صلیبی جنگوں نے 1911 سے 2008کے دوران ہولیوڈ کی پروڈکشن کمپنیوں اور فلم پروڈیوسرز کو اپنی جانب متوجہ کیے رکھا۔ اس دوران یعنی تقریباً ایک صدی کی مدت میں ہولیوڈ نے ایسی فلمیں بڑی تعداد میں بنائیں جن میں صلیبی جنگوں کو فلمایا گیا ہے۔
’میری میک کارتھی‘ (Mary McCarthy) نے ہیوسٹن یونیورسٹی میں پیش کردہ اپنے مقالہ برائے ماسٹرز ڈگری میں یہ واضح کیا ہے کہ امریکی فلم پروڈکشن کمپنیاں ایسی فلموں پر بڑی رقمیں خرچ کرتی ہیں، یہاں تک کہ ایک فلم کے اخراجات لاکھوں ڈالر تک پہنچتے ہیں۔ ان فلموں کے لیے ممتاز مہارت کے حاملین فلمی خاکے تحریر کرنے والوں، ڈائریکٹرز اور اداکاروں کے مخصوص کیڈرز ہوتے ہیں۔
مسیحیوں پر ظلم وستم
ان فلموں کا مطمحِ نظر مسلمانوں کو اس طرح پیش کرنا ہے گویا وہ مسیحیوں (عیسائیوں) کو غلام بنا کر رکھتےہیں یا انھیں قتل کر دیتے ہیں اور ان کی مذہبی کتابوں کو جلا ڈالتے ہیں۔ یہ فلمیں مسلمانوں کے خلاف جذبات کو برانگیختہ کرنے کی غرض سے چکاجوند کرنے والے اور فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچنے والے مختلف عناصر کا استعمال کرتی ہیں۔
صلیبی جنگوں پر مشتمل فلموں کا بنیادی پیغام یہی ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صلیبی افواج کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا وہ سخت جان مقدس افراد ہیں جو شر اور کفار کے خلاف برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ اس طرح صلیبی جنگوں پر مشتمل فلمیں ہولیوڈ کے اہم ترین ایجنڈے اور فلموں کے لیے ایسے موضوعات اور تاریخی شخصیات کا انتخاب کرتی ہیں جن سے ہولیوڈ کے اہداف کی تکمیل ہوتی ہو۔
یہ بھی پڑھیں!!
تاریخ کا غلط استعمال
صلیبی جنگوں پر مشتمل فلموں کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ مغرب کے استعماری اہداف کو پانے اور اسلامی ممالک پر امریکی جارحیت کو جائز ٹھہرانے کے لیے تاریخ کا کس طرح غلط استعمال ہوا ہے۔ عوامی ایجنڈے اور رائے عامہ کی تشکیل نیز عوام کے جذبات سے کھیلنے کی غرض سے ان فلموں کے اندر تاریخی واقعات و شخصیات کو نئے سرے سے جدید دور کے سیاق میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے۔
’کِنگ رچرڈ اینڈ کروسیڈرز‘
ایسی فلموں کے ایک نمونے کے طور پر ’’کِنگ رِچرڈ اینڈ دی کروسیڈرز‘‘ (King Richard and the Crusaders) کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ مغربی عوام پر اثرانداز ہونے اور سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے صلیبی جنگوں کا کس طرح استعمال کیا گیا ۔یہ فلم ۱۹۵۲ میں ڈیوِڈ بوٹلر نے بنائی تھی۔ ڈیوڈ بوٹلر اس بات کے لیے مشہور ہے کہ وہ موزوں وقت پر فلمیں پروڈیوس کرتا ہے۔ یعنی وہ سامنے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے فلم بناتا ہے اور بہ یک وقت تفریح کے پیچھے کارفرما اصل رموز کو مخفی رکھتا ہے۔ اس طرح وہ آسانی سے عوام کو متوجہ کرلیتا ہے اور ان کے جذبات پر اثرانداز ہو جاتا ہے۔ سنیما کی زبان اور وسائل کے استعمال میں عمدگی سے کام لیتا ہے۔
عربوں کی دقیانوسی تصویر
ڈیوڈ بوٹلر اونٹوں اور صحرا جیسی خصوصیات کی منظر کشی سے فلم کا آغاز کرتا ہے، جنھیں ہولیوڈ نے عربو ں کی تصویر بیان کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ جب کہ اس منظر کے بیک گراونڈ سے ایک آواز برآمد ہوتی ہے جو یہ اعلان کرتی ہے کہ ’’کنگ رچرڈ عربوں کے قبائلی سردار اور صحرائی جنگوں کے بادشاہ صلاح الدین کے ہاتھوں سے بیت المقدس کو واپس لینے کی قسم کھاتے ہیں۔‘‘
میری میک کارتھی ہولیوڈ فلم ’’کنگ رچرڈ ایند دی کروسیڈرز‘‘ (۱۹۵۲) اور حکومت اسرائیل کے قیام کے درمیان ایک ربط قائم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’حکومت اسرائیل کا قیام اور فلسطین پر غاصبانہ قبضہ صلیبی جنگوں کا ہی ایک تسلسل ہے۔ یہ بات صاف ہے کہ اسرائیل نے مغربی عوام کو اپنی تائیدو حمایت پر مجبور کرنے کے لیے اور صلیبیوں کی ہزیمت کا بدلہ لینے کی خاطر عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے کی غرض سے اس صنف کا استعمال کیا ہے ، اور اس لیے استعمال کیا ہے تاکہ اہلِ مغرب پر یہ لازم کر سکے کہ وہ عربوں کے خلاف حکومت اسرائیل کی مدد اور حمایت کریں۔‘‘
فلم،نہ کہ تاریخ کی تصویر
میری میک کارتھی کہتی ہیں کہ یہ فلم صلیبی جنگوں کی [اصل] حقیقت اور تاریخی واقعات سے میل نہیں کھاتی۔ رچرڈ، کونراڈ، صلاح الدین، بیرنجاریا جیسی شخصیات کی جو تصویر کشی کی گئی ہے ، اس کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے یہ فلم تاریخی معلومات کا ماخذ نہیں بن سکتی اور نہ یہ فلم صلیبی جنگوں سے متعلق حقیقی معلومات فراہم کرتی ہے۔
ایک اہم واقعہ جسے فلم کے اندر فلمایا گیا ہے وہ صلاح الدین ایوبی اور ایک صلیبی شہزادی کےد رمیان محبت کی کہانی ہے۔ اس کہانی کو پیش کرنے کا مقصد عربوں سے یہ مطالبہ کرنا ہے کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیں اور اس کے ساتھ سلامتی کے ساتھ رہنا قبول کر لیں، دوسری طرف صلاح الدین کی کردار کُشی کرنا بھی اس کا مقصد ہے۔ دراصل صلیبی جنگوں پر مشتمل فلموں کا جائزہ موجودہ حالات و واقعات ، جن مراحل کے تحت فلم بن رہی ہے، ان کے تقاضوں اور ان سیاسی و ثقافتی اہداف و مقاصد کی روشنی میں لیا جانا چاہیے ، جن مقاصد و اہداف کو پانے کے لیے یہ فلم کام کر رہی ہے۔
صلیبی جنگوں پر مشتمل فلمیں ماضی کو پیش نہیں کرتی ہیں، بل کہ تصویری اور لفظی جنگوں میں اپنا کردار پیش کرتی اور رائے عامہ کی تشکیل میں مددگار ہوتی ہیں۔ عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے میں کارآمد ہوتی ہیں اور عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں اپنا حصہ ادا کرتی ہیں۔ میری میک کارتھی کہتی ہیں: ’’یہ فلم جو کہ عوام پر اثرانداز ہونے کے لیے اور سیاسی اہداف کی تکمیل کے لیے تاریخ کے استعمال کے سلسلے میں ایک نمونہ پیش کرتی ہے ، اس میں صلیبی جنگوں سے متعلق کوئی دقیق معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔۔۔۔ یہ تو تاریخ کو غلط انداز سے پیش کرنا ہے۔‘‘
جہاں تک فلم ’’کِنگ ڈم آف ہیون‘‘ (Kingdome of heaven) جو 2005 میں بنی، کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا تازہ نمونہ ہے جو سیاسی اہداف کے لیے تاریخ کے غلط استعمال کے عمل کو واضح کرتی ہے۔اسی طرح یہ بھی واضح کرتی ہے کہ فلم کی کہانی تشکیل دینے کے لیے تاریخی حقائق کا التزام نہیں کیا گیا ہے۔ [تاریخی] واقعات کی تشریح کے لیے ان جدید تصورات کی مدد لی گئی ہے جن کا اُس زمانے میں وجود ہی نہیں تھا۔
’’کنگڈم آف ہیوَن‘‘ تاریخ کا نیا ورژن
فلم کنگڈم آف ہیون نے اکیسویں صدی کے افکار کو پیش کیا ہے اور ان افکار کی منظر کشی کے لیے فلم صلیبی جنگوں کے واقعات کا سہارا لیتی ہے۔ اس فلم کو بنانے کا کام ۱۱ ستمبر کے حادثے سے کچھ برس پہلے ہی شروع ہوا تھا ۔ فلم کے واقعات کو مغرب اور مشرق وسطیٰ کے مابین کش مکش کو فلمانے کے لیے کیا گیا ہے ۔ یہ فلم جہاں عوام کی تفریح کے لیے تھی، وہیں اس میں ایسے رموز استعمال کیے گئے تھے جو عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے والے اور ان کے رجحان و میلان کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے تھے۔ اس سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ پروڈیوسر کمپنیاں محض عوام کی تفریح کے لیے ہی فلمیں نہیں بناتی ہیں۔
میری میک کارتھی کہتی ہیں : ’’فلمیں جو ہیں وہ علمی مقاصد کے لیے نہیں بنائی جا رہی ہیں اور نہ تفریح کے لیے ہی بنائی جا رہی ہیں، بل کہ ان کے اندر تاریخ کی تشریح دلکش اور موثر انداز میں کی گئی ہے اور اسے اسی انداز میں پیش بھی کیا گیا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ پروڈیوسر کمپنیاں گہرائی تک جانے کے چکر میں نہیں پڑتی ہیں اور نہ تاریخی واقعات کو امانت داری کے ساتھ پیش کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔
’’کنگڈم آف ہیون‘‘ عوام کے سامنے حقائق اور افسانوں کا ایک پلندہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد سیاسی اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ یہ فلم ایک نئی قسم کی تاریخ پیش کرتی ہے یا بہ قول روزنسٹن(Rosenstein) افسانے کے اندر تاریخ کو پیش کرتی ہے۔
صلیبی جنگوں پر مشتمل یہ فلمیں عوامی جذابات مشتعل کرنے کے لیے سنیمائی اسلوب اختیار کرتی ہیں اور ان کے رجحانات کی تشکیل کرنے کے لیے رموز و علامات کا سہارا لیتی ہیں۔ پھر ان جذبات و رجحانات کو اس طرح استعمال کرتی ہیں کہ موجودہ زمانے کی تہذیبی کش مکش ان کے اپنے میں کنٹرول میں رہے اور مغرب کے ثقافتی اہداف کو حاصل کیا جاسکے، علاوہ ازیں عربوں سے صلیبیوں کی ہزیمت کے انتقام کے طور پر اسرائیل کے لیے مغربی عوام کی حمایت میں بھی اضافہ ہو جائے۔
حقِ معلومات کی بے حرمتی
لیکن کیا یہ صورت حال عوام کے حقِ معلومات کی بے حرمتی ہے؟ روزنسٹن کہتا ہے: ’’اقوام کو یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے اسلاف کہاں سے آئے، انھوں نے کیا کیا اور ان کی کیاداستان ہے۔ آج کے دور میں سنیما ایک ایسا وسیلہ بن گیا ہے جس کے ذریعے داستان پیش کی جاتی ہے اور عوام کو دنیا سے متعارف کرایا جاتا ہے ، اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس نے کیسے ترقی کی، لیکن سنیما [اس کے بجائے] تاریخی واقعات کو رائٹرزاور ڈائریکٹر کے نقطۂ نظر سے پیش کر رہا ہے تاکہ سنیما پروڈکشن کمپنیوں کے اہداف کو ان کے ایجنڈے کے مطابق حاصل کیا جا سکے۔‘‘
یہ بات تو طے ہے کہ ہولیووڈ کا ایجنڈا امریکی اور مغربی خفیہ ایجنسیاں متعین کرتی ہیں۔ ہولیوڈ عرب اور مسلمانوں کی تصویر بنانے میں مستشرقین کے سرمایے کا سہارا لیتا ہے۔ پھر یہ ایجنسیاں صلیبی جنگوں پر مشتمل فلموں کو تہذیبی کش مکش کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
الگ الگ معیارات
محققین اور اسکالرز تاریخی واقعات کے جائزے و مطالعے اور ان کی تشریح و وضاحت کے لیے جن معیارات کو برتتی ہیں وہ ان معیارات سے مختلف ہوتے ہیں جنھیں سنیما پروڈکشن کمپنیاں اپنے استعمال میں لاتی ہیں۔
مغرب میں بنائی جانے والی صلیبی جنگوں پر مشتمل فلموں کا مقصد عوام کو علم و معرفت کی فراہمی اور حقائق کی پابندی کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ان تاریخی واقعات کے سلسلے میں نیا نظریہ پیش کرتی ہیں جن کا مقصد عوام کے رجحانات سے کھلواڑ ہوتا ہے۔
لیکن یہاں ایک نیا سوال پیدا ہو سکتا ہے جو ممکن ہے بین الاقوامی تعلقات کے مستقبل کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کرے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا عوام الناس کے لیے یا اسکول اور یونیورسٹیوں میں تدریس کی غرض سے تیار کی جانے والی کتبِ تاریخ صلیبی جنگوں کے سلسلے میں تاریخی حقائق کاالتزام کرتی ہیں یا وہاں بھی معاملہ سنیما کی ان فلموں سے زیادہ مختلف نہیں ہےجو سیاسی اہداف یا تہذیبی کش مکش کو کنٹرول کرنے کی غرض سے بنائی جاتی ہیں؟
یقینی بات یہ ہے کہ مغرب صلیبی جنگوں سے متعلق بہت سے تاریخی حقائق، مثال کےطور پر القدس میں صلیبیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کو پردۂ خفا میں رکھتا ہے۔ایسا ہے تو یہ مسئلہ سنیما کمپنیوں کو مجرم قرار دینے اور ان پر عوام کو گم راہ کرنے اور ان کے رجحانات و میلانات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تہمت لگانے سے زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے کہ تاریخ کے محققین اور علما بھی حقائق کو چھپانے اور مغربی نقطۂ نظر کی طرف جھکاؤ رکھنے کے لیے ذمے دار ہیں۔ ان کی یہ حرکت اس سے مختلف نہیں ہے جو سنیما کمپنیوں نے کی ہے۔
صلیبی جنگوں کی معلومات کے سلسلے میں عوام کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ تاریخ انسانی کا ایک اہم تجربہ ہے۔ ادباء اور ماہرین تاریخ و محققین نے سنیما پروڈکشن کمپنیوں کے ساتھ مل کر عوام کو گم راہ کرنے، اقوام کی دقیانوسی تصویر بنانے اور نفرت و دشمنی کو ابھارنے میں حصہ میں لیا ہے۔
تاہم سنیما ایک انتہائی موثر وسیلہ ہے۔ ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے مغربی عوام تاریخ کا علم حاصل کر رہے ہیں۔