی تلخی ہو۔ میںاسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
’’اچھا چلوتم آرام کرولیکن کچھ توکرنا ہوگا۔‘‘
’’ماں آج کیا شانتا نہیں آئی ہے؟‘‘ روی نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’نہیں وہ آج نہیں آئے گی۔ وہ آنندکو ڈاکٹر کے یہاں لے گئی ہوگی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘آنند کی حالت کیازیادہ بگڑگئی تھی؟‘‘
’’اس کو ہرہفتہ ڈاکٹر کے یہاںجانا ہوتا ہے۔ ڈاکٹرنے اس کو دل کا آپریشن بتایاہے۔ اور اس کے لیے کم سے کم ایک ڈیڑھ لاکھ روپے لگ جائیں گے۔ بچاری غریب کہاں سے لائے گی؟‘‘ کویتا نے روٹی پکاتے ہوئے کہا۔
’’روزی کیا سوگئیں؟‘‘ روی نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔
’’نہیں، بتاؤ کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں جب سے انڈیا آئے ہو بڑے پریشان ہو۔‘‘
’’روزی ماں چاہتی ہیں کہ تمہاری گود بھی آباد ہوجائے۔ آئی مین(I mean) ہماری اولاد ہو۔‘‘ اس نے بغیر کسی تمہید کے کہا۔
’’تومیں کیا کروں،میں تمھیں پہلے ہی بتاچکی ہوں۔بچہ گود کیوںنہیں لے لو۔‘‘
’’لیکن بچہ گود لینے سے ہماری نسل توآگے نہیںبڑھے گی۔‘‘
’’تومسٹرروی دوسری شادی کرلو۔‘‘ روزی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’مذاق مت کرو،ہم انڈین ہیں۔ ہم کسی کا ہاتھ ایک بارتھامتے ہیں تو زندگی بھر ساتھ نبھاتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی کا مہتو ہوتاہے۔اس کو گڑیاگڈے کا کھیل نہیں سمجھا جاتا۔‘‘
’’اچھا روی ایسا کرو ایک سیروگیٹ ماں ڈھونڈلو۔ اس سے تمہاری اور تمہاری ماں دونوں کی خواہش پوری ہوجائے گی۔‘‘روزی کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
’’سیروگیٹ مدر یعنی کرائے کی کوکھ ہمارا سماج اس کو قبول کرپائے گا؟‘‘
’’ اف روی شرما! تم کشمیری لوگ دیکھنے میں توبالکل انگریزلگتے ہو لیکن سوچ ایک گاؤں والے بوڑھے کی رکھتے ہو۔ چاہے کہیں رہ لو لیکن خیالات میں تبدیلی نہیں آسکتی۔‘‘ روزی نے اپنے شولڈر کٹ بالوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
’’لیکن روز ماں کو یہ بات کیسے سمجھائیں؟‘‘
’’ارے تمہاری ماں ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں،انھیں سمجھانے کی ضرورت پڑے گی۔ آج کل ہر شخص اس کے بارے میں جانتا ہے۔‘‘
’’لیکن کیا ہندوستان میں ایسا ممکن ہوسکے گا؟‘‘ روی نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ اے سی کے باوجود اس کا چہرہ تربتر تھا۔
’’کیوں نہیں، یہاں دوسری کنٹریز سے بہت سے لوگ آتے ہیں اور اپنی خواہش پوری کرتے ہیں اورنہ جانے کتنی ضرورت مند عورتیں اس کے لیے تیارہوجاتی ہیں۔ اب تو اس کو قانون سے بھی منظوری مل گئی ہے۔‘‘
اور اگلے دن ہی روی نے یہ بات کویتا کوبتادی۔
’’روی یہ کون سی بات ہے کہ تمہاری بیوی اس طرح کے راستے اختیار کررہی ہے۔ تم کیسے شوہر ہوتم سمجھا نہیں سکتے؟‘‘ کویتا یہ سنتے ہی مشتعل ہوگئی۔
’’ماں میں کیا کروں؟ ماں میں دوپاٹوں کے بیچ میں پس رہا ہوں۔ایک طرف آپ،دوسری طرف روزی۔‘‘
’’روی تم خود سوچو،کتنا غلط راستہ ہے۔ سماج میں کیا میسج جائے گا۔ کیا اس سے سماجی وخاندانی اقدار محفوظ رہ سکیں گے۔ ہماری تہذیب مٹتی جارہی ہے۔ تم خود بتاؤ یہ کس حد تک صحیح ہے؟‘‘ کویتا کا چہرہ غصّہ سے سرخ ہورہا تھا۔
’’موجودہ زمانے میں عورت اتنی گرگئی ہے۔ اتنی ذلیل وخوارہوگئی ہے کہ اس کی ہر چیز تجارت کا سامان بن گئی ہے۔اس کے جسمانی حسن سے لے کر اس کی اداؤں تک کو نمائش کا سامان بنادیا ہے۔ پوسٹروں، اخباروں میں اس کے برہنہ فوٹو، ریمپ پراس کی لہراتی مٹکتی چال فیشن انڈسٹری کا سرمایۂ حیات ہیں اوراب اس کی نسوانیت،اس کی کوکھ بھی تجارت کا سامان بن گئی۔ شرم آتی ہے اس ترقی پر۔‘‘
’’لیکن ماں،یہ جدید دور ہے۔ یہ سوچئے اس عمل میں دونوں کی خواہشات پوری ہوتی ہیں۔‘‘
’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ۔ اس کو خواہشات کی تکمیل کہیں گے۔‘‘
’’ماں آپ تو ایک دم روایتی عورت بن گئی ہیں۔‘‘
’’ارے روی ہم لوگ کشمیری پنڈت ہیں۔ ہرچیز کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تمہاری شادی تمہاری پسند سے کرادی تواس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ اپنی تہذیب بھول جائیں۔ اولاد حاصل کرنے کا کتنا غلط طریقہ ہے یہ، کتنی باتیں لوگ بنائیںگے۔ ہماری سماج میں کوئی عزت رہ جائے گی۔‘‘ کویتا کا غصّہ کسی حد تک کم ہوچکا تھا۔
’’ماں! سماج کو مارو گولی۔اس کوقانون نے منظوری دے دی ہے اور یہ بڑا شہرہے یہاں پرکوئی کسی کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ ویسے یہ ایک ’’پنیہ‘‘ (نیکی)کا کام ہے اس سے ایک غریب عورت کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے اوردوسروں کو خوشی دینا ہی اعلیٰ زندگی کا مشن ہے۔‘‘
’’لیکن ایسی عورت ملنا بہت مشکل ہے۔ کہاں ڈھونڈوگے ایسی عورت کو؟‘‘
’’ماں ہندوستان ایک غریب ملک ہے۔ یہاں بہت سی عورتیں اس کام کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ گجرات اورمہاراشٹر کے کئی فرٹی لیٹی کلینک بے اولاد جوڑوں کو کرائے کی مائیں فراہم کررہے ہیں۔ یہاں سیروگیٹ ماؤں اور اولاد کے درمیان باقاعدہ قانونی معاہدہ ہوتاہے تاکہ عورت بچہ دینے کے وعدے سے پھرنہ جائے۔ یہ ذمہ داری ڈاکٹر کی ہوتی ہے کہ سیروگیٹ ماں کو معاہدہ کے مطابق پورا پیسہ ملے۔ کرائے کی گود کا بزنس ملک کے کئی حصوںمیں خوب ترقی کررہا ہے اورکئی فرٹی لیٹی کلینک ’’سیروگیسی‘‘ پروگرام شان سے چلا رہے ہیں۔‘‘ روی نے اپنی بات کوبڑی نرمی سے سمجھایا۔
پورا ایک مہینہ گزر گیا تھالیکن روی اپنے مقصدمیں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
’’کیا بات ہے شانتا بڑی پریشان لگ رہی ہے۔ ‘‘کویتا نے شانتا کے اداس چہرے پر نظرڈالی۔
’’بی بی جی ڈاکٹرنے کہا ہے کہ اگرایک سال کے اندر آنند کا آپریشن نہیں کرایا تو بہت بڑا خطرہ ہوسکتا ہے۔ کیاکروں بی بی جی آپ توجانتی ہیں کہ آنند کا باپوتومجھے پہلے ہی چھوڑچکا ہے اور میں اتنی بڑی رقم کہاں سے لاؤںگی۔‘‘شانتا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’ارے رومت،شانتا بھگوان کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا۔‘‘
’’بی بی جی آنند کے علاوہ میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔اگر اس کو کچھ ہوگیا تومیں جیتے جی مرجاؤںگی۔‘‘
’’کیابات ہے روی،آج بہت دیر سے آئے ہو؟‘‘ روی کے گھرمیںداخل ہوتے ہی کویتا نے سوال کیا۔
’’ہاں ماںدیرہوگئی۔ وہ ایک عورت مل گئی تھی۔ سارے ٹیسٹ کرائے وہ بھی ٹھیک نکلے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا وہ اسموکنگ کرتی ہے۔‘‘
’’یہ توبہت برا ہے۔‘‘ کویتا نے متفکر لہجے میں کہا۔
’’بی بی جی کیسی چنتامیں بیٹھی ہیں؟‘‘
’’شانتامیں روی کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔‘‘
’’روی بابو کو کوئی فکرہے بی بی جی! میں بھی دیکھ رہی ہوں،بڑے ہی پریشان لگ رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں روی بہت پریشان ہے۔‘‘
’’ہمیں بتاؤ نہ لیکن میںتو کسی کی پریشانی دور ہی نہیں کرسکتی۔ ہمارے پاس تو کچھ دینے کو ہی نہیں ہے۔‘‘
’’بی بی جی اگرہمارے کرنے کا کچھ ہوتوہم جان تک حاضرکردیں گے کیا کچھ نہیں کیاہے روی بابو نے ہمارے ساتھ۔‘‘
’’شانتا ساری خوشیاں پیسے سے حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ روی کو بچے کی ضرورت ہے۔‘‘
’’لیکن بی بی جی روی بابو توکسی کوڈھونڈنے کی بات کررہے تھے۔‘‘
’’شانتا وہ کسی ایسی عورت کو تلاش کررہا ہے جواس کے بچے کو جنم دے سکے۔‘‘
’’بی بی جی یہ توبہت بڑا پاپ کرنے جارہے ہیںروی بابو۔ ہائے بھگوان ایسے پاپ کے لیے کون عورت تیار ہوگی۔‘‘
’’شانتا اس میں پاپ کی کوئی بات نہیں ہے۔دراصل سائنس وٹکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں ’’ان وٹروفرٹی لائزیشن (آئی وی ایف) کے ذریعہ بے اولاد جوڑے کو اولاد حاصل کرنے کا طریقہ مل گیا ہے۔‘‘
’’ارے غضب یہ کون سا طریقہ ہے؟‘‘ شانتا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’اس کے ذریعہ ایک مرداور ایک عورت کے مادئہ منویہ کوملا کر لیب میں جنین تیار کیاجاتاہے۔ پھراس جنین کو ایک عورت کی کوکھ کی ضرورت ہوتی ہے،جو اسے اپنے پیٹ میں رکھ کر پرورش کرے اور پھر بچہ پیدا ہونے کے بعد طے شدہ رقم ادا کرکے بے اولاد جوڑا اس ماں سے بچے کو ہمیشہ کے لیے خود لے لیتا ہے۔‘‘ کویتا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
اور پھر سرکو جنبش دیتے ہوئے کہا:’’ شانتا یہ تیری سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یہ بڑا ٹکنیکل معاملہ ہے۔ بڑوں کی سمجھ میں بھی نہیںآتا۔ جب تواس تجربہ سے گزرے گی توخودبخود سمجھ میںآجائے گا۔ اور ہاں شانتا بچہ پیدا کرنے کا یہ مصنوعی عمل مکمل طورپر فرٹی لٹی کلینک میں انجام پاتا ہے۔ پیسہ کی پوری ذمہ داری ڈاکٹر کی ہوتی ہے۔‘‘
’’بی بی جی زمانے نے توبہت ترقی کرلی ہے۔ ناممکن کوممکن بنادیا ہے۔‘‘
’’ہاں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ آج عورت کی ہرچیز کی تجارت ہوتی ہے۔کہتے ہیں یہ بڑے ’’پنیہ‘‘ کا کام ہے کہ آپ ایک بے اولاد جوڑے کو اولاد فراہم کررہے ہیں۔ ضرورت مندخواتین اس میں دو سے ڈھائی لاکھ روپے کمارہی ہیں۔ اس میں امیر غریب سب شامل ہیں۔ پونہ، گجرات، راجستھان وغیرہ میں توعورتوں نے اسے پیشے کے طورپر اپنارکھا ہے۔‘‘
’’ دوڈھائی لاکھ روپے یہ توبہت بڑی رقم ہے۔ اس سے تو کسی کی زندگی بھی بچ سکتی ہے۔‘‘
’’ہاں کسی کی بھی۔‘‘ کویتا نے آنند کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شانتا! کیاتم اس کام کو انجام دے سکتی ہو؟‘‘ کویتا نے سوالیہ نظروںسے شانتا کو دیکھا۔
’’دو-ڈھائی لاکھ روپے کی رقم 9-10مہینے کے اندرمل جائے گی جو میں برسوںمیں بھی نہیں کماپاؤں گی۔ اورپھرمیرے بچے کی بھی جان بچ جائے گی اور پھرروی بابونے میرے ساتھ کتنا کچھ کیا ہے۔‘‘
’’کیا ہوا شانتا کیاسوچنے لگی؟‘‘ کویتا کے کہنے پروہ فکر سے باہرآئی۔
’’ہاںبی بی جی میں تیارہوں۔‘‘
’’کیا بات ہے روی تم ابھی تک سوئے نہیں۔‘‘
’’روزمجھے نیندنہیںآرہی ہے۔‘‘
’’کیا سوچ رہے ہواب توہماری فکردور ہوجانا چاہیے۔ماںنے شانتا سے بھی بات کرلی ہے۔‘‘
’’لیکن روز ذرا سوچو ایک کام والی جوہمارے گھر میں جھاڑو پوچھا کرتی ہے،اس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ ہمارا ہوگا۔ نہیں روز نہیںدھتکار ہے مجھ پر۔‘‘ وہ بیڈپرسے اٹھ کرتیزی سے ٹہلنے لگا۔
’’روی ایسا کیوں سوچ رہے ہو۔شانتا ان عورتوں سے ہزار گنا بہتر ہے جو ہم کلینک سے لیتے۔ کم از کم ہم اس کے بارے میں اچھی طرح جانتے توہیں۔‘‘
’’لیکن روز سماج اس کو قبول کرے گا۔ کیا یہ ایک غریب عورت کا استحصال نہیں ہے؟‘‘
’’شانتا ضرورت مند ہے اسے پیسے کی ضرورت ہے اورہمیں ہمارے بچے کوجنم دینے کے لیے کوکھ کی۔ اس میں کسی کا استحصال کہاں ہے۔ اس سے دونوں کی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں اورایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کا نام ہی زندگی ہے۔‘‘ روزی نے روی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیرکے بعد توروزی گہری نیند میں سوگئی لیکن روی پوری رات کروٹیں بدلتا رہا ہزاروں طرح کے سوال ہتھوڑے کی مانند اس کے ذہن پر وار کرتے رہے۔
۱۰؍مہینے کس طرح گزرگئے پتہ ہی نہیں چلا۔اس دوران شانتا مستقل ان کے گھر پر ہی رہی۔ شانتا نے ایک صحت مند بیٹی کو جنم دیا تھا۔کویتا کے چہرے پر خوشی صاف جھلک رہی تھی۔شانتا نے ہوش میں آتے ہی ایک حسرت بھری نگاہ برابر میں لیٹے ننھے وجود پر ڈالی لیکن دوسرے ہی پل وہ چونک پڑی۔
’’بی بی جی میراا ٓنند کہاں ہے۔‘‘
’’اس کو آپریشن کے لیے لے گئے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا تھا اس کاآپریشن فوراً کرنا ہوگا۔‘‘
’’لیکن بی بی جی اس کے پاس کون ہے؟‘‘
’’اس کے پاس روی ہے۔‘‘
’’روی بابوآگئے؟ کب آئے امریکہ سے؟‘‘
ایک ہفتہ بعدآنند اورشانتا دونوں کو اسپتال سے چھٹی مل گئی تھی۔ شانتااپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش تھی۔ کویتا نے دونوں کی بہت دیکھ بھال کی تھی۔
’’شانتا میں تمہارا ہمیشہ احسان مندرہوں گا کہ تم نے اتنی بڑی قربانی دی۔‘‘روی نے بچی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے توکوئی قربانی نہیں دی۔ میں نے توبس ایک سودا کیا تھا اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے۔‘‘شانتا سوچ رہی تھی۔
’’کیاسوچ رہی ہو۔ بس اس کاسامان پیک کردو۔ ہم اب جارہے ہیں۔‘‘
’’ کب جارہے ہیں؟بچی کو بھی لے کرجائیں گے۔‘‘ اس کی آنکھوںمیں ڈھیروں سوال تھے۔
’’ہاں۔‘‘
’’شانتا بچی کا سارا سامان رکھ دینا۔ صبح جلدی ہی ہم لوگ ایئرپورٹ کے لیے نکلیں گے۔‘‘
’’بی بی جی کیاآپ بھی جارہی ہیں؟‘‘ شانتا نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاںشانتا، ماں یہاں اکیلی کیسے رہ سکتی ہیں اورپھر بچی سے بھی بہت اٹیچ ہوگئی ہیں۔ اس کے بغیر وہ نہیں رہ پائیں گی۔‘‘
’’روی بابو بچی تو میرے شریر کا انش ہے۔ مجھے کتنا اس سے پریم ہے، یہ شبدوں میں نہیں کہا جاسکتا۔ پورے نومہینے میں نے اسے پیٹ میں رکھا ہے۔ ‘‘شانتا سوچ رہی تھی اوراس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
’’ماں دیکھئے یہ اتنا کیوں رورہی ہے، چپ ہی نہیں ہورہی ہے۔‘‘روی نے بچی کویتا کی گود میں دیا۔ بچی زور زور سے رورہی تھی۔ روتے روتے اس کا چہرہ لال ہوگیاتھا۔
’’شاید یہ بھوکی ہے۔‘‘شانتا ذرا اس کی فیڈرتوبنالو۔ کویتا نے بچی کو کاندھے لگاتے ہوئے کہا۔
’’یہ لو بی بی جی۔‘‘ شانتا جلدی سے فیڈربنا لائی۔ لیکن بچی نے فیڈرمنہ میں نہیں لی اور زور زور سے رونے لگی۔
’’لائیے ماں میںاسے باہرگھما کر لاتا ہوں، چپ جائے گی۔‘‘
شانتا کچن میں برتن دھورہی تھی اوراس کی نگاہ بچی پر تھی جسے روی باہر ٹہلا رہے تھے۔ کچن کی کھڑکی سے اس کے رونے کی تیز تیز آواز آرہی تھی۔ جتنی تیز بچی رورہی تھی شانتا کے آنسو بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔
’’روی بابولائیے مجھے دیجیے میں چپ کراتی ہوں۔‘‘ اس سے نہیں رہا گیا تووہ باہرآگئی۔
بچی شانتا کی گودمیں آتے ہی خاموش ہوگئی۔
شانتا اسے سینے سے لگاکربہت دیرتک روتی رہی۔ ’’اُف یہ مجھ سے دور ہوجائے گی۔‘‘
’’شانتا بچی سوگئی ہے اس کو لٹادو۔‘‘ کویتا کے کہنے پر وہ چونک پڑی۔
رات آدھی سے زیادہ گزرگئی تھی۔
شانتا کی آنکھوں سے نیندکوسوں دور تھی۔اس کے برابر میں آنند دنیا کی فکر سے بے خبر گہری نیند میں سو رہا تھا۔ شانتا کروٹیں بدل بدل کر تھک گئی اور باہرآکر ٹہلنے لگی۔ کیا میرے وجود کا حصّہ مجھ سے جدا ہوجائے گا۔ اف میں کیسے اس کے بغیر رہ پاؤں گی۔ میں نہیں جانے دوں گی اس کو۔میں نے پورے ۹مہینہ ۹دن اس کو اپنے پیٹ میں رکھاہے اس پرمیراحق ہے۔‘‘
’’نہیں شانتاتونے توصرف ایک سودا کیاتھا۔ بس ایک معاہدہ اپنے بچے کوبچانے کے لیے اور اس کے بدلے میں تجھے اس کی زندگی مل گئی۔‘‘ اس کے ضمیرنے اس کو للکارا۔
’’کیاعورت اتنی سستی ہوگئی ہے۔ کیاغریب ہونااتنا بڑا گناہ ہے۔ آخرعورت کا استحصال کب تک ہوگا؟‘‘ اُف اُف اس کا سرچکرانے لگا اوروہ بستر پر نیم دراز ہوگئی۔
’’اچھا شانتا ہم لوگ چلتے ہیں،آنند کا خیال رکھنا۔ یہ لو یہ کچھ پیسے ہیں اگرکسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔‘‘ یہ کہہ کر کویتا سلورکلر کی چمکتی ہوئی کار میں بیٹھ گئی۔
’’بی بی جی ایک باربچی کومیری گودمیں دے دیجیے۔‘‘ شانتا گاڑی کے پاس کھڑی ہوگئی۔
’’نہیں شانتا وہ سوگئی ہے، جاگ جائے گی توپریشان کرے گی۔ ڈرائیور کارجلدی چلاؤ۔‘‘
جتنی تیزی سے کارآگے بڑھ رہی تھی،اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ شانتا کے دل کی دھڑکنیں بڑھ رہی تھیں۔
شانتا یک دم منجمد ہوکر رہ گئی۔ جیسے اس کے وجودمیں کائنات بھرکا سنّاٹا سمٹ آیاہو۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں