ایک خوبصورت سا لڑکا دس بارہ سال کا نیلی نیکر اور ہاف آستین کے سفید لیکن میلے بشرٹ میں ملبوس کل سے بس اسٹینڈ پر ادھر ادھر گھومتا ہوا نظر آرہا تھا۔
نہ تو کسی کے سامنے اس نے ہاتھ پھیلا یا تھا اور نہ کسی سے کچھ پوچھا تھا بس خاموش، خاموش نگاہوں سے لوگوں کے چہروں کو تکتا رہتا تھا۔ خدا معلوم وہ کس چیز کا متلاشی تھا۔
اپنائیت، محبت، شفقت، خلوص؟ – کیا تلاش کررہا تھا وہ ان لوگوں کے چہروں میں؟
اجنبیت، نفرت، خود غرضی… نہ جانے کیا کیا؟
… بس پھٹی پھٹی حیرت زدہ نگاہوں سے وہ لوگوں کو بہت دیر گئے تک گھورا کرتا۔ جب اسے لوگوں کے چہرے دھندلے دھندلے دکھائی دینے لگے۔ سر میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگا، جی متلانے لگا… آنتیں بھوک سے پگھلنے لگیں۔ تب اس کی نگاہیں آس پاس کے ہوٹلوں کی طرف اٹھیں اور چاندی کے اوراق میں لپٹی ہوئی مختلف قسم کی مٹھائیوں کے طشت پر چپکنے لگیں… دہکتی ہوئی انگیٹھیوں پر رکھے دودھ کے بھرے کڑھاؤ پر ٹھہرنے لگیں دودھ کی سوندھی سوندھی خوشبو اس کے نتھنوں میں گھس کر اسے پھیلانے لگی اس کا جی چاہنے لگا کہ وہ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس کو اٹھا کر کڑھاؤ میں سے دودھ بھرلے اور اطمینان سے کرسی پر بیٹھ کر چھوٹی چھوٹی چسکیاں لے لے کر دودھ پئے، جس طرح وہ کبھی پیا کرتا تھا اور پھر طشت میں رکھی ہوئی مٹھائیاں کھائے جس طرح وہ اپنے ابا جان کے ہوٹل میں کھایا کرتا تھا روزانہ اسکول سے آکر دودھ پینا اس کا معمول تھا ایک گلاس میٹھا میٹھا گرم دودھ…
وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے کھڑا سوچ رہا تھا… میرے ابا جان کا ہوٹل بھی ویسا ہی تھا۔ وہ ہوٹل کے سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے گاہکوں کو دیکھنے لگا۔ کچھ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور کچھ کھانے میں مصروف تھے۔ اس کے منھ میں پانی آرہا تھا پھیکا پھیکا پانی۔ اس نے اپنی نیکر کی جیب میں ہاتھ ڈالا جیب کو کھنگالا… اور مایوس ہوکر اپنے خالی ہاتھ نیکر سے باہر نکال لیے۔
بھوک کے شعلے اس کی آنتوں کو بری طرح بھون رہے تھے۔ ایک آگ سی لگی ہوئی تھی اس کے پیٹ میں۔ وہ کس طرح ہوٹل والے سے کچھ کھانے کے لیے مانگے؟ یہ سوال اس کی سوچ سے چپک گیا تھا۔ اسے خیال آرہا تھا کہ ابا جان کے ہوٹل میں جب کوئی بھکاری آتا تھا تو وہ کبھی بھکاری کو جھڑک دیتے تھے اور کبھی آدھی چائے دے دیا کرتے تھے۔
اگر اس ہوٹل والے نے مجھے جھڑک دیا؟… وہ بھی اتنے سارے لوگوں کے سامنے؟ وہ گاہکوں کی طرف دیکھنے لگا۔ اگر اس نے مجھے آدھی پیالی چائے ہی دے دی تو…؟
وہ دو قدم ہوٹل کی طرف بڑھا … نہ جانے کیا سوچ کر اس نے ہوٹل کے بورڈ کی طرف دیکھا جس پر لکھا تھا: ’’ہندوستان ہوٹل‘‘
اسے یاد آیا کہ اس کے ابا جان کے ہوٹل کا نام ’’بھارت‘‘ تھا۔
ہندوستان اور بھارت میں فرق ہی کیا ہے۔ لفظ الگ الگ ہیں لیکن مفہوم تو ایک ہی ہے۔ اسے اپنے ماسٹر جی کے الفاظ بھی یاد آنے لگے…
’’ہمارے ملک کے دو نام ہیں ہندوستان اور بھارت۔ ہمارے دیش میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں یہ تمام مذاہب اس دیش کی پہچان ہیں۔ بھارت کی اس انیکتا میں ہی ایکتا ہے۔ یہی ہمارے دیش کی شان ہے۔‘‘
’’اے چھوکرے!‘‘ کسی کے مخاطب کرنے پر وہ بے طرح چونک پڑا۔
ادھر کہاں چلا آرہا ہے؟
ہوٹل کے سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک خوش پوش گاہک نے چائے کی چسکی لے کر اس سے پوچھا۔ اور ہوٹل کے مالک نے جو کاؤنٹر پر بیٹھا ہوا کچھ گننے میں مصروف تھا چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’ارے! یہ چھوکرا تو کل سے اس طرف دکھائی دے رہا ہے۔ شاید اپنے گھر سے بھاگ کر آیا ہے۔ بدمعاش معلوم ہوتا ہے۔ کیوں بے کون ہے تو؟ کیا نام ہے تیرا؟ ہوٹل کے مالک نے آنکھیں نکال کر نہایت کڑک دار آواز میں پوچھا۔
وہ سر سے پیر تک لرز اٹھا۔
’’نہیں… نہیں، میں تمہیں اپنا نام نہیں بتاؤں گا کبھی نہیں بتاؤں گا، کبھی نہیں… اپنی نیکر بھی کھول کر نہیں دکھاؤں گا تمہیں، تم بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہو جنھوں نے میرے ماں باپ اور میرے بھائی بہنوں کو میری آنکھوں کے سامنے ہلاک کردیا تھا اور اب مجھے بھی مار ڈالو گے نہیں! نہیں!
وہ اپنی نیکر کو مضبوطی سے پکڑے دیوانہ وار سڑک کی طرف بھاگا …
اسی لمحہ دوسری طرف سے آتے ہوئے ایک تیز رفتار ٹرک نے اسے اچھال دیا۔