مغربی تہذیب اور فحش ومخرب اخلاق لٹریچر کی یلغاروشہری زندگی کی چمک دمک سے پیدا شدہ ناجائز کمائی کی ہوس نے ہمارے معاشرے کی مشرقی واعلیٰ اقدار کو کس حد تک زوال پذیر کردیا ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج والدین ، اساتذہ، قریبی رشتے دار وعزیز واقارب جنہیں بچوں کے کردار کا معمار، محافظ وپاسبان مانا جاتا تھا وہی اب ان کا جنسی استحصال کرکے، انہیں تباہی وبربادی کے غار میں دھکیلنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ اس لئے ہورہا ہے کہ ہم نے نہ صرف اپنی اعلیٰ وارفع اقدار کو درکنارکردیا ہے بلکہ جدیدیت کی اس دوڑ اور زوال پذیر مغربی تہذیب وتمدن کی اندھی تقلید میں اپنی مذہبی واسلامی تعلیمات کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک مادی ترقی میں ہم سے کافی آگے ہیں، لیکن جہاں تک اخلاقی وانسانی اقدار کا تعلق ہے اس میں وہ مشرقی ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ وہ خلا کی وسعتوں کو مسخر کرنے اور دنیا کی تباہی وبربادی کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ اکٹھا کرنے میں تو ضرور کامیاب ہوئے ہیں، تاہم جہاں تک اخلاقی اقدار اور سماجی امن وسکون کا تعلق ہے وہ آج انہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پارہا ہے۔ ہمارا معاشرہ جنسی بے راہ روی، زنا بالجبر اور قتل وغارت گری کے روز افزوں واقعات سے اپنے آپ کو نہ صرف مکمل طور پر غیر محفوظ محسوس کررہا ہے بلکہ زبردست ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار ہے۔ مغربی تہذیب کی اس اندھی تقلید کی وجہ سے ہی اب ہمارے معاشرے میں بھی یہی سب سماجی برائیاں بہت تیزی کے ساتھ اپنا گھر بناتی جارہی ہیں۔
خواتین اور بچوں سے متعلق مرکزی وزارت کے ذریعہسالِ رواں میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ملک کی تیرہ ریاستوں میں پانچ سے اٹھارہ سال کی عمر کے تقریباً پچاس فیصدی بچوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کا جنسی طور پر استحصال کیا جاچکا ہے جب کہ ۵۳فیصدی بچوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کا استحصال اسکول یا کسی اور مقام پر کیاگیاہے۔ جن بچوں کو ’’شدید‘ جنسی استحصال کا شکار بنایاجاچکا ہے ان کی سب سے زیادہ تعداد یعنی (52.27) فیصد آسام میں پائی گئی ہے جب کہ دہلی اس طرح کے 41فیصدی واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ آندھرا پردیش میں ایسے بچوں کی تعداد 33.87 فیصد اور بہار میں33.27 فیصدی بتائی گئی ہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو 21.76 فیصد بچوں نے شدید جنسی استحصال کی شکایت درج کرائی ہے جب کہ 50.76 فیصدی بچوں نے بتایا ہے کہ انہیں جنسی استحصال کی کچھ دیگر اقسام کا شکار بنایاگیا ہے۔ بچوں اورسن بلوغت کو پہنچنے والے نوجوانوں کی صحت کی دیکھ بھال سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم ’’سنیہی‘‘ کے کارکن عبدالمعبود کے مطابق ان کی ہیلپ لائن سے رابطہ قائم کرنے والے بچوں کی طرف سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے والدین اور اساتذہ ان کی اس طرح کی شکایتوں پر کان نہیں دھرتے اور بعض معاملات میں اگر والدین ان کو اٹھاتے بھی ہیں تو اسکول اس میں دلچسپی لینے سے انکار کردیتا ہے۔
لکشمن پبلک اسکول کی پرنسپل اوشارام کا کہنا ہے کہ اسکول اور والدین دونوں ہی کو بچوں کواس بات کی تربیت دینی چاہئے کہ وہ اس طرح کے واقعہ کی اطلاع فوری طور پر کریں اور وہ بچوں پر نظر بھی رکھیں کہ ان کے برتاؤ میں کوئی غیر معمولی تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی۔ سروے کے دوران بچوں کے ساتھ اسکول میں مارپیٹ کئے جانے اور جسمانی استحصال کابھی پتہ چلا ہے۔ اس سروے کے تحت جن بچوں سے رابطہ کیاگیا تھا ان میں سے 65 فیصدی بچوں نے اسکول میں ان کے ساتھ مارپیٹ کئے جانے کی شکایت کی ہے۔ سروے کے دوران دہلی کے دس میں سے تقریباً سات بچوں نے ان کے ساتھ مارپیٹ کئے جانے ، سخت سزائیں دیئے جانے اور بے عزتی کئے جانے کی شکایت کی ہے۔ اس بارے میں سب سے زیادہ خراب ریکارڈ سرکاری اورمیونسپل اسکولوں کا پایاگیا ہے، جہاں 62فیصدی سے زائد بچوں نے اساتذہ کی طرف سے مارپیٹ کرنے اورسخت سزائیں دیئے جانے کی بات کہی۔
اس کی ایک تازہ ترین مثال دہلی میں آصف علی روڈ پر واقع سروودیہ کنیا ودیالیہ کی ہے جہاں ریاضی کا مضمون طالبات کو پڑھانے والی ٹیچر چالیس سالہ اماکھورانہ کو اسپتال سے ڈسچارج ہوتے ہی پولیس نے دوروز کے لئے حراست میں لے لیاہے۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی جانب سے دکھائے جانے والے اسٹنگ آپریشن پروگرام میں اس ٹیچر پر الزام عائد کیا گیاتھاکہ وہ اپنے اسکول کی طالبات کی فحش تصویروں وایس ایم ایس کے ذریعہ ان کو جسم فروشی کے لئے مجبور کرتی ہے۔ اس اسکول میں پڑھنے والی طالبات کے والدین ، رشتے داروں وعلاقے کے لوگوں کی طرف سے زبردست احتجاج وتشدد کے بعد حکومت نے ٹیچر اماکھورانہ کو معطل کرکے اس کے خلاف انکوائری کا حکم جاری کردیا۔ اماکھورانہ نے مبینہ طور پر اسٹنگ آپریشن کے رپورٹر کے ساتھ، جو کہ ایک فرضی گاہک کے طور پر اس سے ملا تھا، اپنی ملاقات کااعتراف کیا۔ پروگرام میں دہلی کے وویک وہار کے اسکول کی جہاں اما کھورانہ پہلے سروس کرتی تھیں ایک طالبہ کو چینل کے رپورٹر کو یہ بتاتے ہوئے دکھایاگیا ہے کہ اما کھورانہ نے نازیبا حالت میں اس کی ایک فلم اتارلی ہے اور اب وہ اس کی بنیاد پر نہ صرف اسے بلکہ کچھ دیگر طالبات کو بھی جسم فروشی پر مجبور کررہی ہے۔ پولیس نے اس ٹیچرکی رہائش گاہ پر تلاشی کے دوران کچھ سی ڈیز اور دیگر غیر قانونی مواد بھی برآمد کیاگیا۔ ابھی حال ہی میں دہلی کے پشپ وہار اور جنوبی مغربی دہلی کے اسکولوں کے کچھ اساتذہ، پرنسپل، ہیڈماسٹر وچوکیدار کو بھی اسکول کے احاطے میں طالبات کے جنسی استحصال کا مرتکب پایاگیاتھا۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اس طرح کے انسان نما بھیڑیوں کو قانون سخت سے سخت سزائیں دے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کرسکیں اور معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والی اس سماجی لعنت پر لگام لگائی جاسکے۔
کہـانـی