ہمارے ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو مہنگائی کا پیمانہ اور امریکی ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت کو ملکی معیشت کا معیار تصور کیا جاتا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ سے ہر شہری کی زندگی براہِ راست متاثر ہوتی ہے کیونکہ یہ شہری زندگی کو ہی نہیں بلکہ دیہی زراعت پر بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس وقت ملک کے کئی حصوں میں پیٹرول کی قیمت سو روپے فی لیٹر کے بھی پار چل رہی ہے اور اس کا اثر زندگی کے ہر گوشےپر پڑ رہا ہے، جب کہ امریکی ڈالر کی قیمت اسّی روپے کے قریب پہنچی ہوئی ہے جو ملکی معیشت کی بگڑی حالت کی غمازی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کے خلاف لوگوں نے بولنا شروع کردیا ہے اور اپوزیشن گروپس نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ حکومت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ ان کو شاید یہ توقع ہے کہ یہ عوامی مسئلہ ہے اور اسے اٹھانے سے عوام ان کے ساتھ آجائے گی۔عوام حکومت کے خلاف اور اپوزیشن کی حمایت میں کھڑی ہو یا نہ ہو مگر اتنا تو واضح ہے کہ ملک میں بڑھتی مہنگائی نے ملک کے ہر شہری کے بجٹ کو الٹ پلٹ کردیا ہے جبکہ حکومت کو بھی اس کا اعتراف ہے اور وہ موقع موقع سے عوام کو یہ یقین دہانی کراتی رہتی ہے کہ اس پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے اور جلد ہی اس صورت حال پر قابو پالیا جائے گا۔ اس کے لیے کبھی پالیسیز کا تذکرہ ہوتا ہے تو کبھی ملک کی معیشت کی شرح نمو کا اندازہ پیش کیا جاتا ہے۔
یہ بات سبھی لوگ جانتے ہیں کہ مہنگائی کا یہ اثر شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو یکساں طور پر متاثر کررہا ہے مگر حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں کے مقابلے دیہی ہندوستان میں مہنگائی کا اثر زیادہ ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار گزشتہ ماہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ شہروں میں 49.6مہنگائی کے مقابلے دیہی علاقوں میںبڑھ کر 80.6 فیصد ہوگئی ہے۔ گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں یہ دیہی علاقوں میں کم اور شہری علاقوں میں زیادہ تھی۔ دیہی علاقوں میں اس کی شرح 49.5 اور شہروں میں 82.5 فیصد تھی۔ اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سال ماہ جون کی 01.7 فیصد کے مقابلے جولائی میں یہ شرح کم ہوکر 71.6 فیصد ہوگئی۔ خاص بات یہ ہے کہ مہنگائی کی اس شرح میں گزشتہ سال کے مقابلے تقریباً ڈیڑھ فیصد کا اضافہ ہوا جو پچھلے سال 59.5 فیصد تھی۔
اس مہنگائی کے نتیجے میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء گوشت، مچھلی اور کچن کی چیزوں سے لے کر کپڑا، آمدورفت، تعلیم، صحت اور تفریحات تک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جو براہِ راست عام انسان کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو سیاسی اور معاشی ہر دواعتبار سے یہ بات تشویشناک ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ شہری ہندوستان کے مقابلے دیہی ہندوستان غربت اور وسائل کی کمی کا زیادہ شکار ہے۔ اگر وہاں انسانوں کی زندگی تنگ ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہندوستان کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی انتہائی غربت کا شکار ہوچکی ہے یا ہونے جارہی ہے۔ دوسری طرف سیاسی اعتبار سے اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ بیشتر ہندوستان میں غربت و افلاس کی موجودگی میں مہنگائی کی مار عوامی بے چینی کے بڑھاوے کا سبب بن جائے اور دونوں ہی صورتوں میں نقصان عوام کا ہی ہوگا۔
سلمان رشدی پر حملہ
امریکہ میں مقیم ’معروف‘ مصنف سلمان رشدی پر 12 ؍اگست کو قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور نے چاقو سے ان کی گردن پر کئی وار کیے جن سے وہ شدید طور پر زخمی ہوئے اور یہ تحریر لکھے جانے تک وینٹیلیٹر پر بتائے جارہے ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب وہ نیویارک میں ایک فاؤنڈیشن کے ذریعہ منعقدہ پروگرام میں لیکچر کے لیے گئے تھے اور اسٹیج پر موجود تھے۔ حملہ آور کا نام ہادی مطر بتایا جاتا ہے جو امریکہ ہی کے شہر نیو جرسی کا رہنے والا عرب مسلمان ہے اور اس کی عمر محض 24 سال ہے۔ اس واقعے بلکہ ’حادثے‘ پر امریکی صدر جوبائیڈن نے تکلیف اور غم کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستان میں ہی پیدا ہونے والے سلمان رشدی نے 1989 میں اس وقت عالمی شہرت حاصل کی جب ان کی ’معروف زمانہ‘ کتاب ’سیٹینک ورسز‘ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب نے عالم اسلام کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی اور دنیا بھر میں اس کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا۔ ان کے احتجاج کی وجہ اس کتاب میں رسول پاکؐ، ازواجِ مطہرات اور دیگر صحابہ کرام کے سلسلے میں نازیبا و گندی باتیں لکھی گئی تھیں، چنانچہ اس کتاب پر تو دنیا کے کئی ممالک میں پابندی لگادی گئی، مگر اس کے ذریعے سلمان رشدی عالمی شہرت یافتہ اور دنیا کے ’وی وی آئی پی‘ بن گئے۔ ردِ عمل کے طور پر ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے کئی ملین ڈالر کا انعام رکھنے کی ’مذہبی سیاست‘ کھیلی جس نے ان کے کالر پر مزید ستارے لگادئے۔ حکومتوں نے ان کی سیکوریٹی کا انتظام کیا اور کوئی دس سال ’’تقریباً روپوشی‘‘ کے بعد وہ منظر عام پر آسکے۔
اب جبکہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے تو خامنہ ای کا فتویٰ زیرِ بحث ہے اور ان پر اس حملہ کو ایرانی فتویٔ قتل کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس تناظر میں اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں بھی ایک خاص تاثر اور تصور دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جسے سمجھنا دشوار نہیں۔ سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کو قانونی اور اخلاقی اعتبار سے ہم جرم ہی تصور کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیںکہ امریکہ اپنے قانون کے مطابق ملزم کے ساتھ معاملہ کرے گا، مگر ان کی سیکوریٹی انتظامات کو لے کر امریکہ میں جو بحث چل رہی ہے، اس کے سبب لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف ایران کی جانب سے آنے والا ردِ عمل بھی اس معاملے میں سیاسی جمع و تفریق کی طرف لے جاسکتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات ہوئے ہیں اور انہیں کامیاب قرار دیا جارہا ہے۔ چنانچہ ایرانی نیوکلیئر ڈیل کی ٹیم کے خاص مشیر نے اس واقعے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ اور ایران ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں اور ایران پر امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن پر قاتلانہ حملے کی سازش رچنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے موجودہ کارگزار وزیر اعظم نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالتے ہی یہ بیان دیا تھا کہ ایران امریکہ جوہری مذاکرات، کو انھوںنے ناکام بنایا تھا۔
عالمی طاقتوں کی سیاسی مفادات کی جمع و تفریق کے اندیشوں اور امکانات کے باوجود ہم دعا کرتے ہیں کہ مسلمان رشدی صحت یاب ہوجائیں تاکہ وہ اس دنیا کی زندگی سے کچھ اور وقت لطف اندوز ہوسکیں اور ان کی موت کا ذمہ دار نام نہاد اسلامی طاقتوں کو نہ ٹھہرایا جاسکےاور اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کا مغربی میڈیا کو موقع میسر نہ ہو۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت
اگست کے ابتدائی دنوں میں فلسطین کا خطہ غزہ ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوکر نئی تباہی جھیلنے پر مجبور ہوا۔ گزشتہ 15 سالوں سے محصور غزہ پر یہ پانچواں بڑا حملہ تھا جس میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور وہاں پرپہلے سے ہی موجودکمزور انفراسٹرکچر کو مزید تباہی سے دوچار کیا گیا۔ واضح رہے کہ 2008 کے اسرائیلی حملے کے بعد سے ہی غزہ پٹی کے افراد کو محصور بنادیا گیا ہے اور وہ غزہ سے باہر جانے اور باہر کے لوگ اندر آنے کے سلسلے میں شدید پابندیوں کا شکار ہیں۔ اس دوران غزہ پرہوئے حملوں کی تباہی کے مناظر نے دنیا کو دہلا دیا تھا اور یہ بات زیرِ بحث رہی تھی کہ اسرائیل نے اس حملے میں بموں کی نئی قسم کا ٹرائل کیا تھا، جنہیں ’نیل بم‘ کہا گیا تھا۔ اس بم دھماکہ کا شکار ہونے والے افراد کے جسم کے پرخچے اڑ جاتے تھے اور زخمیوں کے زخم ٹھیک نہیں ہوتے تھے۔
21 لاکھ کی آبادی والا غزہ پٹی کا علاقہ ہر طرف سے گھرا ہوا ہے اور اس کی محض دس کلومیٹر کی ہی سرحد ایسی ہے جو اکیلے مصر سے ملتی ہے اور اس کا کل رقبہ محض 365 کلومیٹر ہونے کے سبب یہ دنیا کا سب سے گنجان آبادی والا ایسا خطہ ہے جہاں حقیقت میں نہ تو کوئی با اختیار حکومت ہے نہ فوج اور نہ ہی کوئی اقتصادی نظام ہے۔ اسرائیل فلسطین کشمکش میں چند مسلح گروپ ہیں جو اس کا دفاع کرتے ہیں اور اسرائیل انہی گروپس کی سرکوبی کے نام پر غزہ پر آئے دن بمباری کرتا رہتا ہے جنھیں وہ ’ائر اسٹرائکس‘ کا نام دیتا ہے اور ان ایئر اسٹرائکس کا کوئی شمار نہیں۔
اگست کے ابتدائی دنوں میں ہونے والی غزہ پر اسرائیلی بمباری گزشتہ سال 2021 کے بعد دوسری بڑی تباہ کن بمباری تھی، جس میں اس وقت 261 افراد مارے گئے تھے۔ ان میں 67 بچے اور 41 خواتین تھیں۔ غزہ میں کیونکہ باضابطہ کوئی فوجی نظام نہیں ہے، اس لیے یہ بمباری عام شہریوں اور ان کے املاک پر کی جاتی ہے اور مرنے والے بھی عام شہری ہی ہوتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا ’جنگی جرم‘ ہے مگر دنیا اس کا نوٹس نہیں لیتی۔
غزہ پر اسرائیل کا یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب جدہ کے عرب سربراہ اجلاس کی یادیں تازہ تھیں اور اس اجلاس کی رپورٹوں کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائڈن خود بھی شریک ہوئے تھے اور انھوں نے جی سی سی کے سربراہ اجلاس میں صاف طور پر کہا تھا کہ عالم عرب کے اس فورم میں کچھ نئے ممالک کا اضافہ ہوگا اور ان میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ ان کا اس پلیٹ فارم پر یہ کہنا کہ اسرائیل بھی جی سی سی کا ممبر ہوگا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ عرب ممالک اب اسرائیل کو دوسرے عرب ممالک کی طرح تسلیم کرلیں۔ اس اجلاس کی خصوصیت یہ بھی رہی کہ اس میں مسئلہ فلسطین اور اس کے منصفانہ حل کا اشو چھایا رہا تھا۔
جی سی سی کے اس اجلاس کے فوراً بعد اسرائیل کا غزہ پٹی پر حملہ اس کی سیاسی پالیسی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس کی تاریخی ہٹ دھرمی کا بھی غماز ہے۔ اس نے غزہ پر ایک بار پھر حملہ کرکے عرب سربراہان کو شاید یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جی سی سی کا ممبر اگر بنتا ہے تو اپنی شرائط پر بنے گا اور اگر مسئلہ فلسطین کا حل عرب دنیا چاہتی ہے تو وہ بھی اسرائیل ہی کی شرطوں پر ہوگا نہ کہ عرب ممالک کی شرائط پر۔
غزہ پر حالیہ حملہ ایسے وقت میں بھی کیا گیا جب پوری دنیا ’روس- یوکرین‘ جنگ کا نہ صرف مشاہدہ کررہی ہے بلکہ پوری مغربی دنیا اور دنیا کی بڑی طاقتیں یوکرین کو روس کے خلاف ہر طرح کی جنگی مدد کررہی ہیں اور یہ کام چھپ چھپا کر نہیں بلکہ کھلے عام ہورہا ہے۔ صرف گنتی کے چند ممالک کو چھوڑکر پوری دنیا یوکرین کی ’ہر طرح‘ کی مدد کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے کام کررہی ہے مگر جب بات غزہ اور فلسطین کی آتی ہے تو اس کی حمایت میں کوئی زبان نہیں کھولتا۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ فلسطین اور غزہ کے لوگ مسلمان اور عرب ہیں اور حقیقتاً دنیا کی فیصلہ کن طاقتوں کے درمیان ان کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے۔