ہمارے اسلامی کیلنڈر کی ابتداء محرم الحرام سے ہوتی ہے اور ہماری نوجوان نسل کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلامی کیلنڈر کے حساب سے محرم کے بعد کون سا مہینہ آتا ہے اور محرم سے پہلے کون سا؟ چونکہ ہمارے ملک میں عملاً انگریزی کیلنڈر رائج ہے اور اسکول ہو یا کالج، دفتر ہو یا فیکٹری یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ قومی امور کا سارا دارومدار اسی انگریزی کیلنڈر کے حساب سے ہے۔ یہ کیلنڈر اصل میں ہمارا کیلنڈر نہیں ہے۔ ہمارا نیو ایئر تو یکم محرم الحرام کو شروع ہوتا ہے۔ لیکن ہم اسی اکتیس دسمبر کے بطن سے طلوع ہونے والے سورج کے نئے دن یکم جنوری کو اپنا نیا سال ماننے لگ گئے ہیں۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ آپ نیو ایئر نہ منائیں۔ ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دوسروں کا یہ دن نیو ائیر منانے کا مطلب ہے کہ ہمارا اپنا نیو ایئر یا ہمارا اپنا کوئی کیلنڈر نہیں ہے۔ آپ خود غور کریں کہ جس طرح ہم نے دوسروں کا کیلنڈر اپنا رکھا ہے اسی طرح ہم دھیرے دھیرے ان کا کلچر بھی اپنا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے مسلم معاشرے میں ویلنٹائن ڈے جیسا گندہ دن بھی شان سے منایا جاتا ہے۔ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے نوجوان اکتیس دسمبر کا دن آنے کی انتظار میں لگ جاتے ہیں کہ کب وہ (مقدس) دن آئے گا۔ اکتیس دسمبر کے انتظار کی بے چینی و بے قراری میں دسمبر کا ایک ایک دن قیامت کا سا لگتا ہے۔ اور جونہی اکتیس دسمبر آتا ہے اور گھڑیال بارہ کا گھنٹہ بجاتا ہے نوجوان نسل اپنے گلی محلے میں اپنی تہذیب، اپنی معاشرتی اقدار کا خون کردیتے ہیں۔ اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ آج وہ ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
انسان اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی چونکہ فطری طور پر کمزور ہے۔ اور برائی کی طرف جلد راغب ہوجاتا ہے اور اگر اس کی ٹھیک سے تربیت نہ کی جائے تو وہ برائی کو جلدی اپنا لیتا ہے۔ اور آج کی نوجوان نسل جس کے لیے ماں باپ کے پاس وقت نہیں، جن کی ٹھیک سے تربیت نہیں کی گئی اور جس کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں وہ ایسی برائیوں کے زیر اثر آجاتے ہیں۔ ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔ ہمیں تو شکوہ ہے معاشرے کے سنجیدہ لوگوں سے، ہمیں تو شکوہ ہے نئی نسل کے ان اساتذہ سے، ہمیں تو شکوہ ہے ان والدین سے، ہمیں تو شکوہ ہے ذمہ دار افراد سے جنھوں نے نئی نسل کو سنوارنے میں غفلت برتی ہے۔اور ہمیں تو شکوہ ہے ان علماء سے جو کافر سازی کے کارخانے میں بیٹھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو کافر بنادیتے ہیں۔ کیا ان کا یہ فرض نہیں کہ وہ نوجوان نسل کو درس دیں کہ اس طرح نئے سال کا جشن منانا اسلامی شعار نہیں۔ کیا معاشرے کے ذمہ دار افراد کا یہ فرض نہیں کہ وہ نوجوان نسل کو یہ بتائیں کہ یہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں۔ کیا ماں باپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش اس روش پر کریں جس کا حکم ہمیں اسلام دیتا ہے اور جو ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ کیا معاشرے کے ذمہ دار افراد کا یہ فرض نہیں کہ وہ نوجوان نسل کے لیے وقت نکالیں اور انہیں ا س بات سے آگاہ کریں کہ بیٹا یہ تم کیا کررہے ہو؟ تم کہاں جارہے ہو؟ جس تہذیب یا جس چیز کو تم اپنا رہے ہو وہ تمہاری تہذیب کا حصہ نہیں۔
آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے ملک میں امیر ہو یا غریب ہر کوئی سالگرہ منانے کی وباء میں مبتلا ہے۔ امیر تو امیر، غریب کے پاس پیسے نہ بھی ہوں تو بھی وہ کالا سفید کرکے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ حالانکہ سالگرہ کا مطلب ہے عمر عزیز کا ایک سال یعنی ۳۶۵ دن کم ہوجانا۔ ایک سال کم ہوجانے پر خوشیاں نہیں منانی چاہئیں بلکہ فکر کرنی چاہیے۔ اسی طرح روز قیامت کا خود دل میں لاتے ہی ایک سال کم ہوجانے پر خوشیاں نہیں منانی چاہئیں بلکہ خوف خدا سے سجدہ میں گرجانا چاہیے۔ کیونکہ ہم اپنے انجام کے قریب تر ہوگئے۔ اور ہم ہیں کہ دنیا کی ان رنگینیوں میں گم ہوکر اپنے ہوش حواس گنوا بیٹھتے ہیں۔
ہمیں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ یہ نیو ائیر کا جشن، یہ برتھ ڈے پارٹیاں یہ اکتیس دسمبر کی رات کا ہنگامہ، جس میں رات بھر داد عیش دینے میں مزہ آتا ہے اور ہم یہ دن مناکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ حقیقت میں ہم بغیر سوچے سمجھے ایک چنگل میں پھنستے جارہے ہیں۔ یہ وہ چنگل ہے جو مغرب کے باسیوں نے ہمارے لیے تیار کیا ہے۔ اس مغرب نے جو ہماری اسلامی شناخت ختم کردینا چاہتا ہے۔ ہم ان ممالک کی نقل کرتے ہیں جو ہمارے اسلامی مراکز کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں، ہم اس مغرب کی نقل کرتے ہیں جو مساجد کے تعلق سے عوامی رائے بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم اس مغرب کی نقل کرتے ہیں جو مسلمان ممالک میں جمہوریت قائم کرنے کے نام پر عدم استحکام پیدا کرنے کے منصوبے بناتا ہے۔ ہم اس مغرب کی نقل کرتے ہیں جو آزادی کے نام پر مسلمانوں پر اسکارف جیسی پابندیاں لگا کر ہماری شناخت کو کچل دینا چاہتا ہے۔ اور تو اور اب تو امریکہ جیسے ملکوں میں مسلمانوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر راغب کرنے اور عیسائیت کی طرف مائل کرنے کے لیے عیسائی پادری اور مبلغ عربی زبان سیکھ رہے ہیں۔ جہیودا میں تقریباً چالیس کارکنوں نے عربی زبان سیکھی ہے اور وہ گھر گھر جاکر عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ مہینہ میں کم از کم ایک دفعہ پڑوس کے ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں عربوں اور مسلمانوں کی آبادیاں ہیں۔
آج مغربی اقوام جس انداز میں مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل اور بیدار ہیں اسے ہم نہیں سمجھ پا رہے۔ آپ ان مغربی اقوام کے دن منانے اور نیو ائیر جیسے دنوں کی خوشیوں میں شریک ہونے کی بجائے ان کی زبان سیکھیں، کیونکہ وقت کی زبان سے مسلمان اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنما نا واقف ہیں، تاکہ دور حاضر کی زبان میں ہم مغربی اقوام کے غلط پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں۔ کیونکہ ہمارے مذہبی رہنما تو احساس کمتری کا شکار ہیں۔ نہ وہ وقت کی زبان جانتے ہیں اور نہ اسلام کی۔ وہ اقوام عالم کو اسلام کا آفاقی و ہمہ گیر پیغام دینے سے معذور ہیں۔ وہ صرف ایک زبان جانتے ہیں کہ جو ان کے مزاج کے خلاف بات کرے اسے دائرہ اسلام سے خارج کیسے کیا جائے۔ یہ مذہبی رہنما (یہاں میں علماء کی بات نہیں کررہا) اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج بھی مسلم معاشرے میں ایسے خاندان مل جاتے ہیں جنھوں نے مغرب کو اوڑھ رکھا ہے۔ ہماری نوجوان نسل انہی کے نقش قدم پر چل کر اپنی عاقبت خراب کررہی ہے وہ لوگ دولت کے بل بوتے پر رنگ رلیاں مناتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل اپنی امتیازی خصوصیات اور اپنے مستقبل کو گروی رکھ کر ان کی نقل کررہی ہے اور یہ مذہبی رہنما نوجوان نسل کو ان کا حقیقی سبق یاد دلانے سے قاصر ہیں۔
آج کے دور میں ہمیں اپنے عقیدے، اپنی شناخت اور اپنے اصل کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے انہیں مضبوطی سے نہ پکڑا تو ہم منزل مقصود نہ پاسکیں گے اور شاید ہمارا نام و نشان مٹ جائے۔ آخر میں ہم ذمہ داران دینی مدارس و جامعات، سیاسی و مذہبی قائدین و اراکین، پرنسپل و اساتذہ اسکول وکالج، سماجی و فلاحی اداروں کے بانیان اور والدین سے ادنیٰ سی گزارش کرتے ہیں کہ وہ نوجوان نسل کی تربیت کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ سچ بات یہی ہے کہ: ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوتی۔‘‘