آج ہمارا معاشرہ بگاڑ کی راہ پر چل نکلا ہے۔ بڑی بڑی باتوں کو رہنے دیجیے اور صرف ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہی لے لیجیے جن کا تعلق گھر کے اندر سے ہے۔ آپ کو لوگ غیبت، چغلی، بدگمانی، تجسس، حسد اور ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے نظر آئیں گے۔ اس قطار میں اگرچہ مرد حضرات بھی سرگرداں نظر آتے ہیں، لیکن خواتین کا تناسب زیادہ ہے۔ اہم بات تو یہی ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا یا انہیں برائی تصور نہیں کیا جاتا یا پھر انہیں بہت معمولی بات گردانا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی معمولی باتیں دلوں کو پھاڑنے ، معاشرہ کو توڑنے اور سماج کو بگاڑنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ دوسری طرف ہمارے نامۂ اعمال میں مسلسل برائیوں کا اضافہ کرکے غلطیوں کا ہمالہ پہاڑ تعمیر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ برائیاں اور کوتاہیاں ایک مستحکم معاشرے اور صالح سماج کی تشکیل میں بھی رکاوٹ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کے مطابق صحت مند اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ان ہی چھوٹی باتوں پر خاص طور سے توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ بڑے بگاڑ چھوٹے بگاڑ سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور فروغ پاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد، اللہ تعالیٰ کی تعلیم دینے کے باوجود ہم میں اگر ایسی بات پائی جائے تو حیرت ہی کی بات ہے۔ پھر ارشاد فرمایا:
’’بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے۔ دیکھو تم خود اس سے گھن کرتے ہو۔‘‘
یہ تمام افعال چونکہ تعلقات بگاڑتے ہیں اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں۔ اس لیے اسے حرام کردیا گیا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر مسلم معاشرہ کو فتنہ و فساد سے بچانے کے لیے ہدایات دی ہیں۔ غیبت کے بارے میں حدیثِ قدسی ہے :
’’حضورﷺ نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔ عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہے جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہ ہوتو تو نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘
یہ تو ہوئی غیبت کی تعریف اور اللہ تعالیٰ نے اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ قرآن کی ان دونوں آیات کو دیکھنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ معمولی نظر آنے والی برائی اللہ کی نظر میں کس قدر گھناؤنی ہے اور اگر یہ واقعی اتنی گھناؤنی ہے تو یقینا اس کے اثرات بھی افراد، سماج اور معاشرے پر اتنے ہی شدید ہوں گے۔
مذکورہ معمولی تصور کی جانے والی برائیوں کا ہماری ذاتی زندگی اور ہمارے نامۂ اعمال پر کتنا برا اثر پڑسکتا ہے اس کا اندازہ اللہ کے رسول کی اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے لوگوں سے پوچھا: مفلس کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا ہم تو مفلس اسے تصور کرتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ نہیں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نیکیوں کا پہاڑ لے کر آئے گا۔ لوگ تصور کریں گے کہ اس کا تو جنت میں جانا یقینی ہے۔ مگراس کے خلاف جب مدعی آئیں گے تو منظر بدل جائے گا۔ ان نیکیوں کے باوجود اس نے کسی کا دل دکھایا ہوگا کسی کی غیبت کی ہوگی، کسی کا حق مارا ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے حق کے بہ قدر اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کردے گا۔ اس طرح اس کی تمام نیکیاں ختم ہوجائیں گی۔ مگر حق داروں کا حق باقی رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان حق داروں کی برائیاں اس کے حصہ میں رکھ دیں گے یہاں تک کہ سب کا معاملہ صاف ہوجائے گا اور پھر اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بہ ظاہر معمولی نظر آنے والی یہ برائیاں کس طرح ہمارے نامہ اعمال کو آگ کی طرح چاٹ جائیں گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر بندئہ مومن اپنی زبان کے معاملہ میں محتاط ہو۔ اللہ کے رسول نے متوجہ فرمایا ہے کہ اکثر لوگ اپنی زبان ہی کے سبب جہنم میں ڈالے جائیں گے۔