طلبہ جو علم حاصل کرتے ہیں اس کی روشنی میں وہ عملی زندگی میں راہِ عمل تلاش کرتے ہیں۔ اسی لیے طلبہ کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر اساتذہ کو اپنے کردار پر بھی کڑی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ ان کی ذرا سی لغزش طلبہ کے مستقبل کو تباہ کرسکتی ہے کیونکہ طلبہ اپنے اساتذہ کی ہر بات اور حرکات و سکنات کا مشاہدہ باریک بینی سے کرتے ہیں۔ مثلاً اساتذہ کی زبان، لباس، اندازِ گفتگو، رہن سہن، اخلاق و کردار، مضامین میں مہارت اور دیگر اساتذہ سے ان کے تعلقات وغیرہ۔ طلبہ اپنے جن اساتذہ کو پسند کرتے ہیں ان ہی کی طرح خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی عادات و اطوار کے ساتھ ساتھ خوبیو ںاور خامیوں کو بھی اپنالیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشو ونما پر مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہی اثرات کے نتیجے میں طلبہ کی زندگی سنور بھی سکتی ہے اور بگڑ بھی سکتی ہے۔ لہٰذا اساتذہ کو چاہیے کہ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر اپنا محاسبہ کریں۔ میں ان چند باتوں پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں جن کا راست تعلق مدرسین کے پیشے سے ہے۔
زبان
تعلیمی نقطۂ نظر سے مادری زبان خصوصی اہمیت رکھتی ہے اور سماجی اعتبار سے تو زبان کا مقام اور بھی بلند ہے۔ چونکہ بچہ اپنی مادری زبان ہی میں تہذیب و معاشرے سے مطابقت و روابط پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح طلبہ کے لیے مادری زبان دیگر مضامین کی تعلیم و تربیت کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے زبان کے علم پر اساتذہ کی پکڑ ہونا بہت ضروری ہے۔ زبان کو برتنے کا ڈھنگ، الفاظ کا صحیح املا و تلفظ، مشکل الفاظ کے معنی اور ان کے استعمال کا سلیقہ اور شستہ و جامع جملوں کی بندش وغیرہ۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کی جائے تو وہ طلبہ و اساتذہ دونوں کے لیے مفید و موثر ثابت ہوگی۔
لباس
مدرس کا لباس بھی اس کی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ طلبہ چونکہ پہلے اساتذہ کو پڑھتے ہیں اسی لیے اس کے اوپر مدرس کے لباس کے بھی خصوصی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جب اسکول کی باتیں گھر پر کرتے ہیں تو اپنے والدین کے سامنے اس کااظہار بھی کردیتے ہیں۔ والدین چونکہ معاشرے کا حصہ ہیں اس لیے یہ موضوع معاشرے میں بھی زیرِ بحث آتا ہے اور اس کی سیدھی ضرب مدرس کے کردار پر پڑتی ہے۔ لہٰذا مدرسین کو چاہیے کہ اپنے لباس پر خصوصی توجہ دیں اور اس طرح کا لباس زیب تن کریں جس سے اپنا وقار برقرار رہ سکے۔
گفتگو
مدرس کی گفتگو یا بول چال اس کی شخصیت کا دلکش پہلو ہوتا ہے۔ طلبہ مدرس کی گفتگو سن کر ہی اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ استاد، زبان کو جتنے اچھے ڈھنگ سے برتے گا اتنی ہی طلبہ میں ادبی و لسانی صلاحیتیں پیدا ہوں گی۔ طلبہ انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر زبان دانی کی مشق کریں گے۔ اس لیے مدرسین کو گفتگو کرتے وقت زبان کی فنی باریکیوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔
رہن سہن
یہ حقیقت ہے کہ بچے اپنے سے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ وہ اپنے والدین سے زیادہ اپنے استاد کو چاہتے ہیں اور ان ہی کو اپنا آئڈیل (نمونہ) بناتے ہیں۔ مدرس کا رہن سہن طلبہ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ استاد کی نفاست پسندی طلبہ میں بھی پروان چڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کا رہن سہن سادہ اور ماحول کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسا بھی نہیں کہ اپنے دل پر مردنی یا بڑھاپا طاری کرلیں۔ نہیں، بلکہ قوم کی تعمیر کے لیے خود کو اس انداز میں ڈھالیں کہ طلبہ بھی خود بخود اسی انداز میں ڈھلنے کی کوشش کریں۔ لہٰذا مدرسین کو چاہیے کہ اپنے رہن سہن پرخصوصی توجہ مرکوز کریں۔
اخلاق و کردار
مدرس کا اخلاق اس کی زندگی کا وہ پہلو ہے جو ظاہر نہ کرنے پر بھی روشن ہوجاتا ہے اور جس کا تعلق سماج و معاشرے سے ہوتا ہے۔ چونکہ اسکول بھی معاشرے ہی کا ایک حصہ ہے، اس لیے مدرس کے کردار کو ہر طرح سے جانچا پرکھا جاتا ہے۔ طلبہ میں بھی اچھے اخلاق و کردار پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدرسین اپنے کردار پر دھیان دیں اور ایسی کوئی بات نہ ہونے دیں جس سے ان کی نیک نامی پر حرف آتا ہو۔ چونکہ مدرس کی زندگی بچوں کے لیے نمونہ ہوتی ہے اس لیے طلبہ اسی استاد کی دل سے عزت کرتے ہیں جس کا کردار بلند ہو۔ لہٰذا اساتذہ کو چاہیے کہ ایسی کوئی بات نہ ہونے دیں جو ان کے کردار کو داغدار کردے۔
مضمون میں مہارت
اسکول میں مدرس کو مختلف مضامین کی تدریسی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ادب، سائنس اور ریاضی کے زمرے میں آنے والے کسی بھی مضمون کی ذمہ داری کو اسی طریقۂ تعلیم سے فارغ اساتذہ بحسن و خوبی نبھاسکتے ہیں۔
مدرسین کو پڑھانے کے لیے ملنے والے کسی بھی مضمون میں مہارت پیدا کرنی ضروری ہے۔ مدرسین کو چاہیے کہ املا کی درستگی، نفس مضمون، زبان کی سلاست و روانی، قواعد کی معلومات، مشکل الفاظ کے معنی و مفہوم،سائنسی معلومات، ضابطوں اور کلیوں کا صحیح استعمال اور مقصدِ تدریس وغیرہ کو ذہن میں رکھ کر اپنے فرائض کی ادائیگی کریں اور کسی بھی مضمون کو پڑھانے سے پہلے اس کی اچھی طرح تیاری کرلیں تاکہ دورانِ تعلیم طلبہ کے سامنے کسی کمی کا سامنا نہ کرناپڑے۔ دورانِ تدریس کسی مدرس سے کوئی عملی غلطی ہوجاتی ہے تو طلبہ کے حق میں اس کے نتائج بہت خراب اور دیرپا ہوتے ہیں کیونکہ طلبہ اپنے استاد سے سرزدہونے والی غلطی کو بھی صحیح تسلیم کرلیتے ہیں اس لیے مستقبل میں اس کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ اگر کوئی ان کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کے ذریعے ڈالے گئے پہلے تاثر کو ہی آخری تاثر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا مدرسین کو چاہیے کہ پڑھائے جانے والے مضمون میں مہارت پیدا کریں۔
تدریسی مقاصد
تدریسی مقاصد وہ فیصلے ہوتے ہیں جو سبق کی تدریس کے متعلق ہوتے ہیں اور جن کا راست تعلق استاد و شاگرد دونوں سے ہوتا ہے۔ ان مقاصد کے ذریعہ استاد شاگردوں کے علم، کردار، احساسات اور افکار میں تبدیلی لاتا ہے۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اساتذہ کو چاہیے کہ تمام ممکنہ مہارتوں کو بروئے کار لائیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ ایک مدرس کے دیگر مدرسین، طلبہ اور سرپرستوں سے خوشگوار تعلقات کا اثر بھی طلبہ پر پڑتا ہے۔ طلبہ میں بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ان کی قوت مشاہدہ بھی تیز ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے تعلق سے مفروضے بھی قائم کرلیتے ہیں جن کا اظہار مدرسے سے ہٹ کر گھر اور محلوں میں بھی کرتے ہیں۔ معاشرہ ان باتوں کو بلاتحقیق سچ مان لیتا ہے اور اساتذہ پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ مدرس چونکہ معاشرے کا امتیازی فرد ہے اس لیے معاشرہ مدرس کو اپنے سے ممتاز دیکھنا چاہتا ہے۔ معاشرے کے لوگ مدرسین کی دل سے قدر کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہی لوگ قوم و ملت کے معمار ہیں۔ لہٰذا قوم کے معماروں یعنی مدرسین کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی و معاشرتی زندگی کا محاسبہ کریں اور اپنی ذاتی و پیشہ ورانہ خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔