ساٹھ سال پرانی بات ہے۔ جب میں چھے سات سال کا لڑکا تھا۔ ہوا یہ کہ گائوں سے باہر اپنے ڈیرے پر چارپائیاں بچھائے ہمارے چاچے تائے وغیرہ بیٹھے گپ شپ لڑا رہے تھے۔ سردیوں کی چمکیلی گرم دھوپ میں ہم بچے بیٹھے گنے چوس رہے تھے۔ گاجریں اور مولیاں بھی کھائی جا رہی تھیں۔
اچانک گائوں کی طرف سے ایک آدمی تیز تیز چلتاآیا اور بولا ’’چاچا جی! فلاںآدمی فوت ہو گیا ہے۔ اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ افسوس کرنے کے بعد گائوں کے گورکن کو بلایا گیا۔ پھر قبرستان میں جگہ کا تعین کرا کر اسے قبر کھودنے بھیج دیا۔ گورکن اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس زمانے میں قبر بغلی بنتی تھی جس میں مردہ دفنانے کے بعد گھڑے رخ مٹی سے لیپ دی جاتی۔آج کی طرح کنکریٹ سلیبوں والی نہیں!
مرکزی سڑک سے ایک چھوٹی پگڈنڈی گائوں کو جاتی تھی۔ اس پر سے کم ہی لوگ گزرتے۔ قبر اسی راہداری کے کنارے بن رہی تھی۔ ایک بوڑھی عورت پگڈنڈی سے گزری۔ اس نے قبر کھدتی دیکھی، تو نجانے کیوں کھڑی ہو گئی۔ دراصل عورتوں نے کب قبریں اندر سے دیکھی ہوتی ہیں؟ وہ مائی بھی تجسس کے مارے ذراآگے ہو کر قبر کے اندر جھانکنے لگی۔
قبر کی کچھ مٹی نیچے قبر بناتے گورکن کے پاس گری، تو اس نے کہا ’’مائی! پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو۔‘‘ وہ پیچھے ہٹ گئی، لیکن اسے پھر قبر اندر سے دیکھنے کی طلب نے اکسایا۔ وہ قبر کی مٹی پر کھڑی ہو کراندر دیکھنے لگی۔ پھر مٹی گری، تو گورکن چلایا۔ بوڑھی پیچھے ہٹ گئی۔ پتا نہیں اس عورت کو کیا تجسس تھا کہ وہ تیسری بار پھر مٹی پر کھڑی ہو کے اندر جھانکنے لگی۔
اس دفعہ کافی مٹی قبر میں گر گئی۔ گورکن نے چلا کر اسے ڈانٹ پلائی۔ بوڑھے لوگوں کا دل کمزور ہوتا ہے۔ ڈانٹ سن کر مائی اتنی خوفزدہ ہوئی کہ لرز کر پہلے مٹی پر گر اور پھر لڑھک کر قبر کے اندر گورکن کے قدموں میں جا پڑی۔ کچھ دیر گورکن کو سمجھ نہ آئی کہ کیا ہوا ہے؟ پھر وہ چیختا چلاتا ڈیرے کی طرف بھاگا۔ جا کر شور مچا دیا کہ سب آئو۔
لوگوں نے اس سے پوچھا، کیا ہوا بھائی؟ کیا سانپ نکل آیا ہے قبر میں سے؟…بہرحال ہم سب قبرستان پہنچے۔ قبر کے کنارے کھڑے ہو کر گورکن کی طرف دیکھنے لگے کہ ہاں بتائو کیا بات ہے؟ اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا، اندردیکھو۔ سب اندر دیکھنے لگے۔ اندر بوڑھی مری پڑی تھی۔ گورکن نے پھر سارا ماجرا بیان کیا۔
اب اس مائی کو دفن کرنے کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ امام مسجد بلائے گئے۔ اب ہم لڑکوں کا مسئلہ نہ رہا۔ لہٰذا ہم اِدھر اْدھر چلے گئے۔ دوسرے دن ہم لڑکے نئی قبر دیکھنے پہنچے، تو دیکھا وہاں دو قبریں بنی ہوئی ہیں۔
سوچنے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قبر کس کے لیے کھودی جا رہی تھی اور اس میں دفن کون ہوا؟
وہ بڑھیا کون تھی اور کس کو معلوم تھا کہ یہ قبر اس بڑھیا کے لیے کھودی جا رہی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہـــ۔۔۔۔۔
’’انسان کو نہیں معلوم کہ ہو کس جگہ مرے گا۔۔۔۔۔ اوریہ کہ بندہ اسی جگہ کھینچ کر لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی موت واقع ہونی ہے۔‘‘lll