سوچ اور عمل میں جتنی درستگی ضروری ہے اتنا ہی اعتدال، توازن اور میانہ روی بھی لازمی ہے۔ جہاں غلط فکر، بے عملی اور بدعملی انسان کے لیے تباہی کا باعث ہیں وہیں افراط و تفریط بھی زندگی کے نظام کو تباہ و برباد کردینے کا سبب ہے۔ فکرو عمل دونوں میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی کو اختیار کرکے آدمی دنیا اور آخرت میں فلاح و بہبود سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔
کسی سچی بات اور اچھی عادت کو اختیار نہ کرنا اور اپنا معمول نہ بنانا ایک برا فعل ہے مگر کسی اچھے عمل کو اپنا معمول بناکر اس کی پابندی نہ کرنا بھی برا ہے۔ اچھے کام کی ذمہ داری قدرت، طاقت، صلاحیت اور استعداد کے باوجود قبول نہ کرنا برا ہے لیکن ذمہ داری کو قبول کرکے پورا نہ کرنا اس سے بھی زیادہ برا ہے۔
اسلام اور انسانیت دونوں کاتقاضا ہے کہ ہم اچھے کاموں اور اچھی عادتوں کو اپنا معمول بنائیں اور پھر احساس ذمہ داری کے ساتھ ان کے پابند رہیں۔ اپنی بساط سے زیادہ ذمہ داری قبول نہ کریں، اپنی سکت سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی کوشش نہ کریں، لیکن جب کوئی بوجھ اٹھالیں، کوئی ذمہ داری قبول کرلیں تو پھر اس کو اچھی طرح نبھائیں۔اس بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بہترین کام وہ ہے جو ہمیشہ جاری رہے خواہ وہ چھوٹا اور معمولی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ کسی عمل کو معمول بنانے کا اختیار صرف نفل اور مستحب کاموں میں ہے۔ رہے فرائض اور واجبات، تو ان میں یہ اختیار نہیں ہے۔ انھیں تو بہرحال جوں کا توں انجام دینا ہے۔
معمولات کی پابندی کی اہمیت اور ذمہ داری قبول کرکے یا کوئی کام اپنے اوپر لازم کرکے اسے نہ نبھانے کی قباحت قرآن و سنت میں اچھی طرح واضح کی گئی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور تم اس (بڑھیا) کی طرح مت ہوجانا جس نے اپنا کاتا ہوا سوت تیاری کے بعد نوچ ڈالا۔‘‘ (النحل)
یعنی اچھے معمولات کا ترک کردینا یا ان کی پابندی نہ کرنا ایسا ہے جیسے کام بنانے کے بعد اسے خود بگاڑ ڈالا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی فکر وعمل کی کجی کو اس طرح واضح کیا ہے:
’’اور رہبانیت کو انھوں نے خود ہی ایجاد کرلیا۔ ہم نے تو ان پر صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کو فرض کیا تھا۔ مگر وہ اس کا حق اس طرح نہ ادا کرسکے جیسے کرنا چاہیے تھا۔ پس ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے تھے ان کا اجر عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہوگئے۔‘‘ (الحدید: ۲۷)
قرآن نے اہلِ کتاب کے بارے میں واضح کیا ہے کہ انہیں تو رہبانیت جیسی غلط روش اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس طرح انھوں نے اپنے اوپر وہ بوجھ ڈال لیا جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر نہیں ڈالا تھا۔
سیرت و کردار کا کس قدر کمزور پہلو ہے کہ اہلِ کتاب نے رہبانیت کو خدا کی خوشنودی تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھ کر اختیار کیا تھا۔ جسے غلطی واضح ہوجانے پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ مگر وہ اس سے چمٹے رہے اور ایسی ایسی پابندیاں اور مشقیں اپنے اوپر لازم کرلیں جو انسانی فطرت کے خلاف تھیں آخر انھیں نبھا نہ سکے خدا تک پہنچانے والا راستہ سمجھ کر اختیار کیا تھا مگر اس پر قائم نہ رہ سکے۔قرآن نے کردار کی اس کمزوری کو اجاگر کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ غلط کاموں کا معمول نہ بنانا چاہیے۔ گمراہی کو حق اور غلط کو صحیح سمجھ کر اگر کوئی اختیار کربھی لے تو ہوش آتے ہی اسے ترک کردینا چاہیے۔ ذمہ داری اتنی ہی اٹھانی چاہیے جتنی نبھاسکے اور جب کوئی ذمہ داری قبول کرلے تو اسے نبھانا چاہیے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ (ابن عمروبن العاصؓ) تم اس شخص کی طرح نہ ہوجانا جو رات کو عبادت کرتا تھا پھر کچھ دنوں بعد اس نے اسے چھوڑدیا۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ’’عبادت میں اعتدال رکھنے والا مسلم اپنے حسنِ اخلاق اور شرافت کی بنا پر اس شخص کے درجے کو حاصل کرلیتا ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہو اور راتوں کو قیام میں اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہو۔‘‘ (مسند احمد)