معدے کا ناسور

حکیم عبدالرحمن ناصر

زخم معدہ، معدے کے اندر نرم و نازک غشائے مخاطی (میوکس ممبرین) کے استر میں غیر تیزابی خراش سے پیدا ہونے والے نقص کا نتیجہ ہوتا ہے۔ معدے کی دیوار سے ایک طاقتور تیزاب (گاڑھا ہائیڈروکلورائیڈ ایسڈ) اور خامرہ (انزائم) خارج ہوتا ہے جو ہضم میں مدد دیتا ہے۔ یہ تیزاب اور خامرہ، پیٹ اور اس سے ملحقہ آنت (اثنا عشری) کو بھی تحلیل کرسکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک دفاعی میکنیزم موجود ہوتا ہے۔ جب دفاعی میکنیزم کا یہ نظام ناکام ہوجاتا ہے تو معدے کے استر کا ایک حصہ ہضم یا تحلیل ہوجاتا ہے۔ اس طرح زخمِ معدہ (گیسٹرک السر) پیدا ہوجاتا ہے۔

سگریٹ نوشی، چائے، کافی، الکحل،مرچوں اور مسالوں کا استعمال، ذہنی دباؤ، بے وقت یا بار بار کھانا، زیادہ کاربوہائیڈریٹ والی غذائیں کھانا، بڑھی ہوئی مرطوبیت، غذا کو صحیح طرح سے نہ چبانا، یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن سے زخمِ معدہ کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے، تاہم ان میں سے کسی ایک چیز کو خاص طور پر زخمِ معدہ کا قطعی سبب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعض اوقات اس مرض میں وراثت بھی اہم ہوتی ہے۔ یعنی یہ مرض موروثی طور پر بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

زخمِ معدہ کی خاص علامت یہ ہے کہ اس میں پیٹ کے بالائی حصے میں درد ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ درد حبلِ سری پر واقع معدے کے اوپر ہوتا ہے۔ مختلف مریضوں میں اس کی حد مختلف ہوتی ہے۔ اس کی عام کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ بعض اوقات مریضوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ درد کی جگہ کترن سی ہورہی ہے۔ اس لیے درد کا احساس کھانا کھانے سے ایک گھنٹہ قبل اور کھانا کھانے کے نصف گھنٹے کے بعد ہوتا ہے یا دوسرے وقتِ طعام سے پہلے اس میں شدت ہوتی ہے۔ کھانا کھالینے سے عارضی طور پر آرام مل جاتا ہے۔ بعض مریض کھانے کے فوراً بعد درد کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے مریض کھانا نہ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

بعض اوقات درد کی شدت نیند میں خلل انداز ہوتی ہے۔ مریضوں کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی ہلکی پھلکی غذا کھا لینے یا دودھ کا ایک گلاس پی لینے سے انھیں اس حد تک آرام مل جاتا ہے کہ وہ دوبارہ سوجائیں۔ مریض زخمِ معدہ کا مخصوص درد ایک ہفتے یا اس سے زیادہ عرصے تک اس طرح محسوس کرتے ہیں کہ یہ انہیں باربار تکلیف دیتا ہے۔ وقفے وقفے سے درد ہوتا ہے۔ اس عرصے کے بعد یہ درد بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مرض کی علامتیں غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ صورت ہفتوں بلکہ مہینوں تک رہتی ہے۔

شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ علامتیں برسوں تک ظاہر نہ ہوں۔ خون کا اخراج، معدے میں سوراخ پڑجانا اور بے قابو درد، زخمِ معدہ کے سلسلے میں بڑی پیچیدگی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان صورتوں میں عام طور پر عملِ جراحی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مرض کی علامتوں کا دوبارہ اظہار بعض اوقات جسمانی تھکن یا نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

زخمِ اثنا عشری کی صورت میں پہلی مرتبہ علاج کے بعد اس کے دوبارہ حملے کی شرح ایک سال کے دوران ہی میں ۸۰ فیصد تک ہوتی ہے۔ زخمِ معدہ میں یہ شرح کسی حد تک کم ہوتی ہے۔ چنانچہ مریضوں کو ایک سال تک روزانہ ہلکی خوراکوں کی صورت میں ایسی دوائیں دی جاتی ہیں جو معدی و تیزابی مادوں کے افراز کو روک دیتی ہیں۔ اس علاج کے متبادل کے طور پر ہر مرتبہ مرض کے اعادے کی صورت میںنوبتی علاج بھی کیا جاتا ہے۔ مرض کے دوبارہ حملہ آور ہونے کی صورت میں چار سے آٹھ ہفتوں تک اس کا مختصر علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ زخم مندمل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعدد وائیں بند کردی جاتی ہیں۔ نوبتی علاج طویل المیعاد علاج کی نسبت ارزاں ثابت ہوتا ہے۔

زخمِ معدہ کے مریضوں کو غذا کے سلسلے میں بعض پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ انہیں سگریٹ نوشی ترک کرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے کیونکہ سگریٹ پینے والوں میں زخم کے اندمال کی صلاحیت، سگریٹ نہ پینے والوں کے مقابلے میں کمزور پڑجاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کامرض کے دوبارہ حملے اور اس میں پیچیدگیاں پیدا ہوجانے سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔

اسپرین اور سوزش ختم کرنے والی ادویہ کا استعمال معدے اور اثنا عشری آنت میں کٹاؤ کا عمل تیز کرکے خون کے اخراج کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس قسم کی دواؤں کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اس مرض میں مبتلا لوگوں کے لیے الکحل خاص طور پر ممنوع ہے۔ کیونکہ شراب کے برائے نام استعمال سے بھی اثنا عشری آنت کا زخم پیدا ہوسکتا ہے۔ اور زخم کے اندمال کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ چائے، کافی اور زخمِ معدہ وامعا میں کوئی باہمی تعلق نہیں ہوتا، البتہ کافی اور کولا جیسے دوسرے مشروبات سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے، اس لیے اس قسم کے مشروبات بہت کم استعمال کرنے چاہئیں۔

زخمِ معدہ کے مریضوں کے لیے بہتر راستہ

اب سوال یہ ہے کہ زخمِ معدہ کے مریضوں کے لیے غذا میں کون سی باتیں بہتر ہوسکتی ہیں؟ عام طور پر یہ خیال کیاجاتا ہے کہ ان مریضوں کی غذا خوشگوار اور پر لطف ہونی چاہیے۔ انہیں کم غذا باربار کھانی چاہیے اور دودھ زیادہ پینا چاہیے۔ تازہ پھل، سبزیوں اور مرچوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ان غذاؤں کے مؤثر ہونے کے بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس شہادت نہیں مل سکی۔ مثال کے طور پر جہاں تک دودھ کے زیادہ استعمال کا تعلق ہے تو ایک ایک گھنٹے کے بعد دودھ پینے سے دن میں تین بار معمول کے مطابق کھانا کھانے کی نسبت معدے میں تیزابی مادے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی غذا کھائی جاتی ہے۔ خواہ وہ رقیق ہو یا ٹھوس، نظامِ ہضم کے جزو کے طور پرپیٹ کی اندرونی دیوار سے تیزابی مادے خارج ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زخمِ معدہ کی صورت میں جب بار بار غذا کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو جب بھی کوئی چیز کھائی جائے گی تیزابی مادے خارج ہوں گے۔ بار بار کھانے کے نتیجے میں ان تیزابی مادوں کی مقدار بڑھ جائے گی۔ اس طرح مرض میں افاقہ ہونے کے بجائے اس میں شدت پیدا ہوسکتی ہے۔

یہ طریقہ حیاتین ’ج‘ (وٹامن سی)کے استعمال کو بھی ناموزوں بنا دیتا ہے۔ یہ حیاتین سبزیوں اور تازہ پھلوں میں موجود ہوتا ہے۔ زخم معدہ کے بہت سے مریض اپنی غذا کے سلسلے میں اپنے تجربات کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ کون سی غذائیں ان کے لیے فائدہ مند ہیں اور کن چیزوں سے انھیں نقصان پہنچتا ہے۔ بہرحال زخمِ معدہ کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ دن میں صرف دو یا تین بار کھانا کھائیں۔ درمیان میں ہلکی پھلکی غذاؤں سے گریز کریں۔ درد بڑھنے کی صورت میں اسے کوئی غذائی چیز کھا کر دبانے کی کوشش نہ کریں، بلکہ بازار میں دافعِ تیزابیت کئی دوائیں ملتی ہیں، انھیں استعمال کریں۔ زیادہ مقدار میں پانی پینا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ (بشکریہ ہمدردِ صحت)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146