معذوروں کے ساتھ حسن سلوک

سید عاصم محمود

ایک بارنبی کریمؐ مدینہ منورہ کی گلی میں کچھ صحابہؓ کے ساتھ کسی کام سے تشریف لے جارہے تھے۔ اچانک ایک خاتون نے آپؐ کا راستہ روک لیا۔ وہ عورت پاگل تھی۔ وہ آپؐ سے گویا ہوئی ’’رسولِ خداؐ! مجھے تنہائی میں آپؐ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘

آپؐنے فرمایا: ’’اے عورت! تم جس مرضی راہ پر مجھے لے چلو، میں تمھاری بات ضرور سنوں گا۔‘‘ چناںچہ وہ عورت نبی کریمؐ کو کچھ دور لے گئی اور باتیں کرتی رہی۔ صحابہ کرامؓ وہیں کھڑے رہے۔ تھوڑی دیر بعد حضور اکرمؐواپس تشریف لائے اور صحابہؓ کے ساتھ اپنی منزل کی سمت روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت کردہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔

ایک عظیم الشان سچائی سامنے لاتا ہے۔ یہ واقعہ سوا چودہ سو سال قبل وجود میں آیا جب دنیا بھر میں ذہنی و جسمانی طور پر معذور انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا۔ انسانی معاشروں میں ان کے حقوق کا نام و نشان نہ تھا۔ زمانہ قدیم میں بعض یورپی معاشروں میں یہ رواج تھا کہ کوئی معذور بچہ جنم لیتا، تو والدین اسے قتل کر ڈالتے تاکہ وہ ان پر بوجھ نہ بنے۔ ذہنی و جسمانی معذوروں سے کئی توہمات وابستہ تھے۔

مثلاً یہ سمجھا جاتا کہ معذوروں پر بھوت پریت اور چڑیلیں قابض ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ یونانی شہروں میں اسپارٹا اور ایتھنز میں قوانین تشکیل دینے والے مدبروں لائکرگس (820قبل مسیح۔ 730ق م) اور سولن (638 ق م۔ 558 ق م) نے حکومتوں کو اجازت دے ڈالی کہ معذوروں کو قتل کر ڈالیں… کیونکہ معذور نہ توکام کے قابل تھے اور نہ جنگ لڑ سکتے تھے۔

قدیم یونانی فلسفیوں کو تو چھوڑیے، افلاطون جیسے بظاہر بیدار مغز اور انسان دوست فلسفی کا کہنا تھا کہ ذہنی و جسمانی طور پر معذور مرد و زن معاشرے پر بوجھ ہیں چناںچہ جمہوریہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مغرب میں نشأۃثانیہ اور احیائے علوم کے بعد بھی طویل عرصہ تک معذوروں کو اچھوت سمجھا جاتا رہا۔ مشہور برطانوی فلسفی ہربرٹ اسپنسر (1903-1820ء) نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ معذوروں کا خیال کرنے پر رقم خرچ نہ کرے کیونکہ وہ کوئی کام نہیں کر سکتے۔ زمانۂ ماقبل اسلام عرب جزیرہ نما کی حالت بھی مختلف نہ تھی۔ عرب لوگ معذور کے ساتھ کھانا نہ کھاتے اور اسے لوگوں سے کٹ کر تنہائی، مایوسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنا پڑتی۔

رحمت للعالمینؐ کا ظہور

غرض سوا چودہ سو سال پہلے کہیں معذور واجب القتل تھے، تو کہیں انھیں غلام قرار دیا جاتا۔ ایسے میں صحرائے عرب میں اسلام کا نور نمودار ہوا۔ تب رحمت للعالمینؐ ذہنی و جسمانی طور پر معذور مرد و زن کے لیے اْمید و خوشی کا پیام لیے دنیا میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہ حکمِ خداوندی معذوروں کے حقوق کی داغ بیل ڈالی اور انھیں معاشرے میں ایک منفرد مقام عطا فرمایا۔

اب درج بالا واقعہ ہی کو لیجیے، جس سے عیاں ہے کہ نبی کریمؐ نیم پاگل انسانوں کے ساتھ صبروتحمل، رحم اور نرمی و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ وہ فاتر العقل عورت اپنی راہ چلتے کسی اور عرب سردار کا راستہ روکتی، تو شاید وہ اسے خوب مار پڑواتا یا کچھ نہ کچھ ظلم ضرور کرتا۔ لیکن حضور اکرمﷺ نہ صرف رک گئے بلکہ خاتون کے ساتھ علیحدگی میں اس کی بات بھی سنی جو یقینا اوٹ پٹانگ سی ہو گی۔ نبی کریمؐ کا یہ ناقابل فراموش واقعہ اس امر کی قانونی دلیل ہے کہ ایک مسلم حکمران کا فرض ہے کہ وہ معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی طور پر ذہنی و جسمانی معذوروں کی دیکھ بھال کرے اور ان کی ضرورت پوری کرتا رہے۔ ان ضروریات کی تین بنیادی اقسام یہ ہیں:

اول: باقاعدگی سے طبی معائنہ اور ادویہ دینا، دوم: مناسب تعلیم و تربیت، سوم: کچھ لوگوں کو ان کی دیکھ بھال کا ذمے دار بنانا۔

سنتِ نبویؐکی پیروی

آج مغربی ممالک کے علاوہ بیشتر ترقی پذیر ملکوں میں بھی معذوروں یا ’’خصوصی افراد‘‘ (Special) مرد و زن اور بچوں کو کئی حقوق حاصل ہیں۔ تازہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں چھے کروڑ سے زائد ذہنی و جسمانی طور پر معذور انسان بستے ہیں۔ ان میں سے چار کروڑ ترقی یافتہ ملکوں میں آباد ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنت نبویؐ کی پیروی کرتے ہوئے سب سے پہلے مسلم حکمرانوں نے ہی معذور آبادی کے لیے حقوق متعین کیے اور انھیں معاشرے میں رائج کیا۔

خلفائے راشدین معاشرہ اور ریاست مستحکم کرنے کی طرف متوجہ رہے، اسی لیے وہ معذور باشندوں پر کماحقہ توجہ نہیں دے سکے۔ تاہم حکومت میں ٹھہرائو آگیا، تو مسلم حکمران ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس سلسلے میں چھٹے اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک (دورِ حکومت: 705ء￿ تا 715ء) کو اولیت حاصل ہے۔ طبری اور ابنِ کثیر اپنی تاریخ اسلامی میں رقم طراز ہیں کہ 707ء (88ہجری) میں خلیفہ ولید نے بیماروں اور معذوروں کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی مراکز (بیمارستان) قائم کیے۔ آپ ہی پہلے خلیفہ ہیں جنھوں نے معذوروں کو وظیفے دینے شروع کیے۔ مدعا یہ تھا کہ انھیں اپنے اخراجات کی خاطر بھیک نہ مانگنی پڑے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ مزید برآں خلیفہ ولید نے دار الحکومت دمشق میں موجود معذوروں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے سرکاری خرچ پر ملازم متعین کیے۔

یوں تاریخ انسانی میں پہلی بار خلیفہ ولید کی حکومت میں سرکاری خرچ پر معذور اور بیمار افراد سہولیات و مراعات سے مستفید ہونے لگے۔ یوں روزمرہ کام کاج میں پیش آنے والی تکالیف سے انھیں چھٹکارا مل گیا۔ معذوروں کے ساتھ یہ خصوصی سلوک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی کیا گیا۔ خلیفہ راشد پنجم سمجھے جانے والے آٹھویں اموی حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور حکومت میں معذوروں کی دیکھ بھال کو مزید وسعت دے ڈالی۔

ربِ کریم کی یاددہانی

ایک بار نبی کریمؐ کی دعوت پر سردارانِ مکہ… عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ وغیرہ آپؐ سے ملنے آئے۔ نبی کریمؐ کی ازحد تمنا تھی کہ یہ سردار اسلام لے آئیں۔ یوں سرزمین عرب میں خونریزی کے بغیر اسلام کا نور پھیلنے کی راہ ہموار ہو جاتی۔ آپؐ سرداروں میں تبلیغ اسلام فرما رہے تھے کہ اسی دوران حضرت عبداللہ بن ام مکتوم وہاں تشریف لے آئے۔ حضرت عبداللہ پیدائشی نابینا تھے۔ وہ آپؐ سے قرآن پاک حفظ کرنے کے سلسلے میں مدد چاہتے تھے۔

حضور اکرمؐ کو صحابی کی مداخلت بارِ خاطر گزری۔ آپؐ نے حضرت عبداللہ کو ذرا خفگی سے دیکھا اور پھر سردارانِ مکہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ لیکن جیسے ہی سردار رخصت ہوئے، نبی کریمؐ کو غش آ گیا اور آپ کا سر تیزی سے گھومنے لگا۔ دراصل یہ وحی نازل ہونے کی علامت تھی۔ تب سورہ عبس کی ابتدائی سولہ آیات نازل ہوئیں۔

یہ آیات حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعے سے متعلق تھیں۔ ان کے ذریعے رب کائنات نے اپنے پیارے نبیؐ کو دو یاددہانیاں کرائیں۔ اوّل یہ کہ آپؐ کے پاس کوئی غیر اہم انسان بھی کچھ سیکھنے و جاننے کے لیے آئے، تو اس سے منہ نہ موڑئیے۔ اور دوسری یہ کہ معذور افراد پر خصوصی توجہ دیجیے۔

چناںچہ اس واقعے کے بعد نبی کریمؐ اپنے نابینا صحابی پر خاص شفقت و توجہ فرمانے لگے۔ آپؐ حضرت عبداللہ کی ضروریات کا خیال فرماتے۔ حتیٰ کہ آپؐ نے اپنی عدم موجودگی میں کئی بار انھیں مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ یہ اس امر کی شہادت ہے کہ نبی کریمؐ کے نزدیک حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم کا نابیناپن فرائض ادا کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔

معذوروں کے ساتھ رسول اللہؐ کا حسن سلوک تمام مسلمانوں کے سامنے چراغ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی کریمؐ کو احساس تھا کہ ذہنی و جسمانی لحاظ سے معذور مرد و زن عام انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ مگر آپؐ سمجھتے تھے کہ معمول کی زندگی گزارنے میں معذوری حائل نہیں ہوتی۔ بلکہ آپؐ معذوروں پر خاص مہربانی فرماتے تاکہ ان کی اندرونی خوبصورتی اور مستور خوبیاں عیاں ہو سکیں۔

لہٰذا بہ حیثیت مسلمان ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ خود معذوری کوئی مجبوری یا رکاوٹ نہیں۔ گو یہ ضرور ہے کہ ذہنی و جسمانی معذوری انسان کی زندگی کٹھن بنا ڈالتی ہے۔ مگر اسی بنیادی وجہ کے باعث معاشرے یا حکومت کا فرض ہے کہ وہ معذوروں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں سیرت رسولؐ ہمارے لیے چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

معذور کو معافی

تاریخ ابن کثیر میں مرقوم ہے کہ غزوہ احد (شوال ۳ہجری)کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرامؓ کی معیت میں میدان جنگ کی سمت تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں اسلامی لشکر کی ایک نابینا منافق سے مڈبھیڑ ہوئی۔ منافق نے ہاتھ میں ریت اٹھائی اور چلا کر کہنے لگا ’’لات و منات کی قسم! اگر محمدؐ مجھے دکھائی دیتے، تو میں یہ مٹی (نعوذباللہ) ان کے منہ پر دے مارتا۔‘‘

اس وقت اعصاب کھِچے ہوئے تھے۔ عنقریب کفارمکہ سے جنگ ہونے والی تھی۔ سو بعض صحابہؓ نابینا کی بات سے قدرتاً اشتعال میں آ گئے۔ قریب تھا کہ وہ معذور کو قتل کر ڈالتے، نبی کریمﷺ نے انھیں روک دیا۔ آپؐ نے اس نابینا کو معاف فرما دیا کیونکہ اس نے آپؐ کی ذات پر حملہ کیاتھا… ویسے بھی وہ اسلامی لشکر کے لیے بے ضرر تھا۔

اس واقعے سے عیاں ہے کہ ہم مسلمانوں کو بھی چاہیے، غیر مسلم معذوروں سے کوئی تعرض نہ کریں۔ ہاں! وہ کسی بھی طرح جنگ میں حصہ لیں، تو واجب القتل قرار پائیں گے۔

ایک مثالی معاشرہ

مدینہ منورہ میں نبی کریمؐ کی سعی مبارک سے وجود میں آنے والا اسلامی معاشرہ کئی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ تمام مسلمان مل جل کر خصوصی افراد کی دیکھ بھال کرتے اور ان کا دکھ درد بٹاتے تھے۔ اس ضمن میں ان کے سامنے حضور اکرمؐ کا رول ماڈل جو موجودتھا۔ آپ نے ایک نابینا صحابی (حضرت ابن ابی مکتوم) کو نہ صرف موذن بلکہ اپنا نائب بھی مقررفرمایا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ بن جموع کے اصرار پر غزوہ اْحد میں انھیں لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی حالانکہ وہ لنگڑے تھے۔ جنگ میں حضرت عمرؓ بن جموع شہید ہو گئے۔ جب نبی کریمؐ نے ان کی نعش دیکھی تو فرمایا ’’وہ عمربن جموع کو جنت میں دونوں ٹانگوں پر چلتا دیکھ رہے ہیں۔‘‘

معذوروں کی دلجوئی

حضور اکرمؐ اکثر بیماروں خصوصاً معذوروں کی عیادت کرنے تشریف لے جاتے تھے۔ آپ انھیں تسلی تشفی دیتے، ان کا حوصلہ بلند کرتے اور دلجوئی فرماتے۔ دراصل کئی معذور اپنی حالت زار کے باعث تنہائی، پژمردگی، ڈپریشن کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً ان کی دلجوئی کرنے سے انھیں خصوصاً روحانی و نفسیاتی سہارا دیا جائے۔ اس ضمن میں پھر نبی کریمؐ کی عظیم الشان زندگی ہماری راہ نما ئی کرتی ہے۔

بخاری و مسلم میں یہ روایت آئی ہے۔ انصار مدینہ میں شامل حضرت عتبانؓ بن مالک نابینا تھے۔ آپ مضافات مدینہ میں آباد ایک بستی میں رہتے تھے۔ ایک بار حضرت عتبانؓ نے اپنے پیارے نبی ؐ کی خدمت میں یہ درخواست دی ’’یا رسول اللہ! آپ کسی وقت میرے غریب خانے پر تشریف لا کر نماز ادا کیجیے۔ یوں میرے گھر میں ایک بابرکت مقام وجود میں آجائے گا۔‘‘

نبی کریمؐ نے تشریف لانے کا وعدہ فرمایا اورمحبت سے کہا ’’اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا، تو میں ضرور آئوں گا۔‘‘ حضرت عتبانؓ بیان کرتے ہیں ایک دن صبح سویرے رسول خداؐ یارِ غار حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ ان کے گھر تشریف لائے۔ آپ نے پھر حضرت عتبانؓ کے تجویز کردہ مقام پر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور یوں ان کی سب سے بڑی تمنا پوری کر دی۔ یہ مثالی واقعہ عیاں کرتا ہے کہ نبی کریمؐ کی کوشش ہوتی تھی کہ معذوروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔

مضحکہ نہ اْڑایئے

آج بھی کئی معاشروں میں معذوروں کوطنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ معذور افراد جو پہلے ہی دکھوں کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مذاق اڑایا جائے، تو وہ مزید ڈپریشن و تنہائی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کا مضحکہ مت اڑائو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! ایک دوسرے کا تمسخر نہ اْڑاو۔ ہو سکتا ہے کہ جن سے مذاق کیا جارہا ہے وہ کرنے والوں سے بہتر ہوں۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کو بدنام کرو اور نہ ہی القاب (دے کر) بے عزت کرو۔ کیونکہ ایمان لانے کے لیے برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں، وہ ظالم ہیں۔ (11-49) اسی طرح حدیث نبویؐ ہے: ’’اس پر خدا کی لعنت جو کسی اندھے کو جان بوجھ کر بھٹکا دے۔‘‘

غرض قرآن و سنت میں ان مسلم مرد وزن کی سخت پکڑ ہوئی ہے جو پیدائشی نقائص کی آڑ لیتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کو چھیڑتے اور طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ معذور تونہ صرف قابل رحم بلکہ ہمدردی کے قابل ہوتے ہیں، انھیں تفریح کی شے بنانا ظلم و گناہ ہے۔

تنہائی کا خاتمہ

زمانہ ماقبل اسلام عرب میں یہ رواج تھا کہ لوگ معذوروں کو الگ تھلگ رکھتے۔ ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتے اور انھیں شادی بھی نہ کرنے دیتے۔ اس غلط روش کا خاتمہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیات نازل فرمائیں جن کا مفہوم کچھ یوں ہے: ’’اندھے، لنگڑے اور بیمار پر کوئی گناہ نہیں، اگر وہ اپنے یا دوسروں کے گھروں میں کھانا کھا لیں۔ یہ کھانا چاہے مل کر کھائو یا الگ الگ! اور جب گھروں میں داخل ہو، توسلام کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے بابرکت تحفہ ہے۔‘‘ (24-64) ان آیات کے ذریعے مسلمانوں پر عیاں کیا گیا کہ بیمار، اندھے، لنگڑے وغیرہ کی معیت میں کھانا کھانے میں کوئی قباحت نہیں… یہ بھی ہم جیسے انسان ہیں اور ہماری طرح تمام حقوق رکھتے ہیں۔ چناںچہ معذوروں اور بیماروں کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ ختم ہوا۔

انھیںبے سہارا چھوڑ نے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی تعلیمات نے سب کو بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو متقی و پرہیز گار ہو۔ یہ بات درج ذیل حدیث بخوبی عیاں کرتی ہے: ’’خدا تمھارے ظاہر کو نہیں دیکھتا اور نہ ہی دولت کو! بلکہ وہ تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (مسلم)

اس زمانے کی روایت کے برعکس اسلام نے معذوروں کو شادی کرنے کی بھی اجازت دی کہ وہ دل، جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمات اور ان کی روح کبھی کبھی دھندلا بھی جاتی ہے۔ آئیے اس موقع پہ دینی تعلیمات کو تازہ کرتے ہیں اور اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے آس پاس خاندان میں یا دفتر میں جہاں بھی کوئی جسمانی معذور پائیں گے، اس کے لیے ہمدر دی اور خدمت کے جذبات کو ماند نہ پڑنے دیں گے کیوںکہ یہی رب کا منشا اور پسند ہے۔ ان دکھی لوگوں کا خیال رکھیے اور جنت میں اپنا قصر تعمیر کر لیجیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں