ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی چیز اس کی اطاعت کرے وہ وہی کام کرے جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔ ایک مکینک اپنی مشین سے یہی توقع رکھتا ہے۔ ایک بڑھئی اپنے فرنیچر سے، ایک موٹر والا اپنی موٹر سے، غرض ہر فنکار یہی چاہتا ہے کہ اس نے جو بھی شئے بنائی ہے وہ اسی کا کام کرے، اس کا کہنا مانے۔ ایک باپ اور ماں جو صرف بچے کی پیدائش میں ذریعہ ہیں اس کے اصل خالق نہیں، بچے کی تخلیق میں دخیل نہیں لیکن بچے سے تا عمر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کا ادب کرے، اطاعت کرے۔
پھر خالقِ حقیقی، جو مالک اور رازق بھی ہے، وہ کیوں نہ چاہے گا کہ اس کی تخلیق اس کی اطاعت کرے، وہ تو اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی مخلوق اس کی عبادت کرے۔
جب انسان کی بنائی ہوئی اشیاء وہ کام نہیں کرتی جس کے لیے ان کو بنایا گیا ہے تو انسان اسے کارآمدبنانے کے لیے ٹھونکتا ہے، پیٹتا ہے، آگ میں تپاتا ہے، یہاں تک کہ وہ درست کام کرنے لگے۔ اور پھر بھی ایسا نہ ہو تو اسے پھینک دیتا ہے۔ کباڑ میں بیچ ڈالتا ہے۔ جہاں وہ آگ کی گہری بھٹی میں ڈال کر گلا دیا جاتا ہے۔
خالق حقیقی کی مخلوق جب ایسا کرتی ہے تو وہ بھی ٹھوکریں کھلاتا ہے، تاکہ انسان سنبھل جائے اسے بیمار کرتا ہے، اسے باغات اور جان و مال میں نقصان دیتا ہے۔ اس پر بھی انسان نہ سنبھلے تو پھر خالق کو اس کی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔ آخر کار ایسے کباڑ کو ایک دن وہ بھی آگ کے گہرے کھڈ میں ڈال دے گا۔ کیونکہ وہ کہتا ہے:
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘