لباس انسان کا اول درجہ میں ذاتی مسئلہ ہے اور اس کے بعد سماجی و معاشرتی اور ثقافتی و تہذیبی مسئلہ۔ تن ڈھانکنے اور موسم کی شدت سے بچانے تک یہ انسان کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ ہے اور پھر وہ لباس کس طرح کا ہو، کس انداز اور ڈیزائن کا ہو یہ تہذیب و ثقافت کا اشو ہے۔ شمالی ہند میں مسلم خواتین شلوار قمیص پہنتی ہیں اور غیر مسلم خواتین عام طور پر ساڑی۔ اس کے برعکس جنوبی ہند میں عام طور پر مسلم خواتین بھی وہی ساڑی پہنتی ہیں مگر ان کی تہذیب غیر مسلم خواتین کے ساڑی پہننے سے مختلف ہے۔ غیر مسلم عورتیں عام طور پر اس لباس میں اس قدر سترپوشی سے کام نہیں لیتیں جس قدر ’’سترپوشی‘‘ مسلم خواتین اختیارکرتی ہیں۔
اس وقت لباس کو لے کر خاص طور پر خواتین کے لباس کو لے کر دنیا بھر میں ایک عجیب و غریب کیفیت ہے۔ لباس کے ڈیزائن اور فیشن کولے کر ایک بڑی صنعت کام کررہی ہے جس کا بلین ڈالروں کا کاروبار ہے۔ نت نئے انداز، گوناگوں تراش و آرائش اور رنگینیاں خواتین کو لبھارہی ہیں۔ اخبارات و رسائل اور میڈیا میں روزانہ نئے نئے رنگ ڈھنگ کے قیمتی سے قیمتی لباسوں کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں اور ظاہر ہے وہ دنیا بھر میں بکتے بھی ہیں۔ لیکن ان لباسوں اور ڈیزائنوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان میں جسموں کو چھپانے سے زیادہ جسم اور اس کے مختلف اعضا کو نمایاں کرنے اور ظاہر کرنے کا رجحان غالب ہوتا ہے۔ اب تک لباس کا مقصد جسم کو چھپانا ہوتا تھا مگر نئی تہذیب و ثقافت نے جو اثر ذہنوں پر ڈالا وہ یہ ہے کہ یہ جسم پر تو رہے مگر چھپانے کے بجائے اعضاء کو ظاہر اور نمایاں کرنے کا کام انجام دے۔
لباس کیونکہ سماجی مسئلہ بھی ہے اس لیے یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو محض ذاتی اور انفرادی بات کہہ کر ٹال دیا جائے۔ اس لیے کہ انسان خواہ مرد ہو یا عورت وہ سڑکوں پر چلتے پھرتے ہیں، بازاروں میں گھومتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس لباس کو دیکھتے اور اس متاثر ہوتے ہیں جن کا فرد سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک برہنہ جسم پاگل کو دیکھ کر ہر آدمی ترس کھاتا ہے اور خواہش دل میں رکھتا ہے کہ اس کا تن ڈھک دیا جائے، ایسا اس وجہ سے ہے کہ فطری طور پر انسانی آنکھیں اس منظر کو ناپسند کرتی ہیں۔ جس طرح بالکل برہنگی انسان کو اپنی طرف کھینچتی اور اس کے اندر کسی قسم کا جذبہ پیدا کرتی ہے اسی طرح عام انسان کا لباس سماج کے دیگر افراد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بات ہر انسان بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ انسانی فطرت میں اصل چیز جسم کو ڈھانکنا اور چھپانا ہے۔ لیکن گزشتہ صدی میں ایک نئی تہذیب نے فروغ پایا ہے اور اس تہذیب کا امتیاز یہ ہے کہ وہ لباس کے ذریعہ خاص طور پر خواتین کے لباس کے ذریعہ جسم کو چھپانے سے زیادہ نمایاں کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
تہذیبیں ہر دور میں الگ الگ رہی ہیں اور عروج و زوال کا شکار بھی ہوتی رہی ہیں۔ اپنی خوبیوں کی بنیاد پرعروج حاصل کیا اور اپنی خامیوں اور برائیوں کے سبب تباہی و بربادی سے دوچار ہوئیں۔ جارحیت، جبر اور تشدد کی بنیاد پر تہذیبوں کا عروج نہیں ہوتا، لیکن موجودہ دور کی تہذیب خاص جومغرب کے بطن سے پیدا ہوئی اپنے فروغ کے لیے جہاں جبر وتشدد کا سہارا لے رہی ہے وہیں اس نے سیاست کا ’عصائے کلیمی‘ بھی اپنے ہاتھ میں تھام لیا ہے اور حالیہ دنوں میں اس تہذیب نے لباس کے مسئلہ کو لے کر دنیا بھر میں ایک تہذیبی جنگ اور کشمکش کی صورتحال اختیار کرلی ہے۔
ایک طرف تو یہ ’’سیاسی قوت کا عصائے کلیمی‘‘ تھامے باقی دنیا کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے دوسری طرف اپنے شر انگیز نتائج کے سبب اس نے اپنے اصلی وطن کے رہنے والے انسانوں کو بے اطمینانی، کشمکش اور سماجی و معاشرتی مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک طرف نئی تراش خراش کے رنگین، عریاں و نیم عریاں لباس ہیں تو دوسری طرف جرائم کا سیلاب بلاخیز ہے جو معاشروں کو اپنی لپیٹ میں تیزی سے لیے جارہا ہے۔ ایک طرف ملکوں کی انتظامیہ ہے جو اس پر قدغن لگانا چاہتی ہے تو دوسری طرف شخصی آزادی کی متوالی خواتین ہیں جو اس کے خلاف صدائے احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ اور اب صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ لباس پر مقامی اورعالمی سطح پر گرما گرم سیاست ’’پروسی‘‘ جارہی ہے۔ اور اس سیاست کی بنیاد یہ ہے کہ جو خواتین ابھی بالباس ہیں ان کے جسموں سے بھی لباس اسی طرح نوچ کر پھینک دیا جائے جس طرح اس تہذیب نے اپنی خواتین کے جسم سے نوچ ڈالا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ مہینوں فرانس میں مسلم خواتین کے برقع پر پابندی لگادی گئی۔ اس کے چند ہی ماہ بعد کناڈا کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کا بیان کہ خواتین “Slut”(غیر شائستہ) لباس نہ پہنیں پوری دنیا میں موضوع بحث بن گیا اور دنیا بھر کی خواتین اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گئیں۔ دنیا کے مختلف گوشوں اور شہروں میںSlut لباس کی دلدادہ خواتین نے احتجاجی ریلیاں نکالیں کیونکہ اسے ان کی شخصی آزادی پر حملہ محسوس کیا گیا تھا۔عریانیت پسند خواتین سے جب صرف ’’شائستہ‘‘ لباس پہننے کی بات کہی گئی تو اسے ان کی شخصی آزادی پر حملہ گردانا گیا مگر جب لباس پسند عورتوں کو ساتر اور شائستہ لباس پہننے پر پابندی عائد کی گئی تو کسی شخصی آزادی کے متوالے کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ شخصی آزادی کے اس تصور کی وکالت کرتا اور اس پابندی کے خلاف کم از کم اسی طرح تو احتجاج کرتا جس طرح slutلباس پہننے کی وکالت کرنے پر کیا گیا۔
نیوزی لینڈ کے آک لینڈ شہر میں اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اور وہ یہ کہ وہ مسلم خواتین جو حجاب پہنتی ہیں انھیں پبلک ٹرانسپورٹ بسوں میں سوار ہونے سے روک دیا جائے۔ یہ بھی شخصی آزادی کا کوئی پہلو ہے کیا؟ اگر کسی کو عریاں ہونے کی آزادی ہے تو کیا لباس پہننے والوں کو بھی اس آزادی کا غلام ہونا پڑے گا؟؟
دراصل دنیا اس وقت ایک تہذیبی کشمکش کے دور میں ہے اور یہ کشمکش اور جنگ اسلامی تہذیب و ثقافت اور مغرب کی تہذیب و ثقافت کے درمیان ہے۔ معاملہ چاہے نیوزی لینڈ میں باحجاب خواتین کو سرکاری بسوں میں سفر نہ کرنے دینے کا ہو یا ہالینڈ میں شرعی ذبیحہ پر قانونی پابندی کا، اسکارف پہن کر اسپورٹس میں حصہ لینے کا ہو یا حجاب پہن کر طالبات کے اسکولوں اور کالجوں میں جانے کا۔ ہر طرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ اس تہذیب و ثقافت کے خلاف ’’گھیرا بندی‘‘ جس کا تعلق اسلام اور اس کے ماننے والوں سے ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی اہم ترین بات یہ ہے کہ بہ ظاہر پوری دنیا میں اسلام، اسلامی تہذیب اور اس کے پیروکاروں کے لیے حالات سخت اورچیلنج سے بھر پور معلوم ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تہذیب و ثقافت جو تہذیبی استعماریت کا منصوبہ رکھتی ہے دراصل شکست خوردگی کا احساس کررہی ہے۔ وہ جنگیں جو اگرچہ جمہوریت اور امن کے نام پر برپا کی گئیں،مگر حقیقت میں اسی استعماری اور معاشی استحصال کی منصوبہ بندی کا حصہ تھیں، جو یہ تہذیب لے کر اٹھی ہے، مگر وہ ناکامی کا منہ چاٹ رہی ہیں۔ معیشت ترقی کے بجائے زوال کا شکار ہے۔ تہذیب عروج کے بجائے نقد و جرح اور نفرت و ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی ہے اور سماج کا باشعور اور صاف ستھرا ذہن و فکر رکھنے والا طبقہ اب کھل کر اس کے گھناؤنے اور تباہ کن نتائج پر بحث کرنے لگا ہے۔
اس کیفیت کی خبر اگرچہ مشرق کے ان اقوام اور معاشروں میں ابھی تک نہیں پہنچی ہے، جو غلامانہ اور محکومانہ ذہنیت رکھتے اور مغربی آقاؤں کی اندھی تقلید کو اپنا ’’دین‘‘ سمجھتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ یہاں کے عوام و خواص ان حقائق سے نابلند ہیں اور وہ مغربی دنیا کی دیواروں پر لکھی تحریر کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی ہمارامعاشرہ اس تہذیب کی اتنی تباہ کاریاں دیکھنے سے محفوظ ہے، جتنی مغرب کا معاشرہ دیکھ چکا ہے اور دیکھ رہا ہے۔
مسلم سماج کے لیے اور اس کے مردو خواتین کے لیے یہ صورت حال قبل از وقت الارم کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے مرعوبیت و محکومیت کا پردہ اٹھا کر مشرق و مغرب کو خود اپنی باشعور آنکھوں سے دیکھیں۔ اگر وہ ’’مشرق کی بینائی‘‘ استعمال کرتے ہوئے اسے دیکھیں گے تو اس کے جسم لہو لہو میں کلبلاتے کیڑے نظر آئیں گے اور دیکھنے والی نظر ’’توبہ‘‘ کہہ کر ہٹ جائے گی۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے سماج اور معاشرے میں اس بات کا شعور پیدا کریں کہ دراصل مغرب کی یہ تہذیب جس کی شروعات لباس سے ہوتی ہے دراصل ایک ناکام اور غلیظ تہذیب ہے۔ جس نے خود اپنے سماج میںتعفن پیدا کردیا ہے اور وہ خود اس سے پناہ کا طالب ہے۔ جو تہذیب خود اپنے لوگوں کو کسی خیر سے ہم کنار نہ کرسکی وہ ہم اہلِ مشرق خصوصاً مسلمانوں کو کیا دے سکتی ہے سوائے نقصان کے۔ مگر اس پر غوروفکر کی ضرورت کم ہی لوگ محسوس کرتے ہیں۔ مگرجیسے جیسے وقت گزررہا ہے انسانوں پر اس تہذیب کے تباہ کن اثرات تیزی سے ظاہر ہورہے ہیں اور اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ لوگ اس سے بیزار ہورہے ہیں۔ سوائے ان معاشروں کے جن پر محکومیت و غلامی کا رنگ چڑھ گیا ہے اور کھلے حقائق کو بھی دیکھنے کی صلاحیت کھوبیٹھے ہیں۔
شمشاد حسین فلاحی