ایک بار حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوال فرمایا: اتـدرون مــا المفلس؟ (کیا آپ جانتے ہیں کہ مفلس کون ہے؟)
قالوا: المفلس فینا من لادرھم لہ ولامتاع۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہم اسے مفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور کوئی مال نہ رہے)۔
اس پر رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان المفلس من امتی من یاتی یوم القیام بصلاۃ و صیام و زکٰوۃ۔ (میری امت کا مفلس وہ ہو گا جو ڈھیر ساری نمازیں، روزے اور زکوۃٰ کے اعمال لے کر اللہ کے ہاں پیش ہو گا۔)
ویاتی وقدشتم ھذا، وقذف ھذا، و اکل مال ھذا، وسفک دم ھذا و ضرب ھذا۔ (مگر وہ اس حال میںآئے گا کہ کسی کو اس نے دنیا میں گالی دی ہو گی، کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو گا، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا پیٹا ہو گا۔
تو پھر کسی کو اس کی نیکیوں میں سے بدلہ دیا جائے گا اور کسی کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔
اگر مظلوم حقداروں کے حق پورے ادا ہونے سے پہلے، ظالم کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی، تو مظلوموں کے گناہ، ظالم پر ڈال دیے جائیں گے اور بالآخر ظالم (بظاہر نیکوکار) کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (مسلم)
اس حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انتہائی خوف لاحق ہوتا ہے کہ دنیا میں کیے ہوئے بہت سارے نیک اعمال خطرے میں پڑ سکتے ہیں اورآدمی جنت کی امیدوں پر عمل کر کے خدانخواستہ جہنم رسید ہو سکتا ہے۔ لہٰذا حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں کو ساتھ ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ صرف حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی نجات نہیں پائے گا اور صرف حقوق العباد کا لحاظ کرنے والے کو بھی فلاح اخروی نہیں مل پائے گی۔ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔
آج مسلم امت کے یہ دو واضح گروہ نظر نہیںآتے ہیں۔ الاماشاء اللہ۔ ایک اپنی عبادات پر مغرور اور دوسرا ترک عبادات کر کے صرف حقوق انسانی کی بات کرنے والا۔ دین اسلام کا دیگر تمام مذاہب عالم سے یہی طرۂ امتیاز تو ہے کہ یہ دین بندوں کو دنیا اورآخرت یعنی دونوں جہانوں کی بھلائیاں نصیب کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے وہی جواب دیا جو معاشرے میں معروف تھا کہ مفلس وہ ہے جو متاع دنیوی سے محروم ہو۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرماتے ہوئے بتایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز متاعِ عمل اور نیکیوں کا خزانہ لیے ہوئے کنگال ہو گیا اور وہاں لٹ گیا۔ اس کے پلے کچھ نہ رہا، جبکہ لے کے بہت کچھ گیا تھا۔ ایسے دیوا لیے ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ قسمت کا پھیر مالداروں کے پانسے پلٹ دیتا ہے۔
جو دنیاوی معاشرے میں سرمائے کے زور پر محترم ہوا، کبھی سب کچھ گنوا کر بے وقار ہوا۔
دنیا میں دیوالیہ ہونے والا ممکن ہے، پھر کبھی سنبھل جائے، کیونکہ دولتِ دنیا ڈھلتی چھائوں ہے۔آج کسی کے پاس، کل کسی اور کے پاس۔ لیکن آخرت کا دیوالیہ ممکن نہیں کہ سنبھلنے کا موقع پا سکے۔ حضورؐ نے عبادات میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ کا ذکر فرمایا جو فرائض شریعت ہیں۔ حشر میں خاص طور پر حقوق انسانی میں گالم گلوچ، بہتان تراشی، ڈاکا، چوری، قتل ناحق اور مار پیٹ جیسے جرائم کا ذکر فرمایا۔ یہ جرائم کیسے، عبادات کو کھا جائیں گے؟ وہ یوں کہ اس نیک نے خدا کا خیال رکھا، مگر خلق خدا کا خیال رکھنا گوارا نہیں کیا۔
نیکیوں کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے۔ کبھی عبادت کو ریا کاری بھسم کرتی اور کبھی غیبت اسے ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ خلق خدا کو ایذا رسانی دینے سے عبادات پر پانی پھر جاتا ہے۔ حشر میں اعمال کے علاوہ مال تو پلے ہو گا نہیں کہ رشوت دے کر چھوٹ سکیں۔ وہاں عدالت خداوندی میں ذرے ذرے کا حساب عدل کی بنیاد پر چکایا جائے گا۔ نواب صدیق حسنؒ فرماتے ہیں: دنیا وی مفلس کا افلاس مرنے پر ختم ہو جاتا ہے۔ مگر حشر کے میدان میں مفلسی الھلاک التام (پوری بربادی) ہے، وہاں اسے کوئی موقع نہیں ملے گا۔(ماخوذ)