معیارِ زندگی کا لفظ ہماری زبان پر آتے ہی ہمارے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ معیارِ زندگی کا تصور ہم صرف اس انداز میں لیتے ہیں کہ ہمارے پاس مال دولت کی فراوانی ہو، کار ہو، پاش بنگلہ ہو، بنگلے کی ہر چیز قیمتی سے قیمتی ہو۔ لیکن زندگی کا یہ رہن سہن ہمارے رسولؐ کے رہن سہن سے تو میل نہیں کھاتا۔ اگر ہم خود کو مومن کہتے ہیں تو ہماری زندگی میں رسولؐ کی زندگی کی جھلک ضرور دیکھنے کو ملنی چاہیے اور یہی ہماری زندگی کا اسٹنڈرڈ یا معیار ہونا چاہیے۔ زندگی اسی قدر معیاری ہوگی جس قدر وہ رسول کے اسوہ سے قریب ہوگی۔ معیاری زندگی تو ہم اسے کہیں گے جو اپنے رب کی مرضی اور منشا کے مطابق گزرے۔ ہمارے لیے توہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی زندگی مثالی نمونہ اور اسٹینڈرڈ لائف ہونی چاہیے، بہت سارے لوگ خود کو سچا عاشق نبی کہتے ہیں لیکن ان کی زندگی بڑی ہی عیش و عشرت میں گزرتی ہے۔ ان کی زندگی کا کوئی پہلو حضورؐ کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا پھر ہم کیسے سچے عاشق رسول ہوسکتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ اپنی حیثیت کے بارے میں اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یا الٰہی میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانے کو ملے بھوک میں تیرے سامنے گڑگڑایا کروں او رکھا کر تیری حمد وثنا بیان کروں۔‘‘ اس دعا کا عملی نقشہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ان الفاظ میں بیان فرماتی ہیں۔ ایک ایک مہینے تک ہمارے چولہے میں آگ روشن نہیں ہوتی تھی، حضورؐ کا کنبہ کھجور اور پانی پر گزارا کرتا تھا۔ حضورﷺ نے مدینہ میں آکر تین دن تک متواتر گیہوں کی روٹی کبھی نہ کھائی۔ جب حضورؐ نے انتقال فرمایا تو آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بہ عوض غلّہ رہن تھی اور آخری شب پڑوس کے گھر سے چراغ کے لیے تیل منگایا گیا۔ آپؐ دعا فرمایا کرتے تھے الٰہی آلِ محمدؐ کو اتنا دے جتنا وہ پیٹ میں ڈال لیں۔
دولت مندی کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: دولت مندی مال و زر کی کثرت میں حاصل نہیں ہوتی غنی وہ ہے جس کا دل غنی ہے۔(بخاری)
شیخ سعدیؒ کا ایک شعر ہے جو فارسی زبان میں ہے:
سخاوت بدل است نہ بمال
بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال
یعنی حضرت شیخ سعدی نے اس شعر میں ایک بات کی وضاحت کردی کہ سخاوت مال سے نہیں دل سے ہوتی ہے۔ اور بزرگی عمر سے نہیں عقل سے ہوتی ہے۔
سورئہ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تم صبر اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یہ ایک عالی ہمتی کا کام ہے۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ قرآن حکیم کی عملی تفسیر تھے۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے گھر کی زیبائش کے لیے پردہ لٹکایا جس میں تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں۔ آپؐ کی نظر اس پردے پر پڑی تو فرمایا میرے سامنے سے یہ پردہ ہٹالو کیونکہ اس پر بنی ہوئی تصاویر میری نماز میں سامنے آتی رہتی ہیں۔
ایک بار آپؐ کسی جنگ سے واپس آئے تو حضرت عائشہؓ نے فرطِ محبت و شوق میں گھر کو سجایا اور ایک رنگین پردہ لٹکایا۔ آپؐ کو یہ بات ناگوار گزری اور فرمایا: ’’خدا نے ہمیں مٹی اور پتھر کو آراستہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک بوریے پر لیٹتے جس سے جسم اطہر پر بوریے کا نشان پڑگیا، آپؐ بیدار ہوئے تو میں سہلانے لگا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اجازت کیوں نہیں دیتے کہ بوریے پر کوئی چیز بچھا دیا کریں جو آپؐ کو اس سے بچالے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے دنیا سے کیا مطلب میں اور دنیا محض اس طرح ہیں جیسے ایک سوار کہ ایک درخت کے سائے میں آیا پھر چلاگیا او راسے پیچھے چھوڑ گیا۔‘‘
حضرت ابنِ مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا قابلِ رشک دو ہی طرح کے آدمی ہیں ایک وہ جس کو اللہ تعالیٰ مال دے تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹادے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ حکمت دے تو وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے اور ان کو دین سکھائے۔
کسی سائل نے آپؐ کی زبان سے ’’نہیں‘‘ کا لفظ نہیں سنا۔ ایک بار ایک سائل سے یہاں تک فرمادیا اس وقت گھر میں کچھ نہیں تم میرے نام پر قرض لے لو میں ادا کردوں گا۔ آپؐ کا گھر کھجور کے پتوں کا بنا ہوا تھا جس پر گھاس پھوس ڈالی گئی تھی ستون کھجور کے تنوں کے تھے اور دروازوں کے کواڑ تک نہ تھے۔ یہ ہے اس ہستی کا معیارِ زندگی جس کی امت ہونے کا ہمیں شرف حاصل ہے اور ہم اسوئہ حسنہ کی پیروی کا درس دیتے تھکتے نہیں۔ ہمیں اسوئہ حسنہ کی بات کس منہ سے زیب دیتی ہے ، ہم اپنی جگہ غور کریں۔