امریکہ میں اس وقت جتنی شخصی اور معاشرتی برائیاں ہیں ان سب کی بنیادی وجہ مذہب کی گرفت کا کمزور ہونا یا عوام کی مذہبی تعلیمات سے ناواقفیت ہے۔ میں نے خود امریکہ میں قیام کے دوران متعدد امریکیوں سے دریافت کیا کیا وہ بائبل پڑھتے ہیں یا کبھی انھوں نے بائبل کا مطالعہ کیا ہے؟ نوے فیصد کا جواب نفی میں تھا۔ بمشکل دس فیصد امریکی عیسائی ہفتے میں ایک بار چرچ جاتے ہیں لیکن انھیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ چرچ میں کیا پڑھتے ہیں۔
مذہبی اسکالر اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی قوم اپنے خدا، حضرت مسیح کی تعلیم اور مذہبی احکامات کو پس پشت ڈال چکی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے اندازہ ترقی نے ان کے دلوں سے خدا اور گناہ و ثواب کا تصور تک ختم کردیا ہے۔ اب نوے فیصد سے زیادہ امریکی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے جب سزا و جزا کا اہتمام ہوگا۔ یہ تصور عام ہے کہ عیسائیوں کو ان کے گناہوں کی سزا نہیں ملے گی۔ کچھ مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چرچ میں جاکر پادری کے سامنے اپنے گناہوں کااقرار کرلیں گے تو بخشے جائیں گے۔ ہر شخص یہی کہتا ہے کہ کیوں نہ اس زندگی کے ایک ایک لمحے سے مسرت و لذت حاصل کروں جب مجھے پتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر ہمیں کوئی دوسری زندگی نہیں ملے گی۔ یہ مادیت پرستی کی وہ انتہا ہے جس کے آگے کسی نیک معاشرے یا معصوم و بے عیب زندگی کا تصور کرنا بھی حماقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ قوم جنسی بے راہ روی کی گہری کھائی میں گرچکی ہے اور ان کی زندگی سے وہ اطمینان اور حقیقی مسرت رخصت ہوچکی ہے جو روحانیت کی عطا ہے۔
یوں تو آپ امریکی کرنسی پر ایک نظر ڈالیں تو ہر ڈالر پر نمایاں طور پر لکھا ہوا نظر آئے گا:
IN GOD WE TRUST… یہ دعویٰ آپ کو امریکی ایوان کانگریس میں چیئرمین سینٹ کے سامنے لکھا بھی دکھائی دے گا۔ یہی جملہ آپ کو بڑے جلی اور نمایاں الفاظ میں ایوان نمائندگان کے اسپیکر کی مرمریں تختی پر کھدا ہوا بھی ملے گا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی نشست کے اوپر دس احکامات ربانی درج ملیں گے۔ امریکی ایوان کا ہر اجلاس خدا کے نام سے شروع اور خدا کے نام ہی پر ختم ہوتا ہے۔ واشنگٹن مانومنٹ (یادگار) کے اوپر بھی ایک پیتل کی پلیٹ پر یہ الفاظ کندہ ہیں: ’’تمام ستائش کا سزاوار صرف خدا ہے۔‘‘ اس کی سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ دیواروں پر بھی بائبل کی آیات و تعلیمات درج ہیں۔ ایک اور امریکی رہنما تھامس جیفرسن کی یادگار میں اس کے یہ الفاظ درج ہیں:
’’خدا نے ہمیں زندگی دی اور ہمیں آزادی سے سرشار کیا۔ کیا اس قوم کی یہ آزادیاں اس وقت بھی اسے حاصل رہیں گی جب یہ قوم اس بات کو فراموش کربیٹھے گی کہ اس کی یہ آزادیاں خداکا بے مثل عطیہ ہیں؟ درحقیقت میں اس وقت اس خیال ہی سے لرز جاتا ہوں۔ خدا برحق ہے اور اس کاانصاف کبھی ہمیشہ کے لیے غیر متحرک نہیں ہوتا۔‘‘
بائرڈ (Byrd) جیفرسن کے اس قول کی توضیح کرتے ہوئے بڑے پُرزور الفاظ میں انتباہ کرتا ہے کہ: ’’اگر ہم خدا کو فراموش کربیٹھیں گے تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔‘‘ ڈینور پوسٹ نے اپنی ۲۰؍جنوری ۱۹۰۵ء کی اشاعت میں لکھا تھا:
’’دوپہر کے وقت دو گھنٹے کے لیے ڈینور شہر پر ایک طلسم کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بارہ سے دو بجے تک تمام کاروباری مراکز اور بازار ویران ہوجاتے ہیں۔ دنیاوی کام بھول کر تمام لوگ روحانی افکار میں کھو جاتے ہیں۔ ہر جگہ اور ہر جا خدا کے تصور کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ عظیم روحانی اجتماعات میں فکر و ذکر کے لیے لوگ چلے جاتے ہیں اور جب واپس آتے تو ہزاروں عورتوں اور مردوں کے چہرے روحانیت کی پاکیزگی سے تمتما رہے ہوتے ہیں۔ ‘‘
اس اخباری رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز تک امریکی قوم کامذہب کی طرف رجحان زیادہ تھا مگر بتدریج یہ رجحان کم ہوتا گیا اور ۱۹۳۰ء میں ایسی بہت سی مذہبی روایات اور اجتماع ختم ہوچکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی کارل مارکس اور ڈارون کی تعلیمات نے امریکی عوام کو متاثر کرنا شروع کردیا۔ اسکولوں میں عبادت اور بائبل کی تعلیم کے پیریڈ ختم کردئے گئے۔ مذہب کو روز مرہ زندگی اور سیاست و حکومت سے الگ کردیا گیا۔ حکومت پر چرچ کا اثر برائے نام رہ گیا اور مذہب کی گرفت توڑنے کے لیے ذرائع ابلاغ خصوصاً ریڈیو، ٹی وی اور تھیڑ کے علاوہ عریاں و فحش لٹریچر نے بڑا اہم رول ادا کیا۔
امریکی سینیٹر جیسی ہیلمز نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا: میں اپنی اس مختصر سے زندگی ہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جس قوم نے خدا کے نام اور اس پر عقیدے کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا وہ بہت جلد اس کو فراموش کرچکی ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ مذہب، خدا اور اخلاقیات کے زریں اصولوں پر ہمارے ہی دانشور بڑے سوقیانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔ دانشور ہی نہیں بلکہ خود ہماری حکومت بھی کچھ کم نہیں۔ ’’خدا کی ذات پر ہمارا اعتقاد ہے۔‘‘ کا دعویٰ کرنے والی حکومت مذہب کے بارے میں اپنے مخاصمانہ خیالات کو چھپانے کی ضرورت محسوس نہیںکرتی۔ ‘‘ وہ آگے لکھتا ہے:
’’میں سوچتا ہوں کہ خدا نے حضرت یسوع مسیحؑ کے پیدا کرنے کے لیے ماضی کا کیوں انتخاب کیا تھا۔ آج ان کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نہیں تو کوئی سیاسی مسیحا ہی آجائے!‘‘
نئی امریکی نسل اور تین ’’آر‘‘
امریکی معاشرے میں آزادانہ طور پر دستیاب لچر اور بے ہودہ لٹریچر، گندی فلمیں، ٹی وی کے اخلاق سوز مناظر اور وی سی آر کی فلمیں بچوں کے مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ انہیں اپنے گردوپیش کے علاوہ اسکول میں ہم جولیوں کا دباؤ بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اسکولوں میں لڑکیاں بلوغت کی عمر میں قدم رکھتے ہی جنس مخالف کی طرف رغبت کا آزادانہ رجحان دیکھتی ہیں جہاں ہر لڑکی یا لڑکا دوست بنانے یا مقبولیت حاصل کرنے کی دوڑ میں تمام اخلاقی و معاشرتی حدوں کو توڑ کر آگے نکل جانے کی فکر میں ہوتا ہے۔
امریکی اسکولوں میں اوائل عمری ہی میں لڑکے لڑکیوں کے ایسے گروپ بن جاتے ہیں جو فری سیکس کے عملاً قائل ہوتے ہیں۔ والدین جو پرانی قدروں اور روایات کے حامی ہوتے ہیں، ان کی مداخلت عموماً غیر موثر ثابت ہوتی ہے۔ لڑکی کہتی ہے: ’’مام! تم جانتی ہو یہ کوئی وکٹورین دور نہیں، یہ بیسویں صدی ہے۔ اب آپ کو مجھے مذہبی تعلیمات اور بزرگوں کی اقدار کا حوالہ دینے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ‘‘
آج امریکہ میں ہر بچہ نو سال سے اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے تک کم از کم ایک مرتبہ ضرور جووینائل (کم سنوں کی) کورٹ میں پیش ہوتا ہے۔ پندرہ سے چوبیس سال کی عمروں والے لڑکے لڑکیوں میں خود کشی امریکہ میں اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر سال کم و بیش دس لاکھ بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ ہمارے (امریکی) اسکول جرائم، تشدد اور غنڈہ گردی کے گڑھ بن چکے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں انہی اسکولوں کے بچوں نے ایک سو قتل کیے۔ بارہ ہزار مسلح ڈکیتیاں کیں۔ نو ہزار لڑکیوں کی عصمتیں لوٹیں۔ دو لاکھ چار ہزار اساتذہ کو یا اپنے ساتھیوں کو بری طرح مارا پیٹا اور زخمی کردیا۔ غندہ گردی اور توڑ پھوڑ کی حرکتوں سے اپنے تعلیمی اداروں کی املاک کو ساٹھ کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ قومی سطح پر اس ایک سال کے دوران اسکولو ں کے پچاس لاکھ لڑکے لڑکیاں منشیات کے عادی نکلے اور پانچ لاکھ شراب نوشی کرتے پکڑے گئے۔ غرض تعلیمی اداروں میں نئی امریکی نسل تین ’’آر‘‘ یعنی Robbery, Rapeاور Riotکی عادی بن چکی ہے۔
اس وقت امریکہ میں دو لاکھ پچھتّر ہزار نوجوان عورتیں ہر سال سوزاک میں مبتلا ہورہی ہیں۔ ہر سال تین لاکھ سے زیادہ نئی جنسی بیماری ہرپیز (Herpes) کے مریض سامنے آرہے ہیں۔ اس مرض سے متاثرماؤں کے پیدا ہونے والے بچے منہ یا گردن کے کینسر میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ سوزاک سے متاثر ماں کا پیدا ہونے والا بچہ بینائی کھو بیٹھتا ہے اور ہرپیز سے متاثر ماں کے بچے کو روایتی راستے سے گزارنے کے بجائے پیٹ چاک کرکے نکالنا پڑتا ہے اور ایڈز ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
اس قسم کی انتہائی خطرناک اور اذیت انگیز وباؤں کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پوری قوم جنسی بے راہ روی میں بہت آگے نکل گئی ہے اگر اخلاقی، مادی، مذہبی، روحانی یا کم از کم قانونی تقاضوں ہی کو مدنظر رکھا جاتا تو جنسی بیماریاں اتنی ہمہ گیر وبا کی شکل اختیار نہ کرتیں۔
گزشتہ کئی عشروں سے امریکہ میں معاشرتی علوم کے ماہرین یہ انتباہ کرتے رہے ہیں کہ خاندان کا تصور شکست و ریخت سے دوچار ہے اور اس صدی کے آخر تک باقی نہیں بچے گا۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے دانشور اور مصنفین خاندان کی مخالفت میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جو عمل شروع ہے اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور خاندان کا تصور ختم ہوجانا ہی بہتر ہے۔ ایک مصنف کیٹ ملٹ لکھتا ہے کہ ’’خاندان کا وجود ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ عورت پر پابندیاں عائد کرتا ہے اور اس کی حیثیت غلاموں کی سی ہوجاتی ہے۔‘‘
میں امریکہ کے مختلف علاقوں میں امریکیوں کے درمیان کئی کئی ماہ رہا ہوں۔ لیکن میں نے کسی گھر میں بارہ برس کی عمر سے اوپر کے لڑکے یا لڑکیوں کو نہیں دیکھا۔ سفید فام گھروں میں صرف کم عمر بچے ہی نظر آتے ہیں، البتہ سیاہ فاموں کے ہاں بڑی عمر کے لڑکے لڑکیاں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، جن کا کام گھروں کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھے رہنا، منشیات کے کاروبار میں الجھے رہنا، جرائم پیشہ لوگوں سے رابطہ رکھنا یا گروہوں کی صورت میں یا تن تنہا لوگوں کو لوٹنے کی وارداتیں کرنا ہوتا ہے۔ سفید فام لوگوں کی نسبت سیاہ فاموں کے ہاں ابھی تک خاندانی اکائی موجود نظر آتی ہے اگرچہ ان کے ہاں بھی معاشرتی اقدار کا پوری طرح جنازہ نکل چکا ہے اور یہ لوگ سب سے زیادہ غیر قانونی حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اگر کسی عورت کو یہ مواقع بوجوہ میسر نہیں آتے تو وہ خود کو بدنصیب تصور کرتی ہے اور جلد سے جلد اپنے سخت گیر خاوند یا بچوں کی صورت میں پاؤں میں پڑی بیڑیوں سے نجات حاصل کرنے کی راہ تلاش کرتی رہتی ہے۔ آئے روز مائیںاپنے معصوم بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے نئے بوائے فرینڈ کے ساتھ فرار ہوجاتی ہیں یا بچوں کو قتل کرکے ان سے گلو خلاصی حاصل کرتی ہیں۔ امریکی معاشرہ اس قسم کی سنگدل عورتوں سے بھرا پڑا ہے جنہیں اپنی جنسی آزادی اتنی عزیز ہوتی ہے کہ وہ معصوم بچوں تک کو موت کے گھاٹ اتارنے سے باز نہیں رہتیں۔
ساؤتھ کیرولائنا کی ایک ۲۲ سالہ شادی شدہ لڑکی سوزن اسمتھ کو جس کا خاوند اور دو پیارے پیارے خوبصورت بچے تھے، اس بات کا بڑا صدمہ تھا کہ وہ شادی کرکے اور دو بچوں کی ماں بن کر زندگی کی رنگا رنگ لذتوں اور انواع و اقسام کی عیاشیوں سے بڑی حد تک محروم ہوگئی ہے جبکہ اس کی ہم عمر لڑکیاں دن رات مردوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی رہتی ہیں، چنانچہ اس نے ایک دن سوچے سمجھے پروگرام کے تحت دونوں بچوں کو موت کی نیند سلانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے طے کرلیا کہ خاوند کو بھی اس کی آزادانہ زندگی پر اعتراض ہو تو وہ اسے بھی چھوڑ دے گی۔ منصوبے پر عمل درامد سے کچھ دن پہلے اس نے دونوں بچوں اور ان کے باپ کے ساتھ گھر کے بیک یارڈ میں سیروتفریح اور کھیل کود کی ایک نہایت دل آویز مووی بنائی تھی۔ دونوں بچے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی جن کی عمریں چار اور پانچ سال تھیں، بڑے پیارے اور خوبصورت تھے۔
ایک روز جب اس کا خاوند کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا اس نے دونوں بچوں کو نہلا دھلا کر بڑے پیارے کپڑے پہنائے۔ پھر انہیں خوب خوب پیار کیا۔ سینے سے لگا کر دیر تک روتی رہی (یہ اس نے بعد میں مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا) اور پھر انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر جھیل کے کنارے لے گئی۔ اس نے کار کو ایک اونچی جگہ پر ڈھلان کے رخ اس طرح کھڑا کردیا کہ بریک کھلتے ہی کار خود بخود تیزی سے آگے بڑھ کر جھیل میں چلی جائے۔ اس نے بچوں کو کار کی پچھلی نشست پر بٹھا دیا اور خود کار کے ایکسیلیٹر پر دو اینٹیں رکھ دیں۔ کار کے باہر کھڑی ہو کر اگنیشن دیا اور کار اسٹارٹ ہوتے ہی دروازہ تیزی سے بند کرکے کار کو دھکا دے دیا اور خود آنکھیں بند کرکے رونے بیٹھ گئی۔ ایک لمحے کے اندر کار تیزی کے ساتھ جھیل میں اتر گئی اور چیختے چلاتے بچوں کو لے کر ڈوب گئی۔ چند لمحوں کے بعد جب سنگدل ماں نے آنکھیں کھولیں تو کار پانی کی گہرائیوں میں اترچکی تھی اور سطح آب پر اس کے معصوم بچوں کی آخری سانوں کے بلبلے اٹھ رہے تھے۔
سوزن اسمتھ یہاں سے اب سیدھی پولیس اسٹیشن گئی جہاں اس نے رپورٹ درج کرائی کے سیاہ فام لوگوں نے اس کو کارسے باہر دھکیل کر گاڑی اور اس کے دونوں بچوں کو اغوا کرلیا ہے۔ پولیس کو اس کی بیان کردہ کہانی پر شک گزرا۔ اگلے دن اس کا خاوند شہر میں واپس آیا تو اس نے بھی بیوی پر شک کیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی کو اس بات کی بڑی حسرت تھی کہ وہ اپنی سہیلیوں کی طرح کیوں ’’لامحدودو‘‘ نہیں۔ چند روز کے اندر پولیس کی تفتیشی ٹیموں نے جھیل میں ڈوبی ہوئی کار کا پتہ لگا لیا جس کے اندر سے دو معصوموں کی لاشیں اور دو اینٹیں برآمد ہوگئیں جو ایکسیلیٹر پر رکھی گئی تھیں۔ تفتیش آگے بڑھی تو ظالم ماں نے تمام واردات کی تفصیلات خود ہی افشا کردی۔ کیس عدالت میں گیا تو بیان دیتے ہوئے اس نے کہا: ’’میری ابھی عمر ہی کیا تھی کہ دو بچوں کو سنبھالنا پڑگیا اور میں اس نوعمری میں کوئی عیش بھی نہ کرسکتی تھی۔‘‘
اس کے خاوند نے عدالت میں بچوں کی ویڈیو فلمیں بھی دکھائیں جو اس کی بیوی نے تیار کی تھیں۔ ان فلموں کو دیکھ کر اور بچوں کو دیکھ کر ملزمہ بے حد تڑپتی اور روتی تھی۔ آخر عدالت نے اس ظالم ماں کو اس کے سنگین جرم پر سزائے موت سنائی لیکن سرکاری وکیل نے اپیل کی کہ سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی جائے کیونکہ اس قید کا ایک ایک لمحہ اس ظالم ماں کے لیے اذیت ناک ہوگا اور وہ مرمر کر جئے گی۔ اس کا ایک ایک لمحہ اس کے ضمیر پر کاری ضرب لگاتا رہے گا۔ عدالت نے اس اپیل کو منظور کرلیا۔ اب یہ فری سیکس کو ترسی ہوئی ظالم ماں جیل کی آہنی سلاخوں سے ہر لمحہ اپنا سر پھوڑتی رہتی ہے اور چلا چلا کر کہتی ہے: ’’مجھے موت کی سزا کیوں نہ دے دی… میرے لیے اس زندگی سے وہ موت بدرجہا بہتر تھی۔‘‘ تو یہ تھی امریکی جنس زدہ معاشرے کی ایک ادنیٰ سی جھلک!
مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اور کالم نگار راجن سن اپنے ایک مضمون میں ایک خاندان کاتذکرہ کرتا ہے جس میں گھر کے تمام لوگ بیٹھ کر ایک ساتھ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ پھر وہ کئی مناظر پیش کرتا ہے۔ ان مناظر میں کیا ہے بس تشدد، شراب اور بے لگام عیاشی۔
ایک سروے کے مطابق امریکی قوم ٹی وی پروگرام دیکھنے پر اپنا بہت زیادہ وقت صرف کرتی ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے تک ہر امریکی پندرہ ہزار گھنٹے ٹی وی دیکھ چکا ہوتا ہے۔ جبکہ اسکول اور کالج میں اس سے بہت ہی کم وقت دیتا ہے۔ پندرہ برس کی عمر تک ہر امریکی ٹی وی پر گیارہ سے تیرہ ہزار تک تشدد کے مناظر دیکھ چکا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا بچوں کے ذہنوں پر کتنا خوفناک اثر پڑتا ہوگا۔
کیلی فورنیا کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ طالب علم جتنا زیادہ ٹی وی دیکھتا ہے اتنا ہی اسکول میں بدترین ثابت ہوتا ہے اور کوئی بچہ ہوم ورک کتنا ہی کرڈالے، کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو ٹی وی سے اس کا تعلق بہر حال ناقص نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
آخر میں راجن سن لکھتا ہے کہ ٹیلی ویژن ہمارے گھروں اور خاندانوں میں گندگی، بداخلاقی، تشدد اور غیر قانون سیکس پھیلا کر اس کے تباہ کن اثرات و نتائج اور اس کی ذمہ داریوں سے ہرگز نہیں بچ سکتا۔ اس الیکٹرانک میڈیا کا ہمارے پورے معاشرے اور سوسائٹی پر ناقابل یقین حد تک برا اثر پڑ رہا ہے اور اس کو ہر حال میں تبدیل کرنا اور روکنا ہوگا۔ اپنی عادت کو تبدیل کرلیں تو بہتر ہوگا۔ ایک دفعہ ایک ہفتہ ٹی وی دیکھنے بغیر گزارنے کی کوشش تو کر دیکھئے۔ آپ محسوس کریں گے کہ ٹی وی کو چھوڑنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کسی نشے کے عادی کے نشہ چھوڑنا، تاہم مضبوط قوت ارادی والے لوگ نشہ ترک کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ پس اگر ٹی وی پر صرف کرنے والا وقت کسی اور زیادہ مفید کام میں صرف کرسکیں تو یہ آپ کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس کے پورے خاندان خصوصاً نئی نسل پر طویل المیعاد عمدہ نتائج برآمد ہوں گے۔
امریکہ میں فحاشی کا سیلاب
اس جنس زدگی کا دوسرا بڑا سبب امریکی رسائل و جرائد ہیں جن کے سامنے مہذب معاشرہ یا اخلاقی قدریں بے معنی الفاظ ہیں۔ ان کے علاوہ لٹریچر کے نام پر عریاں اور فحش نویسوں اور مخرب اخلاق لٹریچر چھاپنے والوں نے ہر طرف گند اور غلاظت کے انبار لگا رکھے ہیں۔
صحافتی آزادی کی اس لعنت نے سب سے پہلے اخلاقی اقدار کے حامل مذہب کی دھجیاں اڑادیں اور پھر اس کے بعد باقی کچھ نہ بچا جس کا سوگ منایا جاتا۔ امریکی دانشوروں کے نزدیک فحاشی کی مہلک بیماری نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور اب یہ محض ایک بیماری نہیں، ایک وبا ہی نہیں بلکہ طاعون کی صورت اختیار کرچکی ہے۔
اسٹین میئر کے نزدیک’’امریکہ میں فحاشی عورت کے خلاف، بچوں کے خلاف، شادی کے خلاف اور خوشگوار و مستقل اہمیت کے دائمی بندھنوں کے خلاف ہے۔ اس طرح یہ مکمل طور پر تہذیب کے منافی ہے اور چونکہ یہ مہذب معاشرے کے منافی ہے، اس لیے یہ انسانی زندگی کے منافی ہے۔‘‘
ایک اور امریکی دانشور فحاشی کے سرطان کا رونا روتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہاں ہر سال بالغوں کی ذہنی و جسمانی تفریح کا سامان تیار کرنے والی صنعت کم از کم چار ارب ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ اتنا زبردست منافع صرف صحیح اور جائز قسم کی مووی (فلمیں) اور ریکارڈ (گانے) تیار کرنے والی صنعتیں مشترکہ طور پر بھی نہیں کماتیں۔ وہاں جنسی فلموں میں غیر قانونی طور پر استعمال کیے جانے والے بچوں کی تعداد کسی طرح بھی پانچ لاکھ سے کم نہیں۔ ملک میں چائلڈ پورنو گرافی کا کاروبار اس طرح پھیل اور فروغ پاچکا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے تمام تر قوانین دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور صرف اس کاروبارہ سے متعلق ہی ۲۸۰ ماہنامے شائع ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں جہاں قمار بازی بچوں کے لیے ممنوع ہے، سگریٹ اٹھارہ سال سے کم عمر کے کسی شخص کے ہاتھ فروخت نہیں کیا جاسکتا اور شراب کم عمر والوں کے ہاتھ نہیں بیچی جاسکتی، لیکن بچے ڈرگ اسٹورس اور میگزین اسٹالز کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ سیکس یا ایڈلٹ میگزین شفاف نیلے لفافے میں اس طرح بند ہوتے ہیں یا ان کے سامنے ایسے اشتہاد لٹکادئے جاتے ہیں کہ چھپے ہونے کے باوجود وہ پہلے سے زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں۔
فحاشی آمیز جنسی رسائل کے کاروبار کا آغاز ۱۹۵۵ء میں ہوا جب ایک عیاش اور آوارہ مزاج شخص ہف جیفنر نے تھوڑی سی رقم خرچ کرکے ’’پلے بوائے‘‘ نکالا اور اس کے درمیان کے صفحے پر مارلن منرو کی عریاں تصویر شائع کی اور سترہ کروڑ ڈالر کما کر اخبارات و رسائل کی تاریخ میں مالی صنعت کا ایک حیرت انگیز ریکارڈ قائم کیا۔ ہف جیفنر نے تحریری فحاشی کی صنعت میں کیمرے کو شامل کرکے با تصویر فحاشی کے اس نئے کاروبار کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور مسیحیت کی اخلاقی تعلیمات پر بھی محتاط انداز میں حملے شروع کردئے۔
پلے بوائے کی پیدائش کے بعد بیس برسوں کے دوران کم و بیش ایک سو اور اس جیسے رسالے بھی شائع ہونے لگے۔ بعض نے تو مقبولیت حاصل کرنے اور فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے اور پلے بوائے سے بھی کہیں آگے نکل جانے کی کوشش کی۔ اس طرح نیوز اسٹالز ہمہ وقت ایسے بے ہودہ اور لچر رسائل سے بھرے اور سجے رہنے لگے۔
فحاشی کی یہ وبا پرنٹ میڈیا ہی تک محدود نہیں رہی۔ کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ فلمیں جتنی آج گندی ہیں پہلے کبھی نہ تھیں۔ ستم ظریفی یہ کہ فلمساز یا ان کے ہمنوا نقاد یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہ گندگی ہے وہ اسے ’’حقیقت کی عکاسی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اب فلم انڈسٹری والوں کا یہ اعلان کہ ’’بہت جلد پرورشن(جنسی بے راہ روی) اور ہم جنسیت پر بھی فلمیں بنانے کی اجازت مل جائے گی۔‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکومت کی سوچ امریکی مدبروں کی سوچ سے کس حد تک مختلف ہے اور اس نے جس سیلاب کے آگے سے بند توڑ دئے ہیں وہ کس کس چیز کو نہیں بہا لے جائے گا۔
امریکی پولیس کے ذرائع کے مطابق بچوں کو جنسی جرائم کا نشانے بنانے والے ۷۷ فیصد لڑکوں اور بچیوں کو جنسی جرائم کا نشانہ بنانے والے ۸۷ فیصد لڑکوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے یہ حرکتیں فلموں میں اسی قسم کے مناظر دیکھ کر کیں۔ زنا کے مرتکب ایک گروپ میں ۵۷ فیصد نے بتایا کہ انھوں نے پورنو گرافی کی فلموں سے تر غیب حاصل کی۔ مشی گن اسٹیٹ پولیس نے بیس سال کی مدت کے ۳۵ ہزار جنسی جرائم کے مطالعے کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ۴۳ فیصد وارداتوں کا تعلق براہ راست فحش فلموں سے تھا۔ ایسی رپورٹوں سے مترشح ہوتا ہے کہ جنسی وارداتیں (زنا اور مجرمانہ حملے) اور تشدد عام طور پر ایک ساتھ رونما ہوتے ہیں۔
امریکی معاشرتی مفکر اس بات پر قطعاً یقین نہیں رکھتے کہ قوم نے جن بداعمالیوں کو اپنا کر ہر طرف غلاظت بکھیر رکھی ہے۔ وہ کبھی صاف ہوسکے گی، تاہم وہ نیویارک ٹائمز جیسے بعض نیک نام اخبارات کی بڑی تعریف کرتے ہیں جنھوں نے کبھی فحاشی پر مبنی اشتہارات شائع نہیں کیے۔ ان کے خیال میں اگر دوسرے اخبارات نے بھی یہ احتیاط کی ہوتی تو یہ سیلاب جو کسی طرح بھی عذابِ الٰہی سے کم نہیں، آج قوم کے دروازوں پر دستک نہ دے رہا ہوتا۔‘‘ (بہ شکریہ اردو ڈائجسٹ، تلخیص: ادارہ)