دل میں خون جگر سے ہی پہنچتا ہے۔ مادہ مچھر ’’اینوفیلیس‘‘ کے تھوک سے داخل کیا گیا مواد ’’پلاز موڈیم فالسی پیرم‘‘ کا حملہ جگر پر ہوتا ہے۔ مرطوب مقامات اور پہاڑوں میں اس مچھر کی افزائش بہ کثرت ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں کے باشندگان اس بخار میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ مقامات جہاں کوڑا کرکٹ زیادہ بکھرا رہتا ہے، وہاں بھی ان مچھروں کے علاوہ مکھیاں بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں، جو ہیضہ کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتی ہیں۔
ملیریا کے اسباب
ملیریا پیرازائیٹ مچھر کے تھوک کے ذریعے انسانی جسم میں سرایت ہوتا ہے۔ جب یہ مچھر غذا کے حصول کے غرض سے انسان کے جسم سے خون کھینچتی ہے تو دو صورتیں ہوتی ہیں:
(1) اس شخص میں پیرازائیٹ داخل کرتی ہے۔
(2) اگر پہلے ہی داخل ہوا ہو تو اس مچھر کے کاٹنے سے اس کے تھوک میں رہ جاتا ہے اور اس مچھر کو نقصان نہیں دیتا، مگر جب یہ مچھر صحت مند شخص کو کاٹے تو اس میں منتقل ہوجاتا ہے۔
اس بخار کا سبب’’پلازموڈیم فالسی پیرم‘‘ ہے۔ یہ پیرازائیٹ بذریعہ خون جگر تک پہنچتا ہے اور پرورش پاتا ہے۔ پھر سرخ خلیات کو نقصان دیتا ہے، سرخ خلیات میں ہی یہ جراثیم اپنی تعداد بڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حملہ شدہ سرخ خلیات پھٹ جاتے ہیں۔ جب یہ پھٹتے ہیں تو انسان کو تیز بخار، سردی وغیرہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ بخار زیادہ تر بچوں کو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ شیریں غذا کے استعمال کی وجہ سے ان کا خون بھی میٹھا ہوتا ہے اور مچھر انھیں دیر تک اور زیادہ کاٹتے ہیں۔ بوڑھوں کو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کی مدافعتی قوت کمزور ہوتی ہے لہٰذا جلدی جراثیم کا حملہ ہوتا ہے۔ جن علاقوں میں زیادہ کوڑا ہوتا ہے وہاں مختلف طرح کے جراثیم پائے جاتے ہیں، وہاں پر موجود اور مچھر نما مخلوق بھی انسان کو کاٹتی ہے اور مختلف جرثومے داخل ہونے کے باعث ’’سیکنڈری انفیکشن‘‘ کا سبب بھی بن جاتے ہیں، یعنی کسی کو ملیریا بخار ہی ہوتا ہے مگر علامات میں شدت ہوتی ہے اور ایسے افراد کو دوا بھی مشکل سے فائدہ کرتی ہے۔
ملیریا کی علامات
بخار، سر درد، متلی، عضلات میں کھنچاؤ اور درد، کھانسی، سینے یا شکم میں درد۔
نقصانات
(1) اگر حملہ شدہ سرخ خلیات دماغ میں موجود باریک شرائین، ورید میں پھنس جائیں تو دماغ میں ورم ہوسکتا ہے، جس سے جھٹکے لگتے اور بے ہوشی ہوجاتی ہے اسے ’’دماغی ملیریا‘‘ کہتے ہیں، ایسی حالت میں خون کو پتلا اور صاف کرنے والی ادویہ دیں۔ مثلاً ادرک کا قہوہ۔
(2) اگر یہ مواد پھیپھڑوں کی باریک نالیوں میں منجمد ہوجائے تو سانس میں تنگی ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں بلغم کاٹنے والی ادویہ یا ’’ایکسپی کٹورنٹ شربت‘‘ دیں یا ملیٹھی کا قہوہ پلائیں۔
(3) خون کی مقدار میں کمی کے باعث اٹھتے،لیٹتے اور بیٹھتے ہوئے چکر آتے ہوں تو ایسی کیفیت میں خون پیدا کرنے والی ادویہ اور غذا لیں مثلا: چقندر۔
(4)شدید ملیریا کی صورت میں خون میں شکر کی مقدار کافی کم ہوجاتی ہے، مریض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، ایسی صورت میں دودھ ہمراہ گڑ موزوں ہے۔
بچاؤ
(1) جلد کو ایسے کپڑے سے ڈھانپے رکھیں کہ مچھر کی رسائی نہ ہوسکے، زیادہ پتلے کپڑے سے بھی مچھر کے تھوک کو داخل کرنے والا حصہ جلد تک پہنچ جاتا ہے۔ (2) جلد پر اسپرے کریں۔ (3) مچھر دانی کے نیچے سوئیں۔ (4) جب کسی گرم علاقے کی طرف جانا ہو تو حفاظتی طور پر وہی دوائیں دی جاتی ہیں جو ملیریا بخار ہونے کے بعد دیتے ہیں، مگر جسم کو انفیکشن سے بچانے کے لیے نیم کے پتے کا قہوہ یا شربت زیادہ موزوں ہے۔ (5) زیادہ بو والی مچھر مار اگربتی کا استعمال دھیان سے کرنا چاہیے کیونکہ یہ انسان کو نیند لاتی اور کند ذہن کرسکتی ہے۔
ہاضمہ اور بھوک پر اثر
ملیریا بخار کے مواد کا اثر جگر پر ہوتا ہے۔ جگر قوتِ طبیعہ اور غذا کے پکانے کے عمل کا مرکز ہے،جو کھائی ہوئی غذا پر چار کیفیات سے عمل کرتا ہے:
(1) غذا کو روکتا ہے۔ (2) غذا سے ضروری معدنیات کو جذب کرتا ہے۔(3) غذا کے غیر ضروری مواد کو نکالتا ہے۔ (4) غذا کے ہضم کی تکمیل کرتا ہے۔
لہٰذا جب جگر متاثر ہوتا ہے تو یہ چاروں کیفیات متاثر ہوتی ہیں۔ یعنی قبض یا اسہال ہوتا ہے، غذا کے اجزاء جذب نہ ہونے سے خون کی کمی ہوجاتی ہے، اپھارہ ہوتا ہے۔ اگر گرمی بڑھ جائے تو جگر کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے، ایسی صورت میں معدے میں تیزابیت میں کمی بیشی ہوجاتی ہے۔ اگر جسم کی ساخت میں چربی آجائے تو پیٹ پھولا ہونے کے علاوہ ریح، جلد کے رنگ کا زرد ہونا، سستی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ ملیریا بخار اکثر لوگوں کے جگر اور تلی بڑھاتا پایا گیا ہے۔
ملیریا کا علاج کیسے کریں؟
ایلوپیتھک ادویہ: (1) ایٹوواکون: پروگوانل: مگر یہ ادویہ اسہال، قے، پیٹ درد، بھوک کی کمی، جلد اور آنکھوں کا پیلا ہونا، چھالے کا باعث بن سکتی ہیں۔ (2) پرائما کوئین: مگر یہ دوا بھی متلی، پیٹ درد، مروڑ بھوک کی کمی اور سینے میں جلن کرسکتی ہے۔ (3) میفلوکوئین: یہ دوا متلی، خارش، سردرد اور کان کا بجنے کا سبب بن سکتی ہے۔
طب قدیم کے ذریعے علاج:
مویز منقی 9 عدد، بادیان 5 گرام، بیج کاسنی 5 گرام، گاؤ زبان کے پتے 5 گرام، گل بنفشہ 6 گرام، خمیرہ بنفشہ 4 تولہ میں ملا کر دیں۔ نیز معدے میں خرابی ہو تو ’’پرسیاؤشان‘‘ 4 گرام کا اضافہ کرلیں۔ اگر کھانسی ہو تو ’’ملیٹھی‘‘ 3 گرام کا اضافہ کردیں۔ اسہال ہو تو آبِ بارتنگ 4 گرام کا اضافہ کردیں۔
ماڈرن ہربلزم‘ صبح افسنتین رومی کا قہوہ دیں۔ دوپہر میں برگ نیم کا قہوہ پلائیں۔ اگر معدے میں خرابی ہو تو اجوائن دیسی 2 گرام ہمراہ سیاہ زیرہ چبائیں۔ مقدارِ خوراک عمر اور بی ایم آئی کے مطابق۔
تلی بڑھ جائے تو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ رات کو نیند میں ڈر لگتا ہے۔ بدگمانی اور وہم کا اضافہ ہوجاتا ہے ، ایسی کیفیت میں اطریفل اسطوخودوس آدھا چائے کا چمچہ گرم پانی میں ملا کر سورج غروب ہونے کے بعد دیں۔ll
(روزنامہ ایکسپریس سے ماخوذ)