فرمان باری تعالیٰ:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ¡(آل عمران:۱۸۵)
’’ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تمہیں قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا، وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے نہ جانے کتنے لوگوںکو دفن کرتے ہیں، اپنی آنکھوں کے سامنے کتنے عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں کے جنازے اٹھتے دیکھتے ہیں اور کتنے تونگروں اور دولت مندوں کو اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتا دیکھتے ہیں جب کہ اس حقیقت سے بھی بہ خوبی آگاہ ہیں کہ نہ تو قبر میں کوئی الماری ہوتی ہے اور نہ کفن میں کوئی جیب، مگر پھر بھی آخرت کی تیاری سے غافل رہ کر اس دنیائے رنگ و بو میں قیامت تک رہنے کی امیدوں کے ساتھ مست رہتے ہیں اور اسی کو اپنی عقل مندی اور دانائی سمجھتے ہیں اور اسی فکر پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں گے، جب تک کہ وہ پانچ باتوں کا جواب نہ دے، (۱) اپنی عمر کہاں صرف کی (۲) جوانی کہاں خرچ کی (۳) مال کہاں سے کمایا (۴) کہاں خرچ کیا (۵) جو کچھ علم سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟ (جامع ترمذی)
حضرت عثمان غنیؓ کے حوالے سے مروی ہے کہ آپ جب کبھی کسی قبر کے پاس جاتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی۔ آپ سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپؓ نے کہا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے بچ گیا تو آگے بھی بچ گیا اور جو اس میں پھنس گیا وہ آگے بھی پھنس گیا، مزید یہ کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میں نے قبر سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ (جامع ترمذی)