آج جب کہ ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب و معاشرت اور غیر اسلامی خیالات و اعمال کا ایک سیلاب امڈا چلا آرہا ہے۔ حکومت کی قوت اور ہماری جاہلیت پسند بہنوں کی مدد سے مغربی تہذیب کا لاؤ لشکر ہمارے درمیان ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ یہ سوچنا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیںکرنا چاہیے وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کی پوری قوت سے اس سیلاب کا راستہ روکیں۔ اس کے سامنے بند باندھیں اور اپنے گھروں کو اس سے بچائیں، اور اپنی اولاد کو اس میں غرق ہونے سے محفوظ رکھیں۔ اپنے مردوں کو اس کی طرف مائل ہونے سے روکیں اور شیطان جو اپنے لاؤ لشکروں کے ساتھ اس سرزمین پر چڑھا چلا آرہا ہے، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، ایسا مقابلہ جو موت یا مکمل فتح پر منتج ہو۔
اب تک ہماری تہذیب اور گھریلو ماحول میں تھوڑے بہت جو اسلامی یا نیم اسلامی اثرات محفوظ ہیں، اُسے کلی طور پر جاہلی اور غیر اسلامی ہونے سے خواتین نے ہی بچایا ہے۔ ہمارے سابق فرنگی آقا کی براہِ راست ہماری معاشرت پر حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی، مگر اب ان مغربی آقاؤں سے مرعوب قیادت ہمیں اسی طرف ہانک کر لیے جارہی ہے۔
خواتین مسلمانوں کے گھر کے اس آخری قلعہ کی قلعہ دار ہیں۔ وہ اس کے دروازے کھول دیں گی تو اس کے مفتوح ہونے میں کوئی شبہ نہ رہ جائے گا۔ خواتین ہی خدانخواستہ اگر چور دروازوں سے مغربی تہذیب کو گھر میں درآمد کرلائیں تومرد بے بس ہوکر رہ جائیں گے۔ خواتین ہی خدانخواستہ دشمن تہذیب سے مرعوب ہوگئیں تو باہر سے کوئی مدافعت نہ ہوسکے گی۔ یہ مسلم خواتین کا فرض ہے کہ وہ اپنے عائلی قلعہ کے دروازے پوری قوت سے اس ظالم، ایمان دشمن مغربی تہذیب و اخلاق پر بند رکھیں۔
اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئیں تو مرد پوری مردانگی اور جانبازی سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ اس مورچے پر خواتین کی پشت پناہی نہ ہوئی تو مرد کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔
ہماری قوم کے اسلام پسند مرد اسلام کی خاطر ایک مسلسل جنگ لڑتے چلے آرہے ہیں۔ ایک شدید جانگسل کشمکش سے وہ دوچار رہے ہیں، اس جنگ کا سارا سیاسی محاذ ان کے سامنے ہے۔ اس پر وہ خواتین کو تکلیف نہ دیں گے، لیکن جس طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت صفیہؓ اور امِّ سلیمؓ اور دوسری محترم خواتین معرکہ کے عین گھمسان میں بھی زخمیوں کو اٹھانے، پانی پلانے اور خیموں کی حفاظت کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں۔ اب بھی خواتین اس سیاسی اور انقلابی جنگ میں اسلام کے خادموں کا سہارا بنیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں چند چیزوں کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلے یہ فہم حاصل کرنا ضروری ہے کہ آپ کس کے خلاف اور کس کی حمایت میں جنگ کررہی ہیں۔ اسلام کیا ہے جس سے آپ کو محبت، عقیدت اور جانبازی کا دعویٰ ہے۔ باطل کیا ہے جس سے آپ کو نفرت، دشمنی اور عداوت ہے یعنی دین کی ضروری فہم حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر آپ اپنے لیے سمتِ سفر متعین نہیں کرسکتیں۔ اپنے ہتھیار کا ہدف مقرر نہیں کرسکتیں۔ اس کے بغیر تو آپ یہ بھی نہیں جان سکتیں کہ خدا اور رسولﷺ کا آپ سے کیا مطالبہ ہے۔ آخرت میں آپ سے کیا سوال ہونا ہے۔ آپ کو کس قسم کی تیاری کرنی چاہیے۔ اس لیے دین کی فہم حاصل کیجیے۔ کم سے کم اتنی فہم جس سے آپ میں اچھائی برائی، نیکی بدی کی شناخت اور امتیاز پیدا ہوجائے۔ یہ ایک انتہائی ضروری اور پہلا مرحلہ ہے۔ جس کے بغیر آپ چار قدم بھی نہیں چل سکتیں اور اگر چل پڑیں تو غلط سمت پر چل پڑنے کا پورا امکان ہے۔ تبلیغ دین کے اس کام میں دین کی فہم نہایت ضروری ہے۔
دوسرا کام یہ ہے کہ خواتین اپنے ان مردوں کے ساتھ رفاقت کا حق ادا کریں جو حق و باطل کی اس کشمکش میں حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ چھائے ہوئے غالب نظامِ زندگی کے خلاف کشمکش کرنا ایک کٹھن کام ہے۔ ایسے شخص کو کانٹوں کے بستر پر سونا ہوتا ہے۔ غلط نظام اس کو چاروں طرف سے بھینچ کر کچل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رشتہ داروں کی پشت پناہی، احباب کی دوستیاں اور رزق کی فراخی ان سب سے اسے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس صورت میں اگر خواتین بھی اپنے گھروں میں ان کے لیے سکون کی فضا فراہم نہ کریں تو یہ ان کے لیے بڑا دشوار مرحلہ ہوگا، اس لیے ایسے مردوں کی رفاقت پر خدا کا شکر ادا کریں اور برے بھلے وقت میں ان کا ساتھ دیں اور اپنے ناحق پرست اور حق و باطل کی کشمکش سے بے نیاز مردوں کو مسلسل ترغیب کے ذریعے کرنے کے اس اہم کام پر ابھاریں۔ مسلسل ترغیب سے خواتین اپنے مردوں سے ہر کام کرالیتی ہیں اور اس کا ان کو خوب تجربہ ہے کہ اس میں وہ کبھی ناکام نہیں رہتیں۔ تو پھر چھوٹے چھوٹے غیر ضروری ذاتی کام جب ترغیب سے ہوسکتے ہیں تو خدا اور رسولؐ کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی اطاعت کا حق ادا کرنے کی ترغیب کیوں نہیں دی جاسکتی۔ اس ترغیب و تبلیغ سے خواتین کا ان کے گھروں میں وقار پیدا ہوگا، جو بہت سی معاشی و معاشرتی مشکلات اور گتھیوں کو سلجھائے گا۔
تیسرا کام یہ ہے کہ خواتین اپنے گھر میں اگنے والی انسانی فصل کو کیڑوں مکوڑوں سے بچا کر اچھی طرح پرورش کریں تاکہ اسے ان کے حقیقی مالک کے کھتّوں میں بھرا جائے اور اس کے وہ کام آئیں۔ وہ اپنے بچوں کو اسلام کا خادم اور شیدائی بناکر اٹھائیں۔ مدت سے جو مال مسلمان معاشرے کے ان گھریلو کارخانوں میں تیار ہورہا ہے، وہ سارے کا سارا ناکارہ مال ثابت ہورہا ہے۔ دنیا میں اس کی قیمت دو کوڑی بھی نہیں پڑتی۔ کبھی مسلمان ان ماؤں کے بچے تھے جن کی سینکڑوں کی تعداد سے بدر فتح ہوتے اور ہزاروں کی تعداد سے روم و ایران فتح ہوتے تھے۔ دنیا ان سے کانپتی تھی، لیکن آج کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان خود دنیا سے کانپتے ہیں۔ یہ آج کے زمانے کی پیداوار ہے۔ اس پیداوار میں جو نقص ہے وہ ایمان کی کھاد کا ہے جو انہیں میسر نہیں آرہی ہے۔ مسلمان خواتین ان اولادوں کو ایمان کا دودھ پلائیں، ہمت وجرأت و شجاعت کا لقمہ دیں۔ خدا ترسی اور تقویٰ کا لباس پہنائیں اور شیر مرد بناکر اٹھائیں اور اس کے لیے خود بھی حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت سمیہؓ کی سنت پر چلنے کا عزم اور اہتمام کریں۔ اگر یہ منظر پیدا ہو تو حسنؓ و حسینؓ جیسے فرزندانِ اسلام پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری موجودہ نسل میں سے جب وہ لوگ ختم ہوجائیں گے، جو اس وقت اسلام کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں، تو نئے سپاہی کہاں سے آئیں گے۔ نئے سپاہیوں کی تیاری کا کام مسلمان خواتین کے سپرد ہے۔
انھوں نے بھی اس اہم کام میں غفلت کی تو یہ مورچہ کیسے قائم رہے گا اور باطل کے خلاف کشمکش کیوں کر جاری رکھی جاسکے گی۔ آخر اس اہم کام سے غافل ہوکر خدا کے ہاں خواتین کیا جواب دیں گی۔ اس لیے اسلام کے موجودہ سپاہیوں کے میدان سے ہٹ جانے سے پہلے پہلے خواتین ایسے سپاہی خود تیار کریں جو موجودہ سپاہیوں کی جگہ لے سکیں۔
ایک اور بات بڑی ضروری ہے، وہ یہ کہ بچوں کے لیے قابلِ تقلید وہ سبق نہیں ہوتا جو خواتین ان کو پڑھائیں بلکہ وہ نمونہ ہوتا ہے جو وہ ان کو دکھائیں۔ ان کے الفاظ میں معنی ان کے عمل سے ہی پیدا ہوں گے۔ اس لیے گھروں میں بچوں کے لیے اچھا ماحول اور اچھا نمونہ اخلاق و اسلام فراہم کرنا بہت اہم ضرورت ہے۔
اسلام کی سربلندی کی جدوجہد میں سردست مالی مشکلات بھی پیش آئیں گی، جس کے سبب بہت سی اسلام پسند خواتین کی بہت سی ایسی خواہشات کو حسرتوں میں تبدیل ہوجانا پڑے گا، جن میں سے ہرخواہش پر ان کا دم نکلتا رہتا ہے۔
ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ مالی مشکلات میں ان کی رفاقت کا پورا پورا حق ادا کریں گی، اپنی بہت سی خواہشات سے دستبردار ہوں گی، تو ان میں سے ہر ہر حسرت آپ کے لیے خدا کے ہاں اجر کا موجب بنے گی۔ آپ اپنی تمناؤں کا بڑا حصہ جنت کے لیے رکھیے اور یہاں قلیل ترین مقدار جو آسانی سے پوری ہوسکے، بس اسی پر مطمئن ہوجائیے۔
مسلم خواتین کو بدی کی طاقتوں کے خلاف بھی منظم ہونا چاہیے، جس طرح بد ی کو فروغ دینے کے لیے خواتین کی تنظیمیں ہیں اور وہ شیطان کی چاکری میں مستعدی کا اظہار کرتی ہیں، اسی طرح خواتین کو صف بستہ ہوکر رحمن کی چاکری کا حق بھی ادا کرنا چاہیے۔
وہ خواتین جو دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کررہی ہیں اور وہ تہ دل سے مسلم معاشرے میں اللہ کے کلمے کو سربلند دیکھنے کی متمنی ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ مل کر کام کیجیے، ان کو مشورے دیجیے، اس کام کو اپنا کام سمجھئے۔ ایسا کام جو آپ کی دنیا پر ہی نہیں بلکہ آخرت پر بھی اثر انداز ہونے والا ہے۔ ان کی تنظیم میں زیادہ سے زیادہ بہنوں کو لاکر شامل کیجیے اور اسلامی تحریک کے ہوم فرنٹ کو مضبوط کیجیے۔ اپنے اس کام کو ایسے منظم طریق پر سلیقے کے ساتھ چلائیے کہ پڑھی لکھی خواتین میں اس کا چرچا چل جائے۔ ایسا ہی چر چا جیسے کسی نئے فیشن کا فیشن زدہ خواتین میں چل جایا کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اس ملک میں مسلمانوں کی ان بھری آباد بستیوں میں، سب سے زیادہ غریب الوطن کوئی ہے تو وہ اسلام ہے۔ وہ مسلمانوں کے درمیان تنہا ہے۔ وہ اپنی محبت کا اعلان کرنے والوں کے درمیان پردیسی ہے۔ اس کے اپنے نام لیوا اس کا نام لے لے کر اس کا راستہ روکتے ہیں۔ اس کی منشا کے خلاف اس کے چاروں طرف حرکتیں کرتے اور گل کھلاتے ہیں۔
اس پردیسی کی مدد کیجیے۔ اس کے لیے محنتیں، مشقتیں، اوقات، مال اور جانیں لگائیے۔ اس کے لیے راستہ ہموار کیجیے۔ اس کا محل تعمیر کیجیے اور اس کی تعمیر میں اگرہماری ہڈیاں اینٹوں کا کام دیں اور ہمارا خون گارے کا کام دے، تو اس سعادت کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ اس لیے کہ یہ سعادت اس قوم کے صالح عناصر کو صدیوں کے انتظار کے بعد ہاتھ آئی ہے۔ یہ تاریخ کا نازک دوراہا ہے اور آپ کو اس کام پر اپنا تاریخی فرض ادا کرنا ہے۔ اسلام کو قائم کرنے کی جدوجہد انقلابی جدوجہد ہے اور اسلامی انقلاب ہی انسانیت کا مطلوب انقلاب ہے۔ آپ اس انقلاب کا ہراول دستہ بن جائیے۔
——