بچوں کے ساتھ اگر ہمیں سڑک پار کرنی ہو تو ہم شفقت و محبت سے اور چوکنّے ہوکر ان کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں کہ کہیں کسی تیز رفتار گاڑی کی زد میں نہ آجائیں۔ یا کسی غافل ڈرائیور کی غلطی کا شکار نہ ہوجائیں۔اپنی زندگی میں اس سڑک کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے راستے ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ پار کرنے پڑتے ہیں۔ زندگی کے یہ راستے ایسے ہیں، جن سے انھیں ایک مرحلے میں پہنچ کر تنہا گزرنا ہوتا ہے، لیکن ابتدا میں ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں ان راستوں سے گزرنا سکھاتے ہیں۔ پھر ان کے قریب رہ کر انھیں پار کرتے ہوئے ان کی نگرانی کرتے ہیں، پھر دور سے ان کی نگرانی کرتے ہیں اور آخر میں زندگی کی ڈگر پار کرنے کے لیے انھیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وقت وہ ہم سے سیکھے ہوئے تجربات کو دوہرانے کی کوشش کرتے ہیں اور انھوں نے جو خواب دیکھے ہیں، ان کو پورا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
بچوں کو زندگی کے لیے اہداف متعین کرنے میں مدد کرنا اور ان کو روبہ عمل لانے کی تربیت دینا انتہائی اہم ہے۔ یہ ہماری طرف سے ان کے لیے زندگی کا بہترین تحفہ ہے۔
بچوں کو منصوبہ بندی اور زندگی کا ہدف متعین کرنے کی تعلیم دے دی جائے تو وہ زندگی کی دوڑ میں آگے رہیں گے اور جو دوڑ میں آگے رہنا سیکھ لیتا ہے وہ پھر کسی اور مقام پر رہنا گوارا نہیں کرتا۔ بچے مستقبل کے تعلق سے غوروفکر اور چھوٹے بڑے اہداف و مقاصد کی تعیین کرنا سیکھیں گے تو انھیں زندگی میں اپنے مقصد وجود کا بھی احساس ہوگا، وہ زندگی کو ایک بالکل نئے انداز اور نئے ذوق و شوق کے ساتھ جی سکیں گے اور ان کی زندگی بے فائدہ اور لایعنی کاموں سے محفوظ رہے گی۔ یہ پایا گیا ہے کہ جو بچے کوئی منصوبہ اور مقصد سامنے رکھتے ہیں، خواہ وہ تعلیم کے تعلق سے ہو، دینی و مذہبی اعتبار سے ہو یا کھیل کود اور صحت سے متعلق، وہ اس کو ان بچوں کی بہ نسبت اچھے طور پر حاصل کرلیتے ہیں جو اپنا کوئی مقصد طے کرنے کی حکمت سے ہی واقف نہیں ہوتے۔ کیونکہ کامیابی انہی کا حصہ ہوتی ہے جن کے پاس کوئی مقصد ہوتا ہے۔
اس طرح کی تعلیم دینے سے بچوں کا وقت اور زندگی منظم ہوتی ہے، بلکہ انھیں اپنی خواہشات کی تکمیل اور کھیل کود سے لطف اندوز ہونے کا وقت بھی دوسرے بچوں سے زیادہ ملتا ہے۔ اس سے ان کے اندر اپنی مختلف صلاحیتوں کو نکھارنے کا ملکہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
اہداف کی تشکیل
اس قسم کی رہنمائی سے بچوں کو مذکورہ بالا فائدے ہی حاصل نہیں ہوتے بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ انھیں یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اگر کسی کام کو اخلاص اور توجہ سے کریں، اس کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرلیں تو اس کو تکمیل تک پہنچاناان کے بس میں ہے۔ یہ خود اعتمادی ان کے اندر پیدا کرنا موجودہ دور کی ضرورت بھی ہے۔ محدود اور متعینہ وقت کے اندر مطلوبہ کام کو مکمل کرلینے کی تربیت دینے سے انھیں وقت کی اہمیت وقدر کا بھی علم ہوگا، نہ صرف علم ہوگا بلکہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا بھی انھیں احساس ہوگا اور وہ زیادہ سے زیادہ وقت کو کارآمد بنانے کی کوشش کریں گے۔ مثال کے طور پر آپ ان سے کہیں کہ آدھے گھنٹے کے اندر تیار ہوجائیں، تو انھیں سمجھ جانا چاہیے کہ آدھے گھنٹے کا مطلب کیا ہے۔
اہداف کی صفات
ظاہر ہے بچوں کے اہداف اور منصوبے بڑوں کے منصوبوں سے بالکل ہی مختلف ہوں گے۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی اور پختگی آتی جائے گی۔ وہ جتنی زیادہ باتیں سیکھیں گے ان کے تجربے اور صلاحیت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ابتدا میں انھیں سادہ اور معمولی نوعیت کے اہداف کا تعین کرنا سکھائیں۔ اس مرحلے میں اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ تعیینِ ہدف کا مطلب سمجھ لیں اور اپنی زندگی میں اس کی اہمیت سے انھیں آگاہی ہوجائے۔
اہداف منطقی اعتبار سے بچوں کی عمر کے مناسب حال ہونے چاہئیں جن کو بچہ مناسب وقت کے اندر مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ متعینہ ہدف کو مختلف مراحل میں تقسیم کردیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان پر مستقل دباؤ قائم رکھنے اور برابر سوال وجواب کرتے رہنے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
بعض اہداف کو پورا کرلینا بچوں کے لیے بہ آسانی ممکن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر محدود وقت کے اندر ہوم ورک کو مکمل کرلینا، یا دن بھر جو واقعات ان کے ساتھ پیش آئے ہوں ان کو اپنے الفاظ میں لکھنا یا کوئی ایکسرسائز کرنے کے لیے کہنا۔
والدین کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں بلوغت و شعور کی منزل تک پہنچائیں اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ مستقبل میں کامیابی اور خوش گوار و مستحکم زندگی سے ہم کنار ہوں تو انھیں خاص طور سے زندگی کے پانچ میدانوں میں اپنا ہدف طے کرنے کی تربیت بچپن میں ہی پیشگی طور پر دینی پڑے گی:
(۱) دینی ہدف: مثلاً اللہ کی خوشنودی اور جنت کا حصول۔
(۲) تعلیمی ہدف: مثلاً: فلاں ڈگری، عہدے یا کسی خاص مضمون میں مہارت کا حصول۔
(۳) صحت سے متعلق ہدف: مثلاً: صحت مند زندگی اور جسمانی طاقت وقوت
(۴) معاشی ہدف: مال کا صحیح راہ میں صحیح طریقے سے استعمال
(۵) ذاتی ہدف: شخصیت کا ارتقا۔
ان کی مدد کیسے کریں؟
انسانی دماغ ایک عجیب و غریب آلہ ہے۔ اس آلے کو بنانے والے کی شان بھی بہت بڑی اور تمام عیوب سے پاک ہے۔ ہم جو معلومات بھی اس کے اندر محفوظ کرتے ہیں وہ اس کو قبول اور محفوظ کرلیتا ہے۔ انسانی دماغ کی یہی خصوصیت اس کو مقصد اور ہدف کا تعین کرنے اور اس سلسلے میں غوروفکر کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ دماغ جس طرح بڑوں کے پاس ہے، چھوٹے بھی اس سے محروم نہیں ہیں۔
البتہ بچوں کو اس کی تربیت دیتے وقت دو باتوں کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے:
٭ جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے وہ دلچسپ ہونا چاہیے۔ کھیل تفریح اور خوش نما رنگوں سے آراستہ ہو۔
٭ بچوں کے ساتھ خود بھی موجود رہیں، ان کی مناسب مقام پر مدد بھی کریں۔ یعنی والدین اور بچوں کے درمیان قریبی تعلق قائم رہنا چاہیے۔ ذیل میں ہم والدین کے لیے بعض تجاویز بھی پیش کررہے ہیں:
(۱) اہداف کو سمجھنے میں بچوں کی مدد کی جائے، اس سلسلے میں ان سے گفتگو بھی کی جائے، اور پھر ٹیبل اور نقشوں کی شکل میں ان کو مرتب کرنے میں بھی ان کی مدد کی جائے۔
(۲) ایسا بھی کرسکتے ہیں کہ اوقات کا جو ٹیبل آپ نے یا انھوں نے خود اپنے لیے ترتیب دیا ہے، اسے ایک ’زینے‘ کی شکل میں بناکر نمایاں مقام پر لٹکا دیا جائے، جہاں بچوں کی نظراس پر پڑتی رہے۔
(۳) بچے کی سرگرمیوں کو گھڑی کا پابند بنایا جائے۔ مثلاً سونے کا وقت، مطالعے کا وقت، نماز کا وقت وغیرہ۔
(۴) بچے اگر اپنا ہدف خود طے کریں گے تو ان کے اندر اس کو پانے کی چاہت بھی زیادہ ہوگی۔
(۵) حوصلہ افزائی اور تائید کی جاتی رہے۔ اس سے بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی۔
(۶) بچوں کی کوششوں کو سراہنا بہت اہم اور ضروری ہے۔ جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں تو ان کی خوشی میں آپ کی شرکت انھیں نیا ہدف متعین کرنے کا حوصلہ دے گی۔ زندگی تو نام ہی ایک کے بعداگلے ہدف کو پالینے کا ہے۔
(۷) ہر شخص خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کے لیے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ہر انسان کی اپنی منفرد شخصیت ہوتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اسے اپنی قدر کرنی چاہیے۔ خود کو اپنے لائق مقام پر رکھے۔ اگر کوئی اس مفہوم کو پالے تو اسے زندگی کے ہر گوشے میں اپنے لیے ایک ہدف نظر آئے گا۔
(۸) والدین اور بچوں کے درمیان صداقت اور دوستانہ تعلق کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس سے درمیانی فاصلے (communication gaps) ختم ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آرہی ہو تو وہ آسانی سے والدین سے مشورہ کرسکتا ہے۔ یا اگر اسے اپنا ہدف پانے میں دقت ہورہی ہو تو ان سے بلا جھجک بیان کرسکتا ہے۔
(۹) بچہ جب یہ محسوس کرے گا کہ والدین اس کی تعلیم اور کھانے کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہیں تو وہ بھی اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ دے گا۔ بلکہ وہ زیادہ بڑا مقصد اپنے سامنے رکھ سکے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ وہ اپنی کارکردگی میں نمایاں مقام پر فائز رہے۔ وہ اپنی تعلیم اور اس کے نتائج کا شعور زیادہ اچھی طرح کرسکے گا۔
(۱۰) ان سے پوچھتے رہیے کہ وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ کے سامنے جیسی تصویر ہو، اس کے مطابق آپ ان کی مدد کیجیے۔
(۱۱) بچے اکثر بھلکڑ ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین انھیں ان کا کام اور مقصد یاد دلاتے رہیں۔ اس سے انھیں احساس ہوگا کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے یہ کام کرنا ضروری ہے۔ اس طرح جس مرحلے تک انھوں نے کام انجام دے لیا ہو آپ اس پر انھیں شاباشی بھی دیتے رہیں تاکہ وہ آخری انجام تک کام کو پہنچاسکیں۔
(۱۲) اس دوران آپ بچے کی خامیاں تلاش کرکے اسے ملامت او ر سرزنش نہ کریں، بلکہ صبر کا رویہ اختیار کریں۔ انھیں ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے خود سیکھنے کا موقع دیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں اور کام کرنے پر ابھاریں۔ یا ان کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ خود ہی اپنی غلطی مان کر آپ سے معافی مانگ لیں۔
(۱۳) ان سے اپنے تجربات بیان کیجیے۔ صرف کامیابی کے تجربات ہی نہیں، بلکہ ہر طرح کے تجربات بیان کیجیے۔ ان کو بتائیے کہ کامیابی و ناکامی سب زندگی کے مختلف رخ ہیں۔ ہمیں ان سب کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔ ہمیں اپنے ہدف کو پانے میں کچھ تاخیر بھی ہوسکتی ہے، لیکن ہمارا ہدف ہمارے سامنے واضح ہوگا تو اللہ کی مشیت سے ہم اس کو حاصل کر ہی لیں گے۔
——