مقصدِ آمدِ رسولﷺ

فرزانہ خالد

سورئہ بقرہ کی ابتدا ہی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان لانے کا بیان ان الفاظ پر ختم ہوا ہے:
اولئک علی ہدی من ربہم و اولئک ہم المفلحون۔
’’یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پائیں گے۔‘‘
اس آیت میں سب سے بڑی بات جس پر غور کرنا چاہیے، وہ ’ہدی من ربہم‘ کے الفاظ میں ہے، یعنی رب کی ہدایت۔ سب الہامی مذاہب کی تاریخ اس اعتبار سے یکساں ہے کہ وہ ’’اپنے رب کی ہدایت‘‘ سے شروع ہوتے رہے اور پھر اپنے ماننے والوں کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے فتوؤں کی نذر ہوکر ’’اپنے رب کی ہدایت‘‘ ہونے کے اعزاز سے محروم ہوجاتے رہے ہیں۔ یہودیت پر ہم سے پہلے قرآن کا یہی تبصرہ ہے:
یکتبون الکتاب بایدیہم ثم یقولون: ہذا من عند اللّٰہ۔ (البقرۃ: ۷۹)
’’فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور پھر کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
ہماری امت نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ چنانچہ آج ساری امت اپنی اپنی لکھی اور اکٹھی کی ہوئی باتوں میں مگن ہے۔ اور اپنے ہاتھوں سے کیے ہوئے اس کام کو اللہ کا دین سمجھتے ہیں۔ اگر قرآن آج نازل ہوتا تو شاید اس کا ہم پر بھی تبصرہ یہی ہوتا کہ :
یکتبون الکتاب بایدیہم ثم یقولون: ہذا من عنداللّٰہ۔
’’فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور پھر کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
اس ’’اپنے لکھے ہوئے دین‘‘ سے محبت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اصلاحِ امت کے لیے قرآن اور سنتِ ثابتہ پر مبنی کوئی بات بلند ہوتی ہے تو وہ صرف اس وجہ سے رد کردی جاتی ہے کہ یہ ان کے مسلک (ہاتھ سے لکھے ہوئے دین) کے خلاف ہے۔ حالانکہ وہ ’ہدی من ربہم‘ ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم اپنی اس روش کی وجہ سے ’اولئک علی ہدی من ربہم‘ کے اعزاز سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ صحابہ نے یہ اعزاز حاصل ہی اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ سب گروہی، نسلی اور مذہبی تعصب سے بلند ہوکر اس دین پر ایمان لائے تھے، جو محمد عربی ﷺ لے کر آئے۔ انھوں نے متعصب لوگوں کے برعکس یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو جس دین پر پایا ہے، بس اسی کو تسلیم کریں گے۔ صحابہ نے جس حق کو خدا کا دین سمجھا، اسے قبول کرلیا۔
صحابہ اسی وجہ سے اس اعزاز کے مستحق ٹھہرے کہ ’’وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں۔‘‘ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اس عمل کی روشنی میں اگر ہم کو بھی یہ اعزاز حاصل کرنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ قرآن اور سنتِ ثابتہ کی طرف ہر طرف کو لوٹ جائیں کہ یہ ’’ہمارے رب کی ہدایت‘‘ ہے۔ دیکھئے اسی رویے کے ساتھ آخرت کی کامیابی کی نوید بھی ہے کہ ’واولئک ہم المفلحون‘ اور یہی فلاح پائیں گے۔ اس کے برعکس اس وقت کے یہود نے اپنے گروہی اور نسلی تعصب کی وجہ سے جب ’’رب کی اس ہدایت‘‘ کو جھٹلا دیا تو ان کے مقابلے میں صحابہ کی یہ شان بیان کی گئی اور ظاہرہے کہ یہود کے خلاف یہ بات آپ سے آپ ثابت ہوگئی کہ وہ نہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور نہ فلاح پائیں گے۔
اب ہمارے سامنے قرآنِ مجید کے اس مقام کے حوالے سے دو مثالیں ہیں۔ ایک صحابہ کی جو صرف اس لیے جیتے تھے کہ اپنے رب کی ہدایت پر رہیں اور دوسرے یہود ہیں جو تعصب کی وجہ سے اپنے فقہا اور صوفیوں کو نہیں چھوڑتے، مگر خدا کی ہدایت کا انکار کردیتے ہیں۔ ہمیں اپنے طرزِ عمل کو انھی پر پرکھ کر دیکھنا چاہیے کہ آیا ہم صحابہ کی طرح ہیں یا اس زمانے کے یہود کی طرح؟
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146