مغربی سماج کا بگاڑ

سید نصر اللہ ،کیرے بلچی

مغربی سماج میں اگر بگاڑ ہے تو مسلمانوں کے موجودہ سماج میں بھی بگاڑ ہے۔ اس لیے ایک کو درست اور دوسرے کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔ اپنی موجودہ صورت میں دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ البتہ ان دونوں کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔ مسلم سماج کا بگاڑ اسلام سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ جب کہ مغربی سماج کابگاڑ عین اس کے اپنے مرتب کردہ اصولوں پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان جو بگاڑ ہے وہ اصول اور عمل کے درمیان فرق ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ جب کہ مغربی سماج کا بگاڑ اصول اور حقیقت کے درمیان ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ جدید مغربی تہذیب نے معاشرتی زندگی کے بارے میں مذہبی اور خدائی اصولوں کے بالمقابل کچھ الگ اصولوں وضع کیے اور خدائی اصولوں کے مقابلے میں جدید اصول کی معقولیت کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ زمین کے قابلِ لحاظ حصہ پر مغربی اقوام کا سیاسی اور مادّی غلبہ قائم ہوگیا انہیں یہ حیثیت حاصل ہوگئی کہ وہ قدیم اصول کو رد کرکے جدید اصول حیات کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کی تشکیل کریں۔ مغربی اقوام کے غلبہ کے ساتھ ہی یہ عمل شروع ہوگیا۔ اب اس تجربہ پر سو سال سے زیادہ مدت گزرچکی ہے مگر عملی تجربہ ان اصولوں کی صحت و صداقت کو ثابت نہ کرسکا۔
مغربی تہذیب کے وضع کردہ جدید اصول حیات کا تجربہ صرف اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے جو نئے اصول وضع کیے تھے وہ فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اصول اور حقیقتِ واقعہ کا یہ ٹکراؤ بہت جلد ظاہر ہوگیا۔ مغربی زندگی میں شدید قسم کی ابتری پیدا ہوگئی جس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
مسلم سماج میں جو بگاڑ پایا جاتا ہے، اس کا حل یہ ہے کہ مسلم سماج کو سابقہ اسلامی اصولوں کی طرف لوٹایا جائے۔ مگر یہی بات مغرب کے بارے میں نہیں کی جاسکتی۔ مغرب کے سماج کو اگر پیچھے کی طرف لوٹایا جائے تو اس کا لوٹنا عین انہی اصولوں کی طرف ہوگا جن پر وہ آج بھی پوری طرح قائم ہے۔ جن لوگوں نے آزادانہ جنسی اختلاط کا نظریہ پیش کیا، جنھوں نے عورت کو ہر مردانہ شعبہ میں داخل کرنے پر اصرار کیا یا جنھوں نے یہ کہا کہ نکاح ایک غیر ضروری بندھن ہے، وہ آخر اپنے اصولوں کی طرف لوٹنا چاہیں تو کس چیز کی طرف لوٹیں گے؟ جس پر آج بھی وہ قائم ہیں۔
مغربی معاشرہ کے بگاڑ کا حل یہ ہے کہ وہ اپنے اختیا رکردہ اصول کو ترک کردے۔ اس اصولی بحث کی وضاحت کے لیے کچھ مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔ مغربی ممالک کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے اس رپورٹ کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ پچھلے ۳۵ سالوں میں مغربی ممالک میں خاتون کارکنوں کی تعداد بہت بڑھی ہے۔ اس وقت بچے پیدا کرنے کی عمر والی خواتین کی ۶۵ فیصد تعداد دفتروں میں کام کرتی ہے۔ ان میں سے ۹۰ فیصد عورتیں وہ ہیں جو کارکردگی کے دوران حاملہ پائی گئی ہیں۔ عورتوں کے لیے یہ ایک زبردست مسئلہ ہے۔ کام کا بھاری بوجھ اٹھانا اور اسی کے ساتھ بیک وقت بچوں کی ماں بننا اور ان کی پرورش و پرداخت کرنا ان خواتین کے لیے دوہری اور چیلنجنگ صورتِ حال ہے۔ امریکی کورٹ کا یہ فیصلہ ہے کہ خاتون کارکن اگر حاملہ ہوجائے تو جس ادارہ میں وہ کام کررہی ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس خاتون نوکر کو چار مہینے کی باضابطہ رخصت دے۔ دوسری طرف مرچنٹس اینڈ مینوفیکچررس ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک مہلک فیصلہ ہے۔ اگر کمپنیوں کو اس طرح حاملہ خواتین کو چار مہینے کی باضابطہ رخصت دینی پڑی تو وہ دیوالیہ ہوجائیں گی۔ اس لیے بہت سی کمپنیاں یہ نہ چاہیں گی کہ وہ بچہ پیدا کرنے کی عمر میں عورتوں کو اپنے یہاں ملازم رکھیں۔ ایک خاتون لیڈر نے کہا کہ عورت اور مرد کے درمیان برابری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے معیار پر پوری اتریں۔ یہ دلیل بھی عجیب ہے جب عورتیں اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے اتنی مختلف ہیں کہ وہ مردوں کے ’’ماڈل‘‘ کے مطابق نہیں بن سکتیں تو اس عجیب وغریب منفی برابری کی ضرورت کیا ہے؟ عورتوں کو مردوں کی طرح ہر جگہ کام کے لیے کھڑا کردیا جائے پھر جبری قوانین کے ذریعے اس مصنوعی برابری کو قائم رکھا جائے۔
جدید تہذیب نے یہ معیار پیش کیا تھا کہ مرد کو عورت کا کفیل نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ عورت خود کمائے اور خود اپنی سپورٹر بنے، مگر جب اس اصول کو عمل میں لایا گیا تو معلوم ہوا کہ عورت کفیل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس کے کفیل کا نام ’’شوہر‘‘ تھا اب اس کا نام ’’کمپنی‘‘ ہے۔
قدیم روایتی سماج جو مذہب کے زیرِ اثر تھا اس میں مرد بنیادی طور پر باہر کام کرتے تھے اور عورتیں گھر کا کام۔ آزادیٔ نسواں کی تحریک چلی تو عورتوں کو گھروں سے نکال کر دفتروں اور کارخانوں میں پہنچا دیا گیا مگر بہت جلد معلوم ہوا کہ اس نئے انتظام میں مختلف قسم کی سخت پریشانیاں بھی ہیں۔ مغربی دنیا کی کئی ممتاز خواتین اب مایوسی کا شکار ہیں اب یہ کہہ رہی ہیں ہم نے اپنی ماؤں کو اپنے ساتھ نہیں لیا، اب جب کہ ہم میں سے اکثر مائیں بن چکی ہیں اور ہمارے ساتھ لڑکیاں ہیں تو اب ہم مسائل کو کس قدر مختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید اب ہم اپنی ماؤں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ انسان کا بچہ تمام جانداروں کے بچوں سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ اس کی جسمانی پرورش اور ذہنی تربیت دونوں مقاصد کے حصول کے لیے لمبے عرصے تک اسے ماں اور باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے انسان کے اندر اپنے بچے کے لیے خصوصی کشش رکھی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے ازدواجی زندگی کی بنیاد ذمہ داری کے بجائے لذت پر قائم کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ازدواجی رشتہ کا تقدس اور اس کی قدر باقی نہ رہی۔ لوگ لذت کی خاطر ایک دوسرے سے ملتے اور لذت ختم ہونے پر ایک دوسرے سے الگ ہونے لگے۔ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہواکہ طلاق عام ہوگئی۔ طلاق کے بعد عورت ایک طرف چلی گئی اور مرد دوسری طرف۔ اس دوران میں جو بچہ پیدا ہوا تھا، اس کا کوئی سرپرست نہ رہا۔ وہ والدین کی موجودگی میں یتیم بن کر رہ گیا۔ یہ ان بے شمار نقصانات میں سے ایک ہے جو عورت کو اس نام نہاد ترقی کے سبب حاصل ہوئے۔ عورت اگر گھر کو سنبھالے تو وہ نئی نسل کو زندگی دینے والی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ گھر سے باہر نکل کر لوگوں کی ’تفریح‘ کا سامان بنے تو وہ نوجوان نسل کو ہلاکت سے دوچار کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146