جب سے فون کا استعمال بڑھا ہے، خاص طور پر اینڈرائڈ فون کا تو اس کی پہنچ بچوں تک بڑی آسان ہو گئی ہے۔ اب وہ بچوں کا ایسا کھلونا بن گیا ہے جس کی انہیں’’لت‘‘ لگ جاتی ہے یا وہ اس کے اڈکٹ ہو جاتے ہیں ۔ والدین خصوصا مائیں ، جو بچوں کے ساتھ زیادہ وقت رہتی ہیں،وہ خود کو بچوں سے فارغ رکھنے کے لئے بچوں کو موبائل فون پکڑا دیتی ہیں اور بچہ اس سے کھیلنے میں لگ جاتا ہے اور وہ سکون محسوس کرتی ہیں کہ چلو رونے دھونے سے جان بچی۔ ایسے والدین نہیں جانتے کہ یہ موبائل ان کی زندگی اور ان کے مستقبل پر کس طرح کے منفی اثرات ڈالے گا۔ اکثر والدین بتاتے ہیں کہ وہ خود بچے کو فون دیتے ہیں۔ بچہ کھانا نہیں کھارہا تو اُس کے سامنے فون رکھ دیتے ہیں، پھر وہ کھانا کھالیتا ہے، یا بچہ چیخنے چلانےمیں لگا ہے یا کسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہے تو اسے بہلانے کے لئے اس کو فون پکڑا دیا جاتا ہے اوروہ سکون سے بیٹھ جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو یہ بہت عام بات ہے۔
بات صرف موبائل فون کی نہیں ہے، یہ تو بہ کثرت استعمال ہونے والی چیز ہے۔ بہت سی مائیں بچوں کو دیگر ڈیجیٹل آلات مثلا لیپ ٹاپ یا ٹیبلیٹ دیدیتی ہیں۔ کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ٹی وی پر کارٹون نیٹ ورک لگا دیا اور بچہ پھر اس میں محو ہوگیا۔ یہ انتہائی غلط،خطرناک اور تباہ کن رویہ ہے جو بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو بگاڑ کر ان کی شخصیت کو بھی تباہ کر رہا ہے اور ان کے مستقبل کو بھی تاریک بنا رہا ہے۔
ترکی کی تین یونیورسٹیز کے شعبہ علم نفسیات نے ایک تحقیق کی۔اس تحقیق میں ان کا موضوع ’’دودھ پیتے بچوں پر موبائل اور ٹی وی اسکرین کے اثرات‘‘ تھا۔ اس تحقیق میں جہا ں انہوں نے بچوں کے رویوں کا مطالعہ کیا وہیں انہوں نے والدین، اساتذہ اور کونسلر س سے بھی انٹرویوز کئے۔ اس تحقیق میں پایا گیا کہ جو بچے دن بھر میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت اسکرین دیکھتے ہیں ، خواہ وہ اسکرین ٹی وی کی ہو یا موبائل کی یا پھرٹیب کی، ایسے بچوں میں سیلف ریگولیشن یا تنظیم ذات کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
سیلف ریگولیشن یا تنظیم ذات خیالات،جذبات اور رویوں کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کا نام ہے، جو دودھ پینے کی عمر میں، اس کے بعد اور پری اسکول کی عمر میں پروان چڑھتی ہے۔ ان مرحلوں کی تنظیم ذات کی صلاحیت آگے کی عمر میں سیکھنے کی صلاحیت کا تعین کرتی اوربچے کے سوشیو اموشنل رویوں کی تشکیل وتعین میں اہم کردار اداکرتی ہے۔
موجودہ دور میں اس موضوع پربڑے پیمانے پر تحقیق و مطالعہ کا کام جاری ہے اور لوگ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موبائل اور اسکرین کا بچوں میں بڑھتا استعمال کیاان کی صلاحیتوں ،رجحانات، رویوں اور ذہنی وجسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے؟ اور اگر کرتا ہے تو کس طرح؟
Hindawi Journal of Human Behavior and Engineering Technology
نامی تحقیقی جرنل میں اس موضوع پر شائع ایک مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’روایتی میڈیا ،موبائل ،ٹی وی اور ٹیبلیٹ وغیرہ کے ساتھ وقت گزارنے اور سیلف ریگولیشن کی انتہائی کمزور صلاحیت کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔‘‘
محقق نے یہ نتیجہ والدین، طلبہ،اساتذہ، اسکول اسٹاف اور اور بچوں کو سائکو تھراپی دینے والے ماہر نفسیات اور کاؤنسلر حضرات سے ملنے والے ڈاٹا کی بنیاد پر اخذ کیا۔
کئی ماہرینِ نفسیات اطفال کا خیال ہے کہ وہ بچے اور خاص طور پرچھوٹے بچے ،جو دن میں کئی گھنٹے فون، ٹیبلیٹ اور ٹی وی کے اردگرد گزارتے ہیں، ان میں آٹسٹک بچوں جیسی علامات پیدا ہوسکتی ہیں ۔ جب بچے کو بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیکھنے کو ملتا ہے تو اُس کے اندر آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر جیسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کیونکہ اس میں بچے میں ہائپر ایکٹیویٹی دیکھتے ہیں۔
ایسے بچوں میں آپ کواگریشن یاغصہ دیکھنے کو ملے گا۔ایسے بچے پیغام رسانی،گفتگویا کمیونیکیشن میں کمزور ہوتے ہیں پھر ایسے بچے عام بچوں کے مقابلےمختلف طریقے سے گفتگو کرتے ہیں اور بعض اوقات بالکل ہی نہیں کرتے، اُن کے سماجی روابط یا سوشل میل ملاپ بھی نہیںہوپاتاکیونکہ وہ گیزٹس پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ والدین جب بچےکو فون پکڑا دیتےہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے گفتگو نہیں کرنا چاہتے اور اسے وقت دینے سے کترا رہے ہیں اور وہ خود اُن کے ساتھ گفتگو کرتے بھی نہیں، اِس سے بھی ان بچوں کے اندر ہائپر ایکٹیویٹی بہت بڑھ جاتی ہے ۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ضد کرتے بچوں کو فون دے کر بہلانا مستقبل میں اُن میں رویوں کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ غصے میں چیختے بچے کو ڈیجیٹل ڈیوائس دے کر فوری طور پرتو چُپ کرایا جاسکتا ہے لیکن یہ طریقہ اپنے اندر طویل مدتی مسائل رکھتا ہے اور بچے کی شخصیت پر منفی نتائج مرتب کرتا ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف مشیگن کے محققین کی ٹیم نے تحقیق کے لیے 422 والدین اور ان کے تین سے پانچ سال کے درمیان والی عمر کے بچوں کا انتخاب کیا۔ سائنس دانوں نے والدین سے پوچھا کہ وہ بچوں کو بہلانے کے لیے فون یا آئی پیڈ جیسے ڈیجیٹل آلات کا کتنا استعمال کرتے ہیں؟ اور کیا انہوں نے بچوں میں گزشتہ چھے ماہ سے زائد عرصے کے اندر جذباتی یا رویّے کے مسائل کی علامات کا مشاہدہ کیا ہے؟
ان علامات میں اداسی سے خوشی کے درمیان جذبات کی فوری منتقلی، مزاج یا احساسات میں فوری تبدیلی اور انتہائی فعالیت شامل ہیں۔ سروے کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ والدین جو اپنے بچوں کو تین گھنٹوں سے زیادہ ڈیجیٹل آلات سے بہلاتے تھے، ان کی غالب اکثریت نے اپنے بچوں میں ان علامات کا مشاہدہ کیا۔اسی طرح کے نتائج جرنل ”جاما پیڈیاٹرک“ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بھی سامنے آئے جہاں بچوں کو بہلانے کے لیے ڈیجیٹل ڈیوائس کے استعمال اور جذباتی رویوں کے درمیان گہرا تعلق سامنے آیا جو چھوٹے’لڑکوں‘میں زیادہ تھا۔
اس چیز نے ان بچوں کو اور بھی زیادہ متاثر کیا جو پہلے ہی سے ہائیپر ایکٹیوٹی یا رویوں کے شدید بدلاؤ میں مبتلا تھے اور جو بچے معاملات اور گفتگو میں شدید ردِعمل دیتے تھے یعنی اپنے رویوں میں ایگریشن یا شدید غصہ رکھتے تھے۔
بات اگر بچوں کی جسمانی صحت کی ہو تو اس سلسلے میں بھی بے شمار تحقیقات سامنے آچکی ہیںکہ ڈیجیٹل آلات کے سامنے زیادہ وقت گزارنے والے بچے موٹاپے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور با شعور والدین اور افراد اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ بچوں میں بڑھتا موٹاپا انہیں موٹاپے کے سبب ہونے والی بے شمار بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا ، خواہ وہ کتنی بھی مفید ہو بہت زیادہ استعمال منفی نتائج لاتا ہے۔ بس یہی معاملہ ان مذکورہ چیزوں کا بھی ہے۔ یہاں ان چیزوں کے استعمال پر بحث مطلوب نہیں بلکہ اس صورت حال پر آگاہی فراہم کرنا مقصود ہے جو آج سماج میں رائج ہو رہی ہے اور اس کے نتائج ایسا کرنے والے لوگ دیکھ بھی رہے ہیں، اس کا شکوہ بھی کرتے نظر آتے ہیں مگریا تو وہ جانتے نہیں یا پھر جانتے ہوئے بھی اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے اور اس کا تدارک اسی صورت میں ممکن ہے جب والدین یا مائیں بچوں کو بہلانے کے لیے فون یا آئی پیڈ کے استعمال کے بجائے ان کے ساتھ پیار بھری گفتگو کرنے کا طریقہ اپنائیں، انہیں دیگر اقسام کی سرگرمیوں: مثلاً کھیل کود، قصے کھانیاں پڑھنے اور سنانے، کتابوں کے مطالعے یا دیگر تعمیری سرگرمیوں میں شرکت کرنا اور خود ان کے ساتھ شریک ہونا سیکھیں اور سکھائیں ، اگر ایسا نہیں کرتے تو سمجھ لیں کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل بگاڑ رہے ہیں۔