اس وقت پوری دنیا کو کسی ایسی ہستی کی اشد ضرورت ہے جو انسانیت کو ظالمانہ مادی طوفان سے نجات دلا سکے۔ جو اخلاقی تباہی، روحانی خلا، معاشرتی ظلم اور نسلی امتیاز کی دلدل سے باہر نکال سکے، جو انسانیت کو اصول و قانون اور اقدار و روایات کی پامالی سے روک سکے۔ اس پامالی نے انسان کو تھکا ڈالا ہے، اس کو حقوق وے محروم کر رکھا ہے اور عزتِ نفس کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ انسان کو تعذیب و تشدد سے دو چار رکھنے تک جا پہنچا ہے۔ حتی کہ دین، اخلاق اور ضمیر کی آواز کو خاطر میں لائے بغیر بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون بہانا اور انہیں قتل کرنا معمول بن گیا ہے۔
برباد ہوتی انسانیت کو اس بدترین صورتِ حال سے وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے فرستادہ رسول کی ہدایت کے سوا کوئی نجات نہیں دلا سکتا، اور یہ رسول حضرت محمدﷺ کے سوا کوئی نہیں۔ کیوں کہ آپؐ ہی نبی آخر الزماں اور رحمت للعالمین ہیں۔
آپؐ ہی قیامت تک آخری نبی ہیں۔ آپؐ اپنی رسالت کے دائمی اور عالم گیر ہونے کے اسباب ساتھ لے کر آئے۔ آج دنیا کے ایک حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ رابطہ نہایت آسان ہوچکا ہے، لہٰذا رسول کریمﷺ کی اس پیش گوئی میں آپؐ کی رسالت کے عالم گیر پھیلاؤ کی خبر سچ ثابت ہوچکی ہے۔ ’’یہ دین وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں جہاں رات دن کا سلسلہ قائم ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’یہ دین کسی شہری، دیہاتی اور پتھر کے عہد کے گھر میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔‘‘
رسول کریم حضرت محمدﷺ کو ۴۰ برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپؐ نے عمر کے اگلے ۲۳ برس اس طرح گزارے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ طریق زندگی کو سب سے پہلے اپنی ذات پر نافذ کیا، پھر اپنے اہل خانہ پر، پھر اپنے صحابہؓ پر اور پھر تمام لوگوں پر اس کا نفاذ فرمایا۔ آپ لوگوں کے درمیان رہتے اور انہیں یہ تعلیم دیتے رہے کہ آسمانی طریق کے مطابق زمین پر زندگی کیسے گزاری جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے عقیدے کو درست کرتے رہے، عبادات کی وضاحت کرتے رہے، اخلاقی رویوں کی اصلاح کرتے رہے اور لوگوں کے کردار کو بہتر بناتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت نافذ کرتے اور معاملات کو سدھارتے رہے۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد پوری انسانیت کے لیے عدل و مساوات کو ممکن بنانا تھا تاکہ انسان بیک وقت دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرسکیں۔ ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘
آپؐ واحد نبی ہیں جن کے ہر قدم وعمل بلکہ خاموشی پر مبنی کیفیت کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔ یہ عمل آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے پورے ۶۳ برس کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے ساتھ آپؐ کی سنت کو بھی تمام انسانیت کے لیے قیامت تک دائمی ہدایت کے طور پر باقی رکھنا تھا۔
نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ نے امت کو عدم سے وجود میں لاکر اور اسے کمال کے درجوں پر پہنچا کر دکھایا۔ پھر اس امت کی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اصولوں نے دنیا کی قیادت کی اور تین براعظموں پر اس کی حکمرانی کا دور دورہ رہا۔ یہ سب کچھ صرف تیس برس سے بھی کم عرصے میں ہوا۔ اس کے بعد اس امت کا نور مزید پھیلا اور مشرق ومغرب کی تمام تر انسانیت کو منور کرتا رہا۔ یہ نور یورپ پہنچا تاکہ اسے قرونِ وسطیٰ کے اندھیروں سے نکال کر تہذیب و تمدن کی روشنی میں کھڑا کردے۔ آپؐ نے انسانوں کے ذہن میں ایک توازن قائم فرمایا، تاکہ انسان کو نفسیاتی سکون مہیا ہوسکے۔
رسولِ کریم محمدﷺ نے انسان کے لیے گھریلو امن و سکون کو ممکن بنا دیا۔ آپ نے انسان کے فطری تقاضے کی تکمیل، نفس کی پاکیزگی اور معاشرے کی تطہیر کے ساتھ زمینی آبادی کی غرض کو پورا کرنے کے لیے شادی کا حکم دیا۔آپؐ نے شادی کے بندھن کو اس قدر اعلیٰ تقدس عطا کیا کہ اسے پختہ معاہدے (میثاقاً غلیظاً) کا نام دیا۔ آپؐ نے میاں بیوی کے تعلقات کو گھر کی سربراہی، اخراجات، بچوں کی نگہ داشت اور وراثت کے امور کی صورت میں باقاعدہ قانونی نظام کا پابند کر دیا۔ آپؐ نے انسان اور اس کے ماحول کے درمیان بھی ایک توازن قائم کیا۔ یہ توازن انسان کو کائنات کے وسائل سے استفادے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری بھی سونپتا ہے۔ کیوںکہ اس ماحول میں صرف ایک ہی انسان کے حقوق نہیں ہیں بلکہ کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین میں خرابی پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے: ’’زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے۔‘‘ (الاعراف:۵۶) بلکہ زمین کی آبادکاری اور اس کی بہتری و ترقی کا حکم فرمایا گیا۔آپؐ نے کاشت کاری کی ترغیب اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا حکم دیا۔ آپؐ نے یہ عمل اس وقت بھی انجام دینے کا حکم فرمایا جب قیامت قائم ہوجائے۔ فرمایا: ’’جب قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں شجر کاری کے لیے کھجور کا ایک پودا ہو تو بھی وہ اسے کاشت کردے۔‘‘
آپؐ نے حالتِ جنگ میں بھی آبادی کی حفاظت اور اس کے اوپر رحم کا حکم دیا ہے۔ ’’اللہ کے نام پر لشکر کشی میں کسی بچے، عورت اور عمر رسیدہ بوڑھے کو قتل نہ کرو، کسی مکان کو مسمار نہ کرو اور کسی درخت کو نہ کاٹو۔‘‘ رسول کریمﷺ کی یہ رحمت و شفقت انسان سے شرو ع ہوئی اور حیوان تک کے لیے عام ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو بخش دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا جو پیاس کی شدت سے کیچڑ کھا رہا تھا۔‘‘ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’ہر زندہ چیز کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر تمہارے لیے اجر ہے۔‘‘
اسی بنا پر انگریزی مورخ ولیم میور نے اپنی کتاب Life of Muhammad میں کہا ہے: ’’محمدؐ اپنی بات کے واضح ہونے اور دین کے آسان ہونے کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ نے کاموں کو ایسے مکمل کر دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تاریخ نے کوئی ایسا مصلح نہیں دیکھا جس نے مختصر ترین عرصے میں اس طرز پر دلوں کو بیدار کیا ہو، اخلاق کو زندگی بخشی ہو اور اخلاقی قدروں کو بلند تر کر دیا ہو، جس طرح پیغمبر اسلام (حضرت) محمدؐ نے کرکے دکھایا۔‘‘
عظیم روسی فلسفی ٹالسٹائی نے کہا: ’’محمد تو ایک بانی اور رسول ہیں۔ آپؐ ان عظیم ترین افراد میں سے ہیں جنہوں نے انسانی معاشرے کے لیے جلیل القدر خدمات انجامدیں۔ آپؐ کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ آپؐ نے پوری انسانیت کی نورِ حق کی طرف رہ نمائی کی۔ اسے سکون و سلامتی سے ہم کنار کر دیا اور اس کے لے تہذیب و ترقی کی شاہراہ کھول دی۔‘‘
امریکی دانش ور مائیکل ہارٹ کہتا ہے:
’’محمدؐ تاریخ انسانی میں واحد انسان ہیں جنہوں نے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامل کامیابی حاصل کی اور سیاسی و عسکری قائد قرار پائے۔‘‘
فرانسیسی فلسفی والٹر کہتا ہے: ’’محمدؐ جتنے طریقے بھی لائے وہ تمام نفس کو مطیع کرنے اور اسے مہذب بنانے والے ہیں۔ آپؐ نے حیرت انگیز حد تک ان طریقوں کا حسن و جمال دین اسلام میں پیدا کیا۔ اسی لیے تو دنیا کی متعدد قومیں اسلام لے آئیں۔ حتی کہ وسط افریقہ کے زنگی اور جزائر بحر الکاہل کے باشندوں نے بھی اسلام کے سائے تلے سکون محسوس کیا۔‘‘
معروف انگریز مصنف برنارڈشا کہتا ہے: ’’آج دنیا کو محمدؐ جیسی شخصیت کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کے پیچیدہ مسائل کو اتنی دیر میں حل کردے جتنی دیر چائے کی ایک پیالی پینے میں لگتی ہے۔‘‘ وہ کہتا ہے: ’’یورپ اب محمدؐ کی حکمت و دانائی کو محسوس کرنے اور ان کے دین کی طرف کھنچنے لگا ہے۔ اسی طرح یورپ اسلامی عقیدے کو ان الزامات سے بھی جلد پاک کردے گا جو قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے دروغ گو افراد نے لگائے۔ محمدؐ کا دین ہی وہ نظام ہوگا جس کے اوپر امن و خوش حالی کے ستون استوار ہوسکیں گے۔ پیچیدہ مشکلات کے حل اور گنجلک امور کی عقدہ کشائی کے لیے فلسفۂ اسلام ہی کا سہار الیا جائے گا۔‘‘ … برنارڈشا نے تو خوش خبری میں یہاں تک مبالغے سے کام لیا ہے:
’’میرے ہم وطن اور دیگر یورپی کثیر تعداد میں اسلام کی تعلیمات کو مقدس جانیں گے۔ اسی لیے تو میرے لیے یہ ممکن ہوا ہے کہ میں یہ خوش خبری دوں کہ اسلامی عہد کی ابتدا قریب ہے۔‘‘
دنیائے مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنے دانش وروں کی آواز اور فلسفیوں کے اقرار و اعتراف کو سنے اور رسولِ خدا حضرت محمدﷺ کو برا بھلا کہنے کے بجائے علمی اور شائستہ انداز میں آپؐ کا تعارف حاصل کرے، تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ حضرت محمدؐ ہی کی رسالت واحد رسالت ہے، جو ان کی مادی تہذیب کو روحانی ترقی اور اخلاقی بلندی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ یہی انہیں آخرت کی سعادت، دنیا کی فلاح اور قلب و ضمیر کا اطمینان و سکون فراہم کرسکتی ہے۔
ہر محب رسولؐ پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ حقیقتاً آپؐ کا پیغام بردار بنے اور پوری امانت داری کے ساتھ آپؐ کی دعوت کو حقیقت کے متلاشیوں تک پہنچائے اور دنیا میں پھیلا دے۔ وہ دنیا جو آج ایک گاؤں بن گئی ہے، جس میں انفرادی و اجتماعی ربط و تعلق کے ذرائع اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم رسولِ خداؐ کی ہدایت کو دنیا کے تمام گوشوں میں پھیلا دیں تاکہ آپؐ کا یہ نور تمام دنیا میں پھیل جائے۔
’’کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔