ہر انسان کو خدا نے سوچ اور عمل دونوں کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اگر کوئی اچھی سوچ اور اچھے عمل رکھتا ہے تو وہ اچھا انسان کہلاتا ہے اور اگر کوئی بری سوچ اور برے عمل کرتا ہے تو اس کے نتائج بھی دنیا و آخرت دونوں جگہ برے ہی ہوں گے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ایاک و محضرات الذنوب (خبردار معمولی معمولی گناہ سے بھی بچ کر رہو) اسی طرح نیک کام خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہو اچھے نتائج رکھتا ہے۔ ایک معمولی نیک کام پر بھی اللہ تعالیٰ انسان کی بخشش فرماسکتا ہے۔
اللہ کے آخری نبیؐ نے بھی ایسے بہت سے کاموں کی طرف توجہ دلائی ہے جنھیں لوگ بہت معمولی سمجھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، چاہے یہ تمہارے اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا ہی ہو۔‘‘ کبھی کبھی ہماری توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں لیکن انسانی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کا احساس تب ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اور وہ ہماری طرف یا تو دھیان ہی نہ دے یا روکھے پن سے جواب دے۔ ایک مسلم کی یہ خصوصیت نہیں کہ کسی سے گھمنڈ یا روکھے پن سے ملے یا بالکل سپاٹ اور مسکراہٹ، محبت اور اپنے پن کے احساس سے خالی ہو۔ آپؐ نے مسلمان کو خوش اخلاقی سے بات چیت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اور دوسری مثال بھی دی ہے۔ کسی پیاسے کو پانی پلادینا معمولی کام ہے۔لیکن آپؐ نے تاکید فرمائی کہ اسے بھی معمولی نہ تصور کرنا چاہیے۔ اس پر بھی عذر و ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ کبھی کبھی کسی کی ہمدردی میں یا محض اللہ تعالیٰ کی خوشی کے لیے کیا جانے والا یہ معمولی کام انسان کو جنت کا حق دار بنادیتا ہے۔
صحیح بخاری شریف کے مطابق ایک کتے کو شدید پیاسا دیکھ کر ایک عورت کو ترس آیا اور اس نے اسے پانی پلادیا۔ وہ عورت بدکار تھی، اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔
جب حیوانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا، پانی پلانے کا یہ بدلہ ہے تو انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا کتنا بڑا اجر ہوگا۔ دنیا کی کوئی معمولی چیز بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے۔ اس کے مقرر فرشتے سب نوٹ کرتے رہتے ہیں۔
’’جو کچھ تم کرتے ہو، اس کے دوران ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں، کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی جو تیرے رب کی نظر سے چھپی ہوئی ہو، اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔‘‘ (قرآن)
عام طور پر جب کسی کو دعوت پر بلایا جاتا ہے یا کھانا کھلایا جاتا ہے تو گھر میں کھانے کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کھانے کو اکثر حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ کسی کو گھر کا عام کھانا کھلانے میں اپنی سبکی محسوس ہوتی ہے اور کھانے والا بھی اپنی بے عزتی محسوس کرتا ہے۔ یہی معاملہ تحفہ کے لین دین کا بھی ہے۔ لینے اور دینے والے دونوں کی نظریں تحفہ کی قیمت پر ہوتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفہ کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو کیونکہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلق میں اضافہ ہوتا ہے اور تحفہ کا لین دین کرنے سے آپسی محبت بڑھتی ہے۔
عورتوں میں یہ جذبہ مردوں کے مقابلہ میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو دعوت دینا یا کسی کے یہاں کھانے کی چیز بھیجنا تبھی پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں کھانے کا بہت اچھا اہتمام ہو۔ اگر کسی کے یہاں پڑوسی سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آجائے تو وہ اسے پسند نہیں کرتی اور اپنی بے عزتی محسوس کرتی ہیں۔ اس لیے اللہ کے رسولﷺ نے خاص طور سے عورتوں کے لیے فرمایا ہے کہ ’’کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتے داروں یا پڑوسیوں میں بھیجنے سے شرمانا چاہیے نہ جس کے یہا ںبھیجی گئی ہو اسے حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔‘‘
ہر انسان کو معمولی گناہوں سے بچنا چاہیے جیسے قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے اسی طرح معمولی گناہوں سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ معمولی گناہ ہی اکٹھا ہوکر انسان کے لیے جہنم کے عذاب کا سبب بن جاتے ہیں۔ جو شخص اپنے اچھے اور برے دونوں طرح کے کاموں پر نظر رکھتا ہے وہ اپنے اچھے کاموں کوبڑھانے اور برے کاموں سے دور رہنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور وہی انسان دین اور دنیا دونوں جگہ کامیاب ہوتا ہے۔