رَبَّنَا اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۔ (آل عمران۳:۱۹۲)
’’اے ہمارے پروردگار! تو نے جسے دوزخ میں ڈالا، بس اُسے رسوا ہی کرڈالا، سیاہ کاروں کا ہمدرد کوئی بھی نہیں۔‘‘
تشریح
دنیا میں حق پرستی کی راہ میں ایک بہت بڑا مانع جاہ طلبی رہا کرتا ہے۔ انسان بیسیوں نیکیوں کی طرف بڑھنے اور بدیوں سے بچنے سے اس لیے رکا رہتا ہے کہ اس سے اس کے جذباتِ جاہ و ناموری میں فرق پڑتا ہے۔ ایسوں کے لیے آخرت میں عذاب، محض سخت و مولم (دردناک) ہونا کافی نہ ہوگا، بلکہ ان کو خلائق کے سامنے رسوا بھی کیا جائے گا، کہ جس رسوائی کے خوف سے وہ دنیا میں خدا اور رسول سے دور رہا کرتے تھے، آج اسی کا مزہ سب سے زیادہ چکھنا پڑے گا۔
وَمَا لِظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۔ جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کرتے رہے ہیں (اور سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ خدا کی خدائی میں کسی کو شریک سمجھا جائے) انہیں کوئی اتنا سہارا دینے والا بھی تو نہ ہوگا، جو اُن کی سزا کچھ ہلکی ہی کرسکے، سرے سے ان کے چھڑالانے کا تو خیر کوئی ذکر ہی نہیں۔