ملازمت نہیں کام ڈھونڈئیے!

جاوید چودھری

نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، تو اس نے پلکوں پر رومال رکھ لیا۔ چند لمحوں کے لیے ماحول پر خاموشی چھا گئی۔ کوئی اور ہوتا تو اس کی بھی یہی حالت ہوتی۔ ایک لمحے کے لیے سوچئے کہ آپ نے اچھے نمبروں سے ایم بی اے کیا ہے اور آپ صحت مند اور خوبصورت جوان ہیں، لیکن ملازمت کے لیے جہاں درخواست دیں، آپ کو صاف جواب مل جاتا ہے۔ بتائیے آپ پر کیا گزرتی، آپ کا ردِ عمل کیا ہوتا؟ اس عالم سے گزرنے والا یہ نوجوان اسی لیے بری طرح داخلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔
میں نے اسے بغور دیکھا اور پھر بولا: ’’میں تمہیں ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔‘‘
اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں تحیر اور بے بسی تھی۔ میں بولنے لگا:
’’جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی طبی یونیورسٹی کو طب کی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اسی یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ اس یونیورسٹی نے تین سال قبل ایک ایسے سیاہ فام شخص کو ’ماسٹر آف میڈیسن‘ کی اعزازی ڈگری دی جس نے زندگی میں کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا، جو انگریزی کا ایک بھی لفظ  پڑھ یا لکھ نہیں سکتا تھا لیکن 2003ء کی ایک صبح مشہور سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اعلان کیا:
’’ہم آج ایک ایسے شخص کو طب کی اعزازی ڈگری دےرہے ہیں جس نے سب سے زیادہ سرجنوں کو تربیت دی ہے۔ جو ایک غیر معمولی استاد اور ایک حیران کن سرجن ہے اور جس نے طبی سائنس اور انسانی دماغ کو حیران کردیا۔‘‘
اس اعلان کے بعد پروفیسر نے ہیملٹن کانام لیا۔ سبھی لوگوں نے کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا۔ یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا۔
نوجوان چپ چاپ میری باتیں سنتا رہا۔ میں کچھ لمحے خاموش رہا اور پھر بات کا آغاز کیا: ’’ہیملٹن جنوبی افریقہ کے ایک دور دراز گاؤں، سنیٹانی میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین چرواہے تھے۔ وہ بکری کی کھال پہنتا اور سارا سارا دن پہاڑوں پر ننگے پاؤں پھرتا رہتا۔ بچپن میں اس کا والد بیمار ہوگیا، لہٰذا وہ بھیڑ بکریاں چرانا چھوڑ کر کیپ ٹاؤن آگیا تاکہ کمائی کرکے گھر بھیج سکے۔‘‘
’’ان دنوںکیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں تعمیرات جاری تھیں، وہ یونیورسٹی میں مزدور بھرتی ہوگیا۔ اسے دن بھر کی محنت مشقت کے بعد جتنی رقم ملتی وہ گھر بھجوادیتا اور خود چنے جبا کر کھلے میدان میں سوجاتا۔ وہ برسوں مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوا، تو اسے یونیورسٹی میں بطور مالی ملازمت مل گئی۔‘‘
اسے ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے کا کام ملا۔ وہ روز مقررہ جگہ پہنچتا اور گھاس کاٹنا شروع کردیتا۔ وہ تین برس تک یہ کام کرتا رہا۔ پھر اس کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا اور وہ طبی سائنس کے اس مقام تک پہنچی گیا جہاں آج تک کوئی دوسرا شخص نہیں پہنچا تھا۔ یہ ایک نرم اور گرم صبح تھی۔‘‘
نوجوان سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، وہ اس داستان میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ میں نے بیان جاری رکھا۔’’اسی یونیورسٹی کے ایک ڈاکٹر پروفیسر رابرٹ جونز زرافے پر تحقیق کررہے تھے۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جب زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جھکاتا ہے، تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا؟ انھوںنے آپریشن والی میز پر ایک زرافہ لٹایا اور اسے بے ہوش کردیا لیکن جوں ہی آپریشن شروع ہوا، زرافے نے گردن ہلادی۔ چنانچہ انہیں ایک ایسے مضبوط شخص کی ضرورت پڑی جو دوران آپریشن زرافے کی گردن جکڑ کر رکھے۔‘‘
’’پروفیسر تھیٹر سے باہر آئے، سامنے ہیملٹن گھاس کاٹ رہا تھا۔ پروفیسر نے دیکھا کہ وہ صحت مند جوان ہے۔ انھوں نے اسے بلایا اور زرافے کی گردن پکڑنے کا حکم دیا۔ ہیملٹن نے گردن پکڑلی۔ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران ڈاکٹر چائے اور کافی پینے کے لیے وقفے کرتے رہے لیکن ہیملٹن زرافے کی گردن تھامے کھڑا رہا۔‘‘
’’آپریشن حتم ہوا تو وہ چپ چاپ باہر نکلا اور گھاس کاٹنے لگا۔ دوسرے دن پروفیسرنے اسے دوبارہ بلالیا، وہ آیا اور زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ پھر یہ اس کا معمول بن گیا۔ وہ یونیورسٹی آتا، آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور پھر ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے لگتا۔ وہ کئی ماہ یہ دونوں کام کرتا رہا۔ اس نے نہ تو اضافی کام کا معاوضہ طلب کیا، نہ ہی شکایت کی۔
پروفیسر رابرٹ جونز ہیملٹن کی استقامت اور اخلاص سے متاثر ہوا۔ اس نے اسے مالی سے ’لیب اسٹنٹ‘ کا عہدہ دے دیا۔ یوں ہیملٹن کی ترقی ہوگئی۔ وہ اب یونیورسٹی آتا، آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا۔ یہ سلسلہ بھی برسوں جاری رہا۔
پھر اس کی زندگی میں دوسرا اہم موڑآیا۔ اس سال ڈاکٹر برنارڈ یونیورسٹی آئے اور دل کی منتقلی کے آپریشن کرنے لگے۔ ہیملٹن ان کا نائب بن گیا۔
وہ ڈاکٹر برنارڈ کا کام غور سے دیکھتا رہتا۔ ان آپریشنوں کے دوران وہ نائب سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔ اب ڈاکٹر آپریشن کرلیتے، تو ٹانکے لگانے کا فریضہ اسے سونپ دیتے۔ وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا۔ اس کی انگلیوں میں صفائی اور تیزی تھی۔ اس نے ایک دن میں پچاس پچاس مریضوں کے ٹانکے لگائے۔ رفتہ رفتہ وہ سرجن سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا چنانچہ بڑے ڈاکٹروں نے جونیئر ڈاکٹروں کو سرجری سکھانے کی ذمہ داری اسے سونپ دی۔
ہیملٹن اب نوخیز ڈاکٹروں کو آپریشن کی تکنیک سکھانے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ یونیورسٹی کی اہم شخصیت بن گیا۔ حالانکہ وہ طبی سائنس کی اصطلاحات سے ناواقف لیکن دنیا کے بڑے بڑے سرجنوں سے بہتر سرجن تھا۔
1970 میں اس کی زندگی میں تیسرا اہم موڑ آیا، اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی، تو اس نے دورانِ آپریشن جگر کی ایسی شریان کی نشاندہی کی جس کے باعث جگر کی منتقلی آسان ہوگئی۔
اس نشاندہی نے طبی سائنس کے بڑے بڑے دماغوں کو حیران کردیا۔ آج بھی جب دنیا کے کسی کونے میں کسی مریض کا جگر کا آپریشن ہو اور وہ آنکھ کھول کر روشنی دیکھ لے، تو اس کامیاب آپریشن کا ثواب براہِ راست ہیملٹن کو جاتا ہے، اس کا محسن ہیملٹن ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر میں سانس لینے کے لیے رک گیا۔
نوجوان میری باتیں غور سے سن رہا تھا۔ گہرا سانس لے کر میں پھر بولنے لگا: ہیملٹن نے یہ مقام اخلاص اور استقامت سے حاصل کیا تھا۔ وہ پچاس برس کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ رہا اور اس دوران اس نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ وہ کئی برس تک رات تین بجے گھر سے نکلتا، چودہ میل چل کر یونیورسٹی پہنچتا اور ٹھیک چھ بجے آپریشن تھیٹر میں داخل ہوجاتا۔ لوگ اس کی آمد کے وقت سے اپنی گھڑیاں ٹھیک کرتے تھے۔ ان پچاس برسوں میں اس نے نہ توکبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا نہ کبھی اوقات کار کی طوالت اور سہولتوں میں کمی کا شکوہ۔
آخر اس کی زندگی میں ایسا وقت آیا جب اس کی تنخواہ اور مراعات یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بھی زیادہ ہوگئیں۔ اسے وہ اعزاز ملا جو آج تک طبی سائنس کے کسی شخص کو نہیں ملا۔ وہ طب کی تاریخ کا پہلا ان پڑھ استاد بن گیا۔ وہ پہلا ان پڑھ سرجن ہے جس نے زندگی میں تیس ہزار سرجنوں کو عملی تربیت دی۔ وہ 2005 میں فوت ہوا، تو اسے یونیورسٹی میں دفن کیا گیا۔ یونیورسٹی سے کامیاب ہوکر نکلنے والے سرجنوں کے لیے اب لازم قرار دیا گیا ہے کہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں، تصویر بنوائیں اور پھر اس کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوں۔
میں رکا اور نوجوان سے پوچھا: ’’تم جانتے ہو اس نے یہ مقام کیسے حاصل کیا؟‘‘
نوجوان نے نفی میں سرہلایا، تو میں مسکراتے ہوئے بولا: ’’صرف ایک ہاں سے، اسے زرافے کی گردن پکڑنے کے لیے آپریشن تھیٹر بلایا گیا تھا۔ اگر وہ انکار کرکے یہ کہتا کہ میں مالی ہوں، میرا کام زرافوں کی گردنیں پکڑنا نہیں، تو مرتے دم تک مالی ہی رہتا۔ یہ اس کی ایک ہاں اور آٹھ گھنٹے کی اضافی مشقت تھی، جس نے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے اور وہ سرجنوں کا سرجن بن گیا۔‘‘
نوجوان خاموشی سے یہ داستان سن رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا: ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگ زندگی بھر ملازمت تلاش کرتے رہتے ہیں حالانکہ ہمیں کام تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
نوجوان نے بغور میری طرف دیکھا، میں نے کہا ’’ہر ملازمت جانچنے کی کسوٹی ہوتی ہے۔ یہ ملازمت صرف اسی شخص کو ملتی ہے جو کسوٹی پر پورا اترے۔ اس کے برعکس کام کی کوئی کسوٹی نہیں ہوتی۔ میں اگر چاہوں، تو چند منٹ میں دنیا کا کوئی بھی کام شروع کرسکتا ہوں اور کوئی طاقت مجھے یہ قدم اٹھانے سے روک نہیں سکتی۔ ہیملٹن یہ راز پاگیا تھا، لہٰذا اس نے ملازمت کے بجائے کام کو فوقیت دی۔ یوں اس نے طبی سائنس کی تاریخ بدل دی۔ ذرا سوچو، اگر وہ سرجن کی ملازمت کے لیے درخواست دیتا تو کیا وہ سرجن بن سکتا تھا؟ کبھی نہیں، لیکن اس نے کھرپہ نیچے رکھا، زرافے کی گردن تھامی اور سرجنوں کا سرجن بن گیا۔‘‘
میں نے رک کر اسے غور سے دیکھا اور پھر ہر لفظ تولتے ہوئے کہا: ’’تم اس لیے بے روزگار اور ناکام ہو کہ تم ملازمت تلاش کررہے ہو، کام نہیں، جس دن تم نے ہیملٹن کی طرح کام شروع کردیا تم نہ صرف بڑے اور کامیاب انسان بن جاؤ گے بلکہ نوبل انعام حاصل کرلوگے۔‘‘
(اردو ڈائجسٹ لاہور سے ماخوذ، مرسلہ: ڈاکٹر اقبال احمد ریاض، وانم باڑی)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں