نباتات اور حیوانات میں پلنے بڑھنے، پھلنے پھولنے اور جھومنے گھومنے کی جو قوت ہے اسے زندگی یا حیات کہتے ہیں۔ وجعلنا من الماء کل شیٔ حی۔ ’’ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندگی دی۔‘‘ میںزندگی سے مراد یہی قوت ہے، ان نباتات و حیوانات سے ان خصوصیات کا اس دنیا میں مستقل طور پر سلب ہوجانا ان کی موت شمار کی جاتی ہے۔ ان اجسام کے لیے یہ الفاظ اس مفہوم میں اکثر استعمال کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب روز مرہ کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص مرگیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس سے اس دنیا میں چلنے پھرنے، نشوونما پانے اور پلنے بڑھنے کی قوت ہمیشہ کے لیے سلب کرلی گئی ہے۔ اور کسی درخت کا سوکھ جانا بھی اسی لیے اس کی موت ہے کہ اب اس میں نشوونما کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔
محاورے کی زبان میں زندگی کا دوسرا مفہوم وہ احساس ہے جو انسان میں ودیعت کیا گیا ہے اور اس زندگی کے مقابلے میں جو موت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد اس احساس کا خاتمہ ہوتا ہے۔
جسم کی زندگی
اس احساس کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً جسم کا احساس، قلب کا احساس، ذہن کا احساس اور ضمیر کا احساس، جسمانی احساس اس اثر کو کہتے ہیں جو انسانی جسم پر خارج کی کسی مادی چیز سے سابقہ پیش آنے پر پڑتا ہے۔ مثلاً ہاتھ کو برف چھوئے تو وہ سردی محسوس کرتا ہے اور اگر آگ کے قریب اسے لے جایا جائے تو اسے گرمی اور تپش محسوس ہوتی ہے۔ یہ احساس ہاتھ کی زندگی ہے اور اگر یہ احساس مستقل طور پر ختم ہوجائے اور اسے برف پر رکھ دینے یا آگ میں ڈال دینے سے کوئی فرق نہ محسوس ہو تو اس کی موت ہے بالکل ہاتھ ہی پر جسم کے دوسرے حصوں کو بھی قیاس کرلینا چاہیے کہ یہ احساس ان میں موجود رہے تو وہ زندہ ہیں اور اگر احساس معدوم ہوجائے تو مردہ۔
دل کی زندگی اور موت
دوسرے احساس کا تعلق انسان کے خارج سے نہیں اس کے اندر سے ہے۔ اس کا تعلق اولاد آدم کے جسم کے باقی حصوں سے نہیں پہلو کے اندر کے ایک ٹکڑے سے ہے، جسے دل کہتے ہیں۔ انسان کی کچھ قلبی کیفیات و واردات ہوتی ہیں، جن کو وہ محسوس کرتا ہے اور جن سے وہ تڑپ جاتا ہے، یہ تن کی نہیں من کی دنیا ہے۔ یہ سوز و مستی اور جذب و کیف کی دنیا ہے، یہ سود وسودا اور مکروفن کی دنیا نہیں، ان دونوں کے احوال و اثرات اور احساس ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثلاً یار کے ہجر کی آگ ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضائے جسمانی کو نہیں بلکہ دل کو جسے شاعر ’’روح دوراں‘‘ بھی کہہ لیتے ہیں، جلاتی ہے۔
ان احساسات کی موجودگی دل کی زندگی ہے اور اعلیٰ اقدار کی قدرومنزلت، نیکی کے احساس اور اونچے انسانی جذبات کا دل میں نہ رہنا علامہ اقبالؒ کے ہاں اس کی موت ہے۔ فرماتے ہیں:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں درسِ مساوات
دل باقی اعضاء و جوارح کا بادشاہ ہے۔ اس کے احساس و زندگی اور فقدان احساس و موت کا اثر باقی جسم پر بھی پڑتا ہے۔ دل پر گھبراہٹ طاری ہوجائے تو باقی جسم کی قوت بھی جواب دے جاتی ہے۔ دل مرجھا جائے تو باقی اعضاء بھی شل ہوجاتے ہیں۔ دل میں اعلیٰ و ارفع جذبات اور قویٰ اور صحت مند احساسات باقی نہ رہیں، اس کے اندر کسی پاکیزہ اور صاف کمال و جمال محبوب کے لیے پاک صاف امنگیں اور شدید تڑپ نہ ہو اور وہ اس کی ساری توجہ اور دلچسپی کا مرکز و محور بن گیا ہو تو جسم بھی ایک طرح سے بے حس اور بے جان ہوجاتا ہے۔
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
اور دل میں جب جان ہوتی ہے، تڑپ اور ترنگ ہوتی ہے، جذبات و احساسات کی شدت ہوتی ہے، محبوب کے لیے سوز اور جلن ہوتی ہے تو جسم میں حرارت وحرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر وہ دل کے احکام کی بجا آوری میں تھک تھک تو جاتا ہے مگر اس کے ارشادات سے سرتابی نہیں کرسکتا۔ دل کی زندگی اور موت کی یہی اہمیت ہے جس کی بنا پرارشادِ نبویؐ ہے:
اذا صلح صلح الجسد کلہ واذا فسد فسد الجسد کلہ۔
’’یعنی یہ دل ٹھیک ہوجائے تو اس میں زندگی آجائے، تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اس میں جان پڑجاتی ہے اور یہ دل بگڑجائے … اس پر موت طاری ہوجائے تو پورا جسم بگڑجاتا ہے… اور اس پر موت طاری ہوجاتی ہے۔‘‘
یہ دل کے احساسات جہاں اتنے اہم ہوتے ہیں، وہاں اتنے ہی نازک بھی ہوتے ہیں۔ یہ آبگینے ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے بڑی بصیرت، احتیاط اور مستعدی چاہیے ورنہ ذرا سی ٹھوکر سے یہ چور چور ہوجاتے ہیں اور پھر جڑتے بھی بڑی مشکل سے ہیں۔
ذہن کی زندگی
دل کی طرح دماغ کے بھی احساسات ہوتے ہیں، انہی احساسات کی بنیاد پر ذہنی سکون اور ذہنی کوفت اور دماغ کھولنے لگا وغیرہ کی ترکیبیں عام استعمال ہوتی ہیں۔ دراصل ہر زندہ ذہن کے کچھ اپنے تصورات، خیالات، نظریات اور معتقدات ہوتے ہیں۔ یہ تصورات و معتقدات چھوٹے اور بڑے ہر معاملے میں پائے جاتے ہیں، اس پر جب کوئی ضرب لگتی ہے تو ذہن جھٹکا سا محسوس کرتا ہے اور اگر کوئی واقعہ یا بات ذہن کے خیالات کے مطابق ہو تو اسے سکون اور اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ یہ ذہن کی زندگی ہے اور اگر اس کے اپنے تصورات، خیالات، نظریات اور معتقدات نہ ہوں اور اس کے اندر یہ احساس بھی نہ ہو کہ میرے اپنے کوئی نظریات نہیں تو یہ اس کی موت ہے اور جب کوئی فرد یا قوم ذہنی موت کی اس کیفیت میں مبتلا ہوتی ہے تو لامحالہ وہ اپنے ہاتھوں دوسروں کی غلامی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیتی ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی سیاسی غلامی کا راز اس کی ذہنی موت ہے اور اسے ’’آزادی‘‘ اس وقت نصیب ہوگی جب یہ ذہنی طور پر زندہ ہوجائے گا۔
ضمیر کی زندگی
انسانی فطرت، ذہنی خیالات، اخلاقی تصورات، معاشرتی روایات اور ماحول کی تربیت کے امتزاج سے تقریباً ہر فرد میں صحیح اور غلط اور حق اور باطل میں تمیز کرنے کی ایک خاص قسم کی صحیح یا غلط صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اسی صلاحیت کا نام عام اصطلاح میں ضمیر ہے۔ یہ ضمیر ان کاموں پر اطمینان محسوس کرتا ہے، جو اس کے نزدیک اچھے ہوں۔ اور ان پر نادم ہوتا ہے، جو اس کے نزدیک برے ہوں۔ یہی احساسِ اطمینان و ندامت ضمیر کی زندگی ہے اور اس احساس کا نہ رہنا ضمیر کی موت ہے۔
ایک آدمی اگر چوری کرکے ضمیر کی ندامت محسوس نہیں کرتا تو کہتے ہیں کہ اس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ یہ ضمیر کی موت بدترین قسم کی موت ہے۔ اس موت کے بعد انسان اور حیوان میں قطعاً کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ فرد کا ضمیر مردہ ہوجائے تو وہ بے غیرت، بے حیا اور بدچلن ہوجاتا ہے اور ہر وہ اخلاقی برائی جو اس کے بس میں ہو وہ کرگزرتا ہے۔ اور قوم کا ضمیر مردہ ہوجائے تو وہ غلام، بھکاری، شرابی ، رقاصہ اور مغنیہ بن جاتی ہے اور اس کا وطن ہر سیاسی اور معاشرتی برائی کا ایسا وطن ہوتا ہے جہاں برائیاں اندر سے بھی پھوٹتی ہیں اور باہر سے بھی درآمد ہوتی ہیں۔
ذہن و ضمیر اور قلب کی یہی زندگی ہے جو اس شعر میں مراد ہے:
وقد نادیت لو اسمعت حیًّا
ولکن لا حیــاۃ لــمـن تنادی
’’تو نے زندہ کو سنانے کے لیے آواز دی ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ جسے تم زندہ سمجھ کر آواز دے رہے ہو اس میں زندگی ہے ہی نہیں۔ اس کا تو ضمیر، دل اور دماغ مردہ ہوچکا ہے۔‘‘
غفلت اور بے بصیرتی
انسان اتنا غافل اور بے بصیرت ہے کہ وہ اشرفیاں لٹاتا اور کوئلوں پر مہر لگاتا ہے۔ یہ گوشت پوست کے ڈھانچے کو بچانے اور اپنے جسم کی قوتِ نشو و نما کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر جتن کرگزرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ اتنی اہم چیز ہے کہ اس کی ساری دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا مرکز و محور یہی بن جاتی ہے۔ اور افسوس تو یہ ہے کہ جسم کی زندگی کے لیے انسان ذہن، ضمیر اور دل کی زندگی کی قربانی دیتا ہے اور اس طرح اِن حیوانوں کی صفوں میں آشامل ہوتا ہے جن کے پاس جسم کی زندگی کے سوا کچھ نہیں۔ انسان جھوٹ بولنے، ڈاکے ڈالنے انسانوں کو غلام بنانے اور اُن کا خون چوسنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے، لیکن اپنے ذہن و ضمیر اور دل کی زندگی کے لیے، جو اصل زندگی اور جسمانی زندگی کا مقصود ہے، کوئی تڑپ، کوئی سرگرمی اور قربانی کا کوئی جذبہ نہیں دکھاتا اور اس کے کسی عزیز ترین شخص کے ان احساسات کی موت ہوجائے تو اس کے لیے کبھی ایک آنسو بھی نہیں بہاتا۔
والعصر ان الانسان لفی خسر۔
’’تاریخ اور زمانے کی گواہی یہی ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔‘‘
ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ساری ہما ہمی اور انسان کی جسمانی زندگی کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس کا دل، دماغ اور ضمیر زندہ رہے۔ حیوانی زندگی سے امتیازاسی وقت تو پیدا ہوتا ہے۔
جسمانی موت اور قلب و ضمیر کی زندگی
قلب و ضمیر اور ذہن کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بے شمار ذرائع اختیار کیے گئے ہیں مگر ان میں سے ایک ایسا ہے جو سب سے زیادہ اہم اور ہمہ گیر ہے اور وہ ہے انسان کی جسمانی موت۔
انسان کے جسم کو ہر حال میں موت آنی ہے وہ کہیں بھی چلاجائے یہ ٹل نہیں سکتی۔ حد یہ کہ جہاں ہوا کا گزر نہیں ہوسکتا۔ وہاں موت آجاتی ہے: اینما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جسم کی موت ناگزیر ہے۔یہ ٹل نہیں سکتی اور جسم کو خواہ کتنے ہی عیش، آرام اور حفاظت میں رکھا جائے یہ کسی صورت، ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ تو پھر اس کی خاطر دل، دماغ اور ضمیرکو کیوںمردہ کیا جائے بالخصوص جبکہ اصل مقصود بھی جسم کی زندگی نہیں بلکہ دل و دماغ اور ضمیر کی زندگی ہے اور ان کی زندگی موت کے بعد کی زندگی میں بھی کام آنے والی ہے؟ کوئی بھی معقول آدمی اس سوال کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں دے سکتا کہ اگر واقعی صورتِ حال یہی ہے تو پھر جسم کی خاطر ذہن، ضمیر اور دل کو مردہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کا کیا کیجیے کہ انسانی دماغ اتنا ماؤف ہوجاتا ہے کہ اتنی سادہ سی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور ضمیر اتنا مردہ ہوجاتا ہے کہ وہ جھنجھوڑتا نہیں؟
ناگہانی موت ایک یاددہانی
اس مقصد کی یاددہانی بلکہ انسان کو اس کے لیے ہر وقت ہوشیار اور تیار رکھنے کے لیے دوسرا انتہائی اہم طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ جسم کی موت کے لیے کوئی خاص وقت، کوئی خاص طریقہ اور کوئی خاص جگہ مقرر نہیں جس کا انسان کو علم ہو۔ یہ موت کسی وقت، کسی جگہ اور کسی بھی طریقے سے آسکتی ہے۔ انسان کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس خاص وقت کے آنے اور اس خاص جگہ پر پہنچنے سے پہلے میں جسم کے تقاضے پورے کرلیتا ہوں اور اس وقت اور اس جگہ کے قریب جاکر میں ذہن و ضمیر اور دل کے تقاضے پورے کرلوں گا۔
سبق آموز واقعہ
ناگہانی جسمانی موت کے سلسلے کی یوں تو ہر کڑی عجیب ہے مگر ایک واقعہ بہت ہی زیادہ تعجب خیز اور سبق آموز ہے، ایک آدھ ماہ پہلے کا سچا واقعہ ہے کہ دیہاتی علاقہ میں بس جارہی ہے، مسافر بیٹھے ہیں، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی۔ اچانک ایک خاتون محسوس کرتی ہے جیسے اس کی شلوار میں کوئی چیزگھس گئی ہو۔ وہ بے چین ہوجاتی ہے۔ قریب ہی بیٹھا ہوا ایک اجنبی مرد اس کی بے چینی کو محسوس کرلیتا ہے، وہ پوچھتا ہے: بہن! کیا بات ہے؟ خاتون بتاتی ہے کہ کوئی چیز اس کی شلوار میں گھس گئی ہے۔ وہ اجنبی اپنے کندھے پر پڑی چادر اسے دیتا ہے کہ وہ اسے باندھ کر شلوار اتار دے تاکہ دیکھا جاسکے کہ اس میں کیا گھس گیا ہے۔ وہ عورت جلدی سے شلوار اتار کر پھینک دیتی ہے۔وہ ہمدرد اجنبی مرد شلوار دیکھنے کے لیے ہاتھ میں پکڑتا ہے کہ اس میں کیا ہے؟ ایک سیکنڈ میں سانپ اس کے ہاتھ پر کاٹ لیتا ہے اور وہ وہیں اسی وقت دم دے دیتا ہے۔
سانپ بس میں آتا ہے، ایک عورت کی شلوار میں گھستا ہے، وہ عورت بچ جاتی ہے مگر وہ مرد جو ہمدردی سے اپنی چادر دیتا ہے وہ مرجاتا ہے اور اس طرح مرتا ہے کہ اسے سیکنڈ کا ہزارواں حصہ پہلے پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے بس میں ایک عورت سے ہمدردی کرتے ہوئے اس خاص وقت میں سانپ کے کاٹنے سے مرنا ہے۔
اس طرح کے سارے واقعات انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کو اپنے جسم کی حقیقت حال اور مآل کا پتہ چل جائے اور وہ اپنے قلب و نظر اور ذہن و ضمیر کی زندگی کا اہتمام کرے۔
اسی مقصد کی خاطر اور اپنی حقیقت کو ذہن میں مستحضر رکھنے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
زوروا القبور فانہا تذکّرُ بالموت۔(ابوداؤد)