معدہ کی گیس

حکیم فیضان شاہد بلوچ

آج کل گیس کی وبا عام ہے۔ جسم سے چمٹتی ہے تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انھیں دل کی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ گیس کا مرض کیا بلا ہے جس نے قریب قریب ہر دوسرے شخص کو ہلکان کررکھاہے۔ حکما کا تو کہنا ہے کہ اسی فیصد بیماریوں کی جڑ معدہ ہے کیونکہ ہمارے ہاں کی غذائی عادات توبہ توبہ! لوگ آگا دیکھتے ہیں نہ پیچھا، بس منھ میں نوالے ٹھونسے جاتے ہیں۔

تبخیر معدہ یعنی معدہ میں گیس کا بننا بذات خود کوئی مرض نہیں بلکہ یہ مختلف جسمانی اعضا خصوصاً معدے، آنتوں اور جگر کی ناقص کارکردگی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔

ماضی میں یہ بیماری اتنی زیادہ نہیں تھی مگر جدید دور میں تبخیر معدہ یا ریاح کی شکایت ان امراض کی صف میں شامل ہے جن کی وجہ سے حکیموں، ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کے شفاخانوں میں ہجوم رہتا ہے۔ بات یہیں ختم ہوجاتی تو بہتر تھا لیکن اب تو جھاڑ پھونک اور ٹونے ٹوٹکے والوں کا کاروبار بھی اس مرض کے دم قدم سے ترقی پر ہے۔ دوا ساز اداروں، اشتہاری حکیموں اورڈاکٹروں کے لیے گیس کا یہ مرض نعمت ہے کیونکہ ان کے اشتہارات اور اعلانات سے متاثر اور خوفزدہ ہوکر لاکھوں مریض ہر سال کروڑوں روپے کی ادویات خرید کر کھالیتے ہیں۔ یہ ایسا موذی مرض ہے جس کے عوارض انسان کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہیں مگر یہ کوئی خطرناک اور لاعلاج مرض نہیں۔ مرض سے پیدا ہونے والی وہ علامات درج ذیل ہیں جن سے لوگ خوف زدہ ہوکر مختلف شفا خانوں کا رخ کرتے ہیں۔

(۱) دل کی بہت تیز دھڑکن۔

(۲) دل کے مقام یا دائیں یا بائیں طرف درد

(۳) سر درد اور چکر آنا

(۴) متلی آنا، سینے میں جلن ہونا، پیٹ میں بھاری پن محسوس ہونا۔

(۵) ٹھنڈے پسینے آنا، ہاتھوں اور جسم پر کپکپی طاری ہونا۔

اوربھی بہت سی علامات ہیں جو تبخیر معدہ سے پیدا ہوتی ہیں جن میں سب سے خطرناک علامت مریض کا وہمی ہوجانا ہے۔ جس کی وجہ سے ماہرین نفسیات کا کاروبار چمکا ہوا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کو سمجھاجائے اور خود علاج کرنے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اکثر مریض اس مرض میں مختلف گولیاں اور دوائیں استعمال کرتے ہیں جو یا تو وقتی فائدہ دیتی ہیں یا پھر ان سے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن سے مزید پریشانیاں جنم لیتی ہیں کیونکہ ان میں نمکیات اور نوشادر کی بھر مار ہوتی ہے۔ یہ دوائیں گردے اور فشار خون کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

اس کے علاوہ کئی مریض غذا کے بعد سوڈا واٹر استعمال کرتے ہیں جس کے استعمال سے ڈکار آکر وقتی طور پر تو انھیں گیس سے نجات مل جاتی ہے مگر یہ کولا مشروبات اور سوڈا واٹر کی بوتلیں میٹھا زہر ہیں۔ ایک تو ان میں شامل گیس صحت کے لیے انتہائی مضر ہے کیونکہ یہ جسم کے خلیات میں جذب ہوکر ان کی موت کا باعث بنتی ہے، دوسرے اس گیس سے خون میں آکسیجن کم ہوجاتی ہے۔ اسی لیے کچھ عرصہ پہلے کوک پینے کے ایک مقابلے میں ایک شخص سب سے زیادہ بوتلیں پی کر مقابلہ تو جیت گیا مگر بعد کو زندگی کی بازی ہار گیا کیونکہ زیادہ کوک پینے سے اس کے جسم میں کاربینک گیس کی زیادتی ہوگئی اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے وہ مرگیا۔

مزید برآں سوڈا واٹر کے استعمال سے کیونکہ معدے کی دیواریں اور چاروں پر تیں خصوصاً عضلی پرت اور اس کی عضلی بافتیں کمزور پڑجاتی ہیں لہٰذا ان کی شکست و ریخت سے معدہ مزید کمزور پڑجاتا ہے اور معدے میں گیس کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے پہلے تو تبخیر معدہ کے اسباب پر نظر رکھیے پھر کسی مستند طبیب سے باقاعدہ علاج کروائیے۔

تبخیر معدہ کے اسباب

ویسے تو پیٹ میں گیس پیدا ہونے کی علامات مختلف ہیں مگر اسباب تقریباً مشترک ہیں:

(۱) بہت زیادہ ثقیل اور ٹھنڈی چیزوں کا استعمال۔

(۲) کھانے کے بعد پانی کا زیادہ استعمال۔

(۳) غلط طریقے سے پکائی جانے والی غذا، ہاضمے پر بوجھ ڈالنے والی غذا یا باسی غذا۔

(۴) غذا کو ٹھیک طرح نہ چبانا۔غذا اتنی دیر منہ میں رہنی چاہیے کہ اس کی رطوبتیں غذا میں شامل ہوجائیں۔ کھانا جلدی جلدی کھانا یا کھانے کے دوران بہت زیادہ باتیں کرنا اور قہقہے لگانا، ان تینوں افعال کے باعث کھاتے ہوئے بہت سی ہوا پیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔

(۵) اگر کھانا کھاتے ہوئے انسان کے خیالات منتشر ہوں اور یکسوئی کے ساتھ کھانا نہ کھایا جائے یا کھانے کے وقت انسان بہت زیادہ غصے میں ہو، تو اس صورت میں بھی معدے میں غذا کو ہضم کرنے والی رطوبتیں اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتیں کیونکہ ان کا دماغ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ معدے کے تمام افعال کو دماغ ہی کنٹرول کرتا ہے لہٰذا اگر کھانا مکمل یکسوئی اور ذہنی فراغت سے نہ کھایا جائے تو معدے کی ہاضم رطوبات اور تیزاب اسے سادہ اجزاء میں تبدیل نہیں کرپاتے کیونکہ ذہنی کش مکش کے باعث ان ہاضم رطوبات اور تیزابوں کی کیمیائی ترکیب میں خلل پڑجاتا ہے۔ علاوہ ازیں کھانا کھانے کے دوران ٹیلی ویژن وغیرہ دیکھنے سے بھی گیس جنم لیتی ہے۔

(۶) کثرت سے مے نوشی اور چائے کا بکثرت استعمال بھی معدے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ چائے معدے کو نقصان دیتی ہے، تو شراب نوشی جگر کو نقصان پہنچا کر تبخیر معدہ کا سبب بنتی ہے۔

(۷) کھانا کھانے کے بعد فوراً سوجانا یا رات کو دیر سے کھانا کھانا بھی گیس، یعنی ریاح کا سبب بنتا ہے۔

(۸)اس کے علاوہ امراض معدہ مثلاً معدہ کی کمزوری، معدے کا ٹھنڈا ہوجانا، جبکہ ہضم کے عمل کے لیے حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، امراض جگر مثلاً ضعفِ جگر، ورم جگر وغیرہ اور آنتوں کی کمزوری، قبض وغیرہ بھی ریاح کا باعث بنتے ہیں۔

(۹) خواتین میں امراض رحم، مرض نقرس اور ٹائی فائڈ بھی تبخیر معدہ کا سبب ہیں۔

(۱۰) بعض اوقات دیر تک معدے میں غذا رہتی ہے جس سے اس میں سڑاند اور بساند پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر غذا عموماً ہضم نہیں ہوتی بلکہ اس میں مضر صحت بخارات پیدا ہوجاتے ہیں جو گیس وغیرہ کا باعث بنتے ہیں۔

(۱۱) اعصابی طور پر کمزور مرد و خواتین کو بھی یہ مرض بہت جلد دبوچ لیتا ہے۔

(۱۲) دائمی قبض کے مریض بھی تبخیر معدہ کا شکار ہوتے ہیںکیونکہ ان کی آنتوں میں حرکت پیدا نہیں ہوتی جس سے فضلہ جسم سے خارج ہوتا ہے، ایسے اشخاص کی آنتوں میں فضلہ دیر تک رکا رہتا ہے اور گیس خارج ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ یوں گندے بخارات سینے اور دماغ کی طرف جاکر پریشانی کا موجب بنتے ہیں۔ یہ حالت نفسیاتی اور وہمی مریضوں میں کم و بیش ضرور پائی جاتی ہے۔

(۱۳) وزن کی زیادتی، عیش پسندی اور تساہل پسندی بھی غذا کے صحیح طور پر ہضم ہونے میں مانع ہیں، لہٰذا معدے میں گیسیس بہت زیادہ بنتی ہیں۔

(۱۴) پکوڑے، سموسے، کچوری، پراٹھے، تلی ہوئی چیزیں، کڑاہی گوشت، زیادہ مرچ مسالے والی غذائیں، مرغی کا گوشت،ڈبہ بند دودھ، مٹھائیاں، بیکری کی اشیاء، ڈبہ بند جوس، باسی اور ریفریجٹر میں رکھی ہوئی اشیاء جو بار بار گرم کرکے استعمال کی جاتی ہیں، میدے والی اشیا، بہت زیادہ دماغی محنت فکر و تردد وغیرہ… یہ سب عناصر معدے کے ضعف کا سبب بن کر گیس کا باعث بنتے ہیں۔

(۱۵) عمر کے لحاظ سے ادھیڑ عمری بھی کثرت ریاح کا ایک سبب ہے۔

(۱۶) کثرت جماع بھی ضعف معدہ و اعصاب کے اہم اسباب میں سے ایک ہے، جس سے معدے اور اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے اور ریاح زیادہ پیدا ہوتی ہے۔

(۱۷) نچلی آنت کے امراض خصوصاً بادی بواسیر بھی گیس کے خارج ہونے میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔

(۱۸) نفاخ (ریاح پیدا کرنے والی) چیزوں سے بھی تبخیر معدہ کامرض لاحق ہوجاتا ہے کیونکہ نفاخ قسم کی غذاؤں میں ایک مخصوص رطوبت ہوتی ہے جسے عموماً معدے کی حرارت تحلیل نہیں کرپاتی لہٰذا ریاح پیدا ہوکر پیٹ پھلا دیتی ہے۔ ان غذاؤں میں دال چنا، دال مسور، لوبیا وغیرہ شامل ہیں۔

مندرجہ بالا تمام اسباب کے علاوہ اور بھی کئی اسباب ہیں جو تبخیر معدہ کا سبب بنتے ہیں مگر انھیں طوالت کے خوف سے بیان نہیں کیا گیا مگر مندرجہ بالااسباب پچانوے فیصد حد تک اس مرض کا سبب ہیں۔ ان سے پرہیز برت کر ہم تبخیر معدہ پر خاص حد تک قابو پاسکتے ہیں۔ ذیل میں بیماری کی علامات، مزاج کے مطابق ان کا علاج اور احتیاطی تدابیر بیان کی جارہی ہیں تاکہ اس موذی مرض پر مکمل قابو پایا جاسکے۔

تبخیر معدہ کی علامات

اسباب کے لحاظ سے اس بیماری کی مندرجہ ذیل علامات ہیں:

(۱) اگر معدے میں تیزابیت بڑھ جائے تو مریض بھوک برداشت نہیں کرسکتا اور سینے میں جلن ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پیٹ پھول جاتا ہے۔ اگر کچھ کھا لیا جائے تو آرام ملتا ہے۔

(۲) اگر معدے میں ہاضم رطوبت اور تیزاب کم پیدا ہوں تو بھوک کم لگتی ہے، کھانے کے بعد پیٹ پھولتا ہے اور گیس بنتی ہے۔

(۳) اگر ضعفِ جگر تبخیرہ معدہ کا سبب ہو تو پھر کھانے کے دو یا تین گھنٹے کے بعد پیٹ میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے اور گیس بننے لگتی ہے۔

(۴) بعض افراد کے جسم میں صفراء (پتے سے نکلنے والی رطوبت) کم بنتا ہے۔ چونکہ صفراء ایک قدرتی مسہل یا قبض کشا محلول ہے لہٰذا اس کی کمی سے انہیں قبض ہوجاتا ہے اور بے رنگ فضلہ خارج ہوتا ہے۔ قبض کی وجہ سے گیس بمشکل خارج ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر انھیں اجابت بسہولت ہو تو انھیں سکون محسوس ہوتا ہے ورنہ نہیں۔

(۵) اعصاب و اعضاء رئیسہ مثلاً دل، دماغ، جگر، وغیرہ کی کمزوری اور معدے کی کمزوری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیونکہ معدہ کمزور ہو تو اعضاء رئیسہ بھی کمزور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف معدے کی کمزوری سے گیس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف جب گیس ان اعضاء کی طرف جاتی ہے تو ان میں کمزوری کی وجہ سے درد ہونے لگتا ہے۔ اس تکلیف کو رفع کرنے کے لیے کبھی تو دل بے ترتیب انداز میں دھڑکنے لگتا ہے اور کبھی چکر آنے لگتے ہیں۔

پیٹ سے ایسے کئی اعصابی ریشے گزرتے ہیں جو مختلف اعضا کو دماغ سے ملاتے ہیں۔ جب معدے میں گیس پیدا ہوتی ہے تو ان اعصاب پر بھی دباؤ ڈالتی ہے لہٰذا اس ردعمل میں جسم کے مختلف مقامات پر درد ہوتا ہے یا اختلاجی کیفیت جنم لیتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے گردے کا درد، کمراور پتے کا درد آخری دائیں پسلی کے نیچے ہوتا ہے مگر گرد ے کے درد کی ٹیسیں رانوں تک اور پتے کے دائیں شانے تک محسوس کی جاتی ہیں۔

(۶) اگر گیس کا دباؤ پیٹ سے گزرنے والی بڑی شریانوں پر پڑے تو قلب کا فعل متاثر ہوتا ہے اورگھبراہٹ، وحشت اور اختلاج کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ فشار خون پر بھی یہ گیس اثر انداز ہوتی ہے اور معالجین بے چارے مریض کو ان علامات کی وجہ سے قلب کا مریض قرار دے دیتے ہیں۔ مریض قلب کی ادویات استعمال کرکے اپنے معدے کا مزید ستیاناس کرلیتا ہے۔

احتیاطی تدابیر اورعلاج

(۱) بازاری چورن اور دوائیں ہرگز استعمال نہ کریں کیونکہ اگر تبخیر معدہ تیزابیت کی زیادتی کی وجہ سے ہو تو ان دواؤں اور نمکیات والے چورن سے تیزابیت بڑھ جائے گی۔ اگر زخم معدہ یعنی السر کی وجہ سے گیس زیادہ ہو تو بھی ان سے تکلیف بڑھ جائے گی۔

(۲) گیس کے علاج کے سلسلے میں غذا اور اس کے پکانے کے انداز پر توجہ دینی چاہیے۔ غذا ہلکی اور زود ہضم ہونی چاہیے مثلاً بکرے کے گوشت کا شوربہ، چپاتی وغیرہ۔ اگر دودھ ہضم نہ ہو یعنی دودھ سے گیس زیادہ ہوتی ہو تو اس میں سونف ابال کر پیجئے یا ابالنے کے بعد گرم دودھ میں ایک چٹکی دار چینی ڈال دیں، اس سے دودھ گیس پیدا نہیں کرے گا۔ موسمی پھل خوب کھائیں۔ کھٹی چیزوں اور کولا سے پرہیز کریں۔ شہد کو اپنی روز مرہ غذا خصوصاً صبح کے ناشتے کا حصہ بنالیں۔

(۳) ورزش اور چہل قدمی کیجیے خصوصاً عصر کے بعد اور صبح سویرے صاف ہوا میں ضرور چہل قدمی کریں۔ عضلات کو طاقت دینے والی ورزشیں کیجیے اور ورزشوں کے منصوبے کو بتدریج ترقی دیجیے۔

(۴) کھانا کھانے کا ایک وقت متعین کرلیں اور مقررہ وقت کے علاوہ کھانا نہ کھائیں۔ کھانا کھانے کے دوران زیادہ گفتگو نہ کریں نہ ٹیلی ویژن وغیرہ دیکھیں۔

(۵) فکر و تردد، پریشانی، غصہ جیسی جذباتی کیفیات سے اپنے آپ کو بچائیں۔

(۶) ہفتے میں ایک بار ضرور سارے جسم کی روغن زیتون سے مالش کریں، اس سے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔

(۷) جن اشخاص کے معدے میں تیزاب زیادہ ہو انھیں دو کھانوں کے درمیان کوئی ہلکی چیز ضرور استعمال کرنی چاہیے۔ مثلاً کیلا، کھیرا، دودھ یا کوئی پھل وغیرہ۔

(۸) بھر پور نیند پر توجہ دیں، کھانا کھانے کے فوراً بعد پانی نہ پئیں بلکہ کم ازکم ایک گھنٹے بعد پانی پئیں۔

(۹) غذا میں مرچ مسالے اور گوشت کااستعمال کم کریں۔

علاج کے سلسلے میں آسان نسخہ یہ ہے: سونف: دھنیا خشک، الائچی خورد ہم وزن پیس کر ان میں ہم وزن مصری ملالیں۔ سونف کو پہلے توے پر قدرے بھون لیں۔ اس سفوف کو محفوظ رکھیں اور دوپہر اور رات کو کھانے کے بعد ایک چمچ استعمال کریں۔

روٹی میں اگر تھوڑا سا میٹھا سوڈا ملا لیا جائے تو یہ زخم معدہ اور تیزابیت معدہ دونوں کے لیے مفید ہے۔ اس کے علاوہ بن چھنے آٹے اور موٹے اناج کی روٹی استعمال کریں۔

اگر معدے میں ہاضم رطوبات کم پیدا ہوتی ہوں تو مندرجہ ذیل گولیاں اور نسخہ جات دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد مفید ہیں:

حب کبد نوشادری، سفوف نمک شیخ الرئیس، حبوب مقوی معدہ اس کے علاوہ جوارش کمونی اور جوارش جالینوس بھی بعد از غذا آدھے چمچے کی مقدار میں استعمال کریں اور اگر جگر کی کمزوری سے گیس بنے، تو جوارش انارین آدھا چمچہ اور شربت انار مفید ہیں۔ جوارش انارین غذا کے بعد لینی چاہیے اور شربت انار دو سے چار چمچ کی مقدار نہار منہ ہمراہ عرق کا سنی استعمال کریں۔

اگر قبض کی شکایت ہو تو رات کو روغن بادام خالص دودھ میں ڈال کر استعمال کریں یا دو چمچ سالم اسپغول پانی کے ساتھ رات کو لیجیے نیز ریشے دار غذا استعمال کریں۔ قبض کے ازالہ کے لیے امرود، پپیتہ، انجیر وغیرہ بھی کھائیے۔ رفع قبض کے لیے ہفتے میں دوبار حب تنکار کا استعمال بھی مفید ہے۔

ہاضمے کی کمزوری سے بننے والی گیس کے ازالے کے لیے شام کو معجون نانخواہ عرق سونف کے ساتھ دیں یا نمک مرگانگ جوارش کمونی میں ملا کر دیں۔ آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ خدا را مرض کو مرض سمجھیں، اسے سر پر اتنا سوار نہ کریں کہ وہ لاعلاج مرض کے زمرے میں آجائے اور نہ ہی اس سے اتنی غفلت برتیں کہ عوارض جڑ پکڑ جائیں۔

تبخیر معدہ لاعلاج اور دشوار مرض نہیں صرف اس کے درست سبب کا پتہ لگانا اور پھر صحیح علاج کرانا ضروری ہے اور پھر اس علاج کے مطابق پرہیز کرنا بھی لازمی ہے۔ میرے خیال میں ایک مستند معالج ہی آپ کو صحیح مشورہ دے سکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146