مغربی طرز کے معاشروں کی ایک جھلک

مستفیض احمد علوی

تحرک اور مصروف زندگی کی رفتارکار اور سرعت نے بچوں کو والدین کی توجہ اور محبت سے محروم کررکھا ہے۔ اکثر امریکی خاندان یہ سوچ رہے ہیں کہ جس طرح اپنے خواستگار ’’کلائنٹس‘‘ کے لیے روزانہ کے کلینڈر میں جگہ رکھی جاتی ہے، اسی طرح وقت اور توجہ کے خواہاں اپنے لخت جگر کے لیے بھی وقت کا کوٹہ مخصوص کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟… بچے انفرادی زندگی میں والدین کا سہارا ہیں اور اجتماعی زندگی میں آنے والی فصل بہار! کیا ذرائع ابلاغ کو انسانیت کے اس مستقبل کی تعمیر کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا؟
٭٭
بچے انسانیت کا مستقبل ہیں۔ یہ انفرادی زندگی میں والدین کا سہارا ہیں اور اجتماعی زندگی میں آنے والی فصل بہار! سہانے مستقبل اور مفید سہارے سے غفلت اور لاپرواہی کوئی عاقبت نا اندیش ہی کرے گا۔ اپنے بچوں سے محبت، ان کی پرورش، نشوونما اور تعمیر تو حیوان اور مویشی بھی کرتے ہیں جبکہ اعلیٰ و اشرف مخلوق جسے شعور و فہم اور عقل و دانش سے بھی نوازا گیا ہے، اس ذمہ داری سے دامن چرار ہی ہے۔
جدید ذرائع ابلاغ نے جہاں ماضی کی سنہری اقدار کے خزانوں پر عدم اعتماد کی تحریک کو زور دیا ہے، وہاں آنے والے دنوں کی انسانیت کو تہذیب کے برزخ میں لاکھڑا کیا ہے۔ جہاں لا یموت فیہا ولا یحییٰ (جس میں وہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں) کی کیفیت نظر آرہی ہے۔معلومات کے سیلاب نے ایک طرف تو ہمیں تجسس، تلاش اور جستجو کے ذوقِ لطیف سے محروم کردیا ہے اور دوسری طرف ہماری توجہ اور یکسوئی کی صلاحیت کو برباد کرکے، ذہنی انتشار کے بھنور میں الجھا دیا ہے۔ یہا ںتک کہ انسان اپنے بچوں کی تعمیر و تربیت جیسی فطری ذمہ داری سے روگردانی کرنے لگا ہے۔
یہ حقیقت تو اب سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ لوگوں میں ہوس و حرص کی عمومی فضا پیدا کرنے اور خواہشات و مفادات کا مقابلہ و مسابقت کا ماحول جنم دینے میں ذرائع ابلاغ کے منفی استعمال کا دخل ہے۔ اسی طرح آئے دن شائع ہونے والی سروے رپورٹوں اور حقائق و شواہد پر مبنی تجزیوں نے واضح کیا ہے کہ نوجوانوں اور بچوں میں (لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں) منشیات کا استعمال، جنسی آوارگی و غلط کاری، اخلاق باختگی و بے حیائی اور مقدس رشتوں کی پامالی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی سب سے بڑی وجہ ٹی وی، سینما، فلم اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے آلات ہیں یا ان کامنفی استعمال ہے جو انسانیت دشمنی پر مبنی ہے۔
خاندانوں کی روایات واقدار ایک طرف خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جن کی بنیاد مذکورہ بالا تہذیبی و ثقافتی المیے ہیں۔ تاہم نئی طرزِ معاشرت کے ساتھ معاشی تنگی، اقتصادی دباؤ، معاشی خود انحصاری کے ملے جلے اثرات نے بھی والدین سے بچوں کی طرف مثبت اور تعمیری اقدار کی منتقلی کو ناممکن بنادیا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر صورتِ حال اب یہاں تک جاپہنچی ہے کہ مصروف زندگی کی رواروی میں والدین کے پاس اپنے بچوں کے لیے اتنا وقت نہیں کہ وہ ان کی تعمیر و تربیت میں شامل ہوں یا انھیں محبت اور تربیت کے چند لمحے ہی عطا کرسکیں۔
بچے اپنے والدین کی طرف سے بہت سی توجہ کے خواہاں ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے بہت سا وقت درکار ہوتا ہے جبکہ بعض والدین کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ بچے ہمارے ٹائم ٹیبل کے پابند ہیں، اسے وہ قبول کرلیں گے یوں نہیں ہوسکتا کہ آپ کچھ لمحے نکال کر ان سے ہنسی مذاق کرلیں اور کہیں کہ اچھا بھئی اب آدھا گھنٹہ ہم نے اکٹھے گزارلیا اب آپ اپنا کام کریں اور میں اپنا کام کروں گا۔
امریکی ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق آج سے تیس سال پہلے مائیں کام میں متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی پیار و محبت کی سرگرمیوں کے لیے بہت سا وقت دیا کرتی تھیں۔ یہ بچوں کی ذہنی نشوونما اور سماجی تربیت کے لیے بہت مفید تھا۔ ماں کی قربت سے محروم بچوں کو یہ نعمت میسر نہیں تھی اور اس وجہ سے وہ کارکردگی کے لحاظ سے اول الذکر بچوں سے پیچھے ہوتے تھے۔ اس معیار کے حصول کے لیے بہت سا ’’خالص وقت‘‘ Pure Time درکار ہے تاکہ پورے ہفتے میں ’’اچھے وقت‘‘ کے دس منٹ … افراد خانہ صرف کھانا کھانے کے لیے ایک کمرے میں ایک میز پر جمع ہوں اور اس دوران بھی ساتھ ہی ٹی وی چل رہا ہو تو کیا اکٹھا ہونے اور باہم محبت و الفت کے تبادلے کا یہ مختصر وقت صحیح صر ف ہورہا ہے؟ یقینا نہیں۔ تاہم اس سے والدین یہ کہہ کر خوش ہوسکتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ Quality Time بیت رہا ہے! ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں کے معمولات، گھریلو عادتیں، رسوم و رواج، مستقل مزاجی، والدین سے قربت اور یہ احساس کہ والدین ان کا خیال رکھنے میں کتنے مگن ہیں… یہ سب کچھ زیادہ وقت اور رفاقت سے ہی میسر آسکتا ہے۔
یہ کیا کہ ماں تو سہ پہر تک اپنی ڈیوٹی پر ہیں، پھر اس کے بعد انھیں باورچی خانے کا سامان لینے جانا ہے، کسی کو لینے اور کسی کو ڈراپ کرنے جانا ہے، پھر ان کی ذاتی زندگی کے شایان شان کچھ سرگرمیاں ہیں۔ اسی طرح والد گرامی مصروف کار ہیں تو بچوں کے لیے وقت کہاں سے نکلے گا؟ بچوں کی رفاقت اور بعض اوقات ان کی نگرانی کے کئی معاملات بہت اہم ہیں۔ ان کی تعلیم (ہوم ورک) ان کی دوستیاں اور فارغ اوقات میں ان کی مصروفیات وغیرہ۔ اگر یہ نہیں ہوپاتیں تو سنِ بلوغت میں وہ جنسی سرگرمیوں اور منشیات کی لعنت کا شکار ہوسکتے ہیں۔
والدین شام کو آتے ہی سیدھا فون اور فیکس کے ذریعے گھر سے باہر رابطے شروع کردیتے ہیں اور بچے اسی طرح منہ بسورتے رہ جاتے ہیں۔ یہ حرکت کئی نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس سے بچے احساس محرومی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں وہ اپنے آپ کو فالتو اور بے قیمت سمجھنا شروع کردیتے ہیں جس سے ان میں اعتماد اور جرأت کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ عزت نفس کے احساس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں جو انھیں والدین کے خیال رکھنے اور محبت و اہمیت دینے سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ایسے بچے معاشرے کو کیا تحائف دے سکتے ہیں؟
امریکہ کی ایک ماہر نفسیات Hochs Childنے اپنی کتاب The Time Bind میں تجزیہ کیا ہے کہ ملازمت پیشہ مرد و خواتین کو بے شمار گھریلو مسائل کا سامنا ہے۔ کام کے طویل اوقات اور مختصر رخصت نے صورتحال کو گمبھیرکیا ہوا ہے۔ یہ خطرناک رجحان پختہ ہورہا ہے کہ گھر سے دفتر کا ماحول بہتر ہے جہاں ذہنی تناؤ کم اور سماجی سرگرمیاں یا دوسروں سے میل ملاپ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مکینوں کی دلچسپی کے اعتبار سے دفاتر گھروں میں تبدیل ہورہے ہیں اور گھروں میں دفاتر کا ماحول درآیا ہے، جو قدرے آزادی اور ہلکی پھلکی ذمہ داری سے مزین ہے۔
کچھ ماہرین کے مشاہدات اور نتائج کے اعتبار سے یہ مسئلہ صرف ایک خاص طبقے کا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے گھریلو ماحول کو مکینکل سرگرمیوں کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ ان کے لیے جذباتی مرکز ان کے گھر ہی ہیں اور بچوں اور گھر کے ماحول کے ساتھ وہ خوشگوار انداز میںزندگی بسر کر رہے ہیں۔بہرحال ان لوگوں میں عموماً گھریلو خواتین ملازم پیشہ خواتین سے دوگنا وقت بچوں کے لیے صرف کرتی ہیں۔
خواتین کی طرف سے بچوں کو کم وقت دینے پر جو اعتراض کیا جاتا ہے اس کو دراصل ان کے ملازمت پیشہ ہونے پر براہِ راست اعتراض کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ quality timeوالے خیال کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ خواتین بھی معاشی آزادی اور خود انحصاری چاہتی ہیں کیونکہ مغربی معاشروں میں ٹوٹتے بکھرتے بندھنوں کی پیش بندی اور انفرادی آزادیوں کے تحفظ کی خاطر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ خواتین بھی اسی وجہ سے کام کرتی ہیں جس وجہ سے مرد کرتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ملازمت پیشہ خواتین صحت مند، خوش اور اہم ہیں بہ نسبت ان کے جو صرف گھر بنانے والی ہیں۔ لہٰذا ایک نقطہ نظر یہ پایا جاتا ہے کہ عورتوں کو اس لیے کام چھڑوا دینا کہ وہ گھر کی خدمت کریں اور بچوں کی نگہداشت کریں، بہتر نتائج پیدا نہیں کرے گا۔ گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی پرورش صرف والدہ کے ذمے ہی کیوں؟ آخر مرد کس مرض کا علاج ہیں۔ جب معیشت کا بندوبست دونوں مل کر کررہے ہیں تو گھریلو ذمہ داریاں بھی دونوں ادا کریں! پھر باپ ویسے بھی بچوں کی بہتر نگہداشت کرتے پائے گئے ہیں۔ باپ کے ہاتھوں میں پلے بچے اپنی سماجی تربیت کے لحاظ سے بہتر ثابت ہوتے ہیں، جبکہ سروے بتاتے ہیں کہ باپ گھر میں ماؤں کی نسبت ایک تہائی کم وقت دیتے ہیں۔ دراصل وہ اپنی ذمہ داری سے آنکھیں چراتے ہیں اور اس کا اظہار بھی نہیں کرتے کہ بچوں کی نگہداشت کا کام گلے پڑسکتا ہے۔ لہٰذا عجیب و غریب بہانوں سے اپنے آپ کو اور دوسروں کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی فریب دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ عملاً وہ بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز کے حوالے کرجاتے ہیں یا دفتر سے کام چوری کرتے ہوئے وقت سے پہلے نکل جاتے ہیں اور ماں کے واپس آنے تک بچوں کو بہلانے کی ذمہ داری نباہتے ہیں۔
اس معاملے میں معاشی تگ و دو کا معاملہ بھی بہت اہم ہے جو والدین کو زیادہ وقت کام کرنے پر مجبور کرتا ہے البتہ اچھی تنخواہوں والے لوگ آرام میں ہوتے ہیں۔ تاہم کچھ اداروں نے اب ’’خاندان دوستی‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ملازمین کے لیے کچھ نئی سہولتیں شروع کررکھی ہیں، جس سے وہ اپنے گھر بار کی خبرگیری دفتری اوقات میں بھی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اب Quantity Timeگھر کے لیے اور Quality Timeدفتر کے لیے ہوگا۔ مگر موجودہ معاشی سیٹ اپ میں اس کا بھی زیادہ فائدہ اس لیے نظر نہیں آتا کہ دفاتر میں کام کا وقت معاوضے کی شرح کے ساتھ وابستہ ہے۔ زیادہ وقت دینے سے اور زیادہ کام کرنے سے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔ لہٰذا اوقات کار میں کمی سے معاشی تنگی بھی درآسکتی ہے۔ اب پیسے کمائیں یا بچے پالیں؟ والدین بے چارے تو وقت کی قید میں آب و دانہ کی خاطر آگئے ہیں!
معاملے کے حل کی واحد صورت یہ نظر آتی ہے کہ اخراجات، سہولیات اور ضروریات کم کرلی جائیں تاکہ کم وقت میں کمائے ہوئے کم پیسوں میں گزارہ ہوسکے۔ خواہشات کے میدانِ کارزار میں یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ …قناعت، صبر اور توکل … انسان کی قسمت سے نکل چکے ہیں۔ جاپانی عورتوں نے اس سارے مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ بچوں کے بغیر زندگی گزاری جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ لہٰذا ان کی زندگی آزادی سے معمور ہے۔ دن کسی بینک یا ادارے میں کام کرتے، ٹینس کھیلتے اور ریستورانوں میں … یوں مستقبل کا قتل خوش اسلوبی سے ہورہا ہے؟
بچوں کے قومی دن منائے جانے کے موقع پر حال ہی میں جاپانی حکومت نے عوام کو بتایا کہ ملک میں بوڑھوں کی تعداد زیادہ اور بچوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اس خطرناک اور تشویشناک رجحان نے جاپان کو بوڑھا کردیا ہے۔ ۶۵ ملین لیبر فورس کم ہوکر ۹ ملین رہ گئی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جاپان کی ایک چوتھائی آبادی عمر کے لحاظ سے ستروں بہتروں میں ہوگی۔ اس وجہ سے آئندہ نصف صدی میں پیداواری صلاحیت میں اضافے کی بجائے واضح کمی واقع ہوجائے گی۔ ۱۰ سے ۱۵ سال کی عمر کے نوجوان تیرہ فیصد، ۱۵ سے ۶۵ سال کی عمر کے لوگ ۵۴ فیصد اور ۶۵ سال سے زائد عمر کے بزرگ ۳۲ فیصد نظر آئیں گے لہٰذا بیرونی ممالک سے لیبر فورس منگوانا پڑے گی جس سے باہر کی دنیا سے اندرونِ ملک مہاجرت کا ایک نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا کہ جس سے جاپان کا مستقبل غیروں کے پاؤں میں روندے جانے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
گھر کے محاذ پر جاپان میں مرد و عورت کی مخاصمانہ چشمک نظر آتی ہے۔ عورتوں کی کل آبادی کا نصف (جن کی عمریں ۲۵ سے ۳۰ سال کے درمیان ہیں) تنہائی کی زندگی گزار رہی ہیں، جبکہ کل مردوں کا ۶۶ فیصد ’’جو انہی کے ہم عمر ہیں‘‘ شادی نہیں کرپائے۔ نوجوان تعلیم یافتہ خواتین کی شرح میں اضافے کا ایک ’’فائدہ‘‘ یہ ہوا ہے کہ ان کے پاس معاشی تگ و دو کے مواقع میسر ہیں، لہٰذا بطورِ معاشی سرپرست کے انھیں خاوند درکار نہیں ہیں۔ خاوند رکھنے کے لوازمات اور تقاضے بچوں کی شکل میں کئی ایک مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔ اس کا ’’نقصان‘‘ یہ ہوا ہے کہ مرد گھر میں کام چوری سے کام لیتے ہیں اور یورپ کے مردوں کی طرح گھریلو کاموں میں خواتین کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ ایک سروے کے مطابق کارکن خواتین اگر گھر میں روزانہ سوا دو گھنٹے دے پاتی ہیں تو اس کے مقابلے میں مرد چھ منٹ رو زانہ سے زیادہ نہیں دیتے۔ البتہ اب رویے تبدیل ہونا شروع ہوئے ہیں اور نوجوان مردوں میں گھر کی اہمیت اور بچوں کی نگہداشت کا جذبہ پروان چڑھنا شروع ہوا ہے جس کا ثبوت ان لوگوں کی طرف سے ’’بچوں کی نگہداشت کلاس‘‘ میں حاضر ہونا اور دلچسپی لینا ہے۔ تاہم دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح جاپان میں بھی شادی کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔ اگر شادی کربھی لی جائے تو خواتین کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ مرد اصولی طور پر تو مرد و عورت کی مساوات کے قائل ہوتے ہیں مگر عملاً اس کے برعکس رویہ رکھتے ہیں لہٰذا عورتیں شادی کرنے اور مائیں بننے سے کتراتی ہیں۔
غریب ممالک میں دولت اور وسائل کا قحط ہے مگر زیادہ آبادی وبال جان بنتی جارہی ہے، جبکہ دولت اور وسائل سے لدے پھندے ملکوں میں ماؤں کی گودیں ویران ہیں اور دولت سنبھالنے والا کوئی جنم ہی نہیں لے رہا ؟ ماؤں کی گود سے قوموں کے مستقبل منور ہوتے ہیں مگر اس عدم دلچسپی کا علاج کیا ہو کہ کوئی عورت ماں بننے کو تیار ہی نہیں! اب جاپان میں قومی اور انفرادی سطح پر بچت کرنے کا رجحان بھی بہت کم ہورہا ہے۔ بچے نہیں ہیں تو بچائیں کس کے لیے؟؟؟
یہ فطرت سے بغاوت کا منطقی نتیجہ ہے جس نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے اپنی نسل نو کی گردن مارنے پر تیار کردیا ہے۔ تاریخِ انسانی کا جدید ترین اور مکمل ترین مذہب اسلام اولاد انسانی کو انسان کے لیے نعمت عظمیٰ قرار دیتا ہے، اس کی طلب اور محبت کو انسانیت کا جزو قرار دیتا ہے۔
والدین کے لیے اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کی دعائیں سکھاتا ہے۔ بچوں کو والدین کے ساتھ محبت اور احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ مرد و عورت کے حقوق و فرائض کا تعین کرکے انسانیت کے مستقبل کی تعمیر کی سنہری بنیاد فراہم کرتا ہے۔ (القرآن) اور والدین کی طرف سے اچھی تعلیم و تربیت کو بچوں کے لیے بہترین تحفہ قرار دیتا ہے۔ (حدیث رسولﷺ) … آج انسان اپنے حقوق کے لیے سرگرداں ہے تو فرائض سے روگردانی کیوں کرتا ہے؟
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بے باک بجلیوں سے خطرہ میں ہے اس کا آشیانہ!
——

 

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں