موجودہ دور کا فتنہ – ٹی وی سیریلز

فوزیہ متین، الخبر

میڈیا کے اس دور نے قوموں اور ملکوں کو قریب سے قریب تر کردیا ہے۔ انسان تمام ملکوں کی سیر گھر بیٹھے کرلیتا ہے، اسی کو گلوبل ویلیج بھی کہا جاتا ہے۔ ہر دور میں انسان نے ترقی کے مدارج طے کیے ہیں۔ ہر آنے والا زمانہ اپنے اندر کچھ نہ کچھ نئی ایجادات لے کر آتا ہے۔

موجودہ دور میں یوں لگتا ہے کہ گویا سب کچھ اسی زمانے میں ایجاد ہوچکا، کیا ترقی اور ایجادات کا مقصد صرف اور صرف تفریح ہونا چاہیے؟ کیا واقعی موجودہ دور ترقی یافتہ کہلانے کے قابل ہے؟ اگر مادی ترقی ہی سب کچھ ہوتی تو پھر آج کے انسان پر سکون ہوتے! لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ ڈپریشن کا شکار بھی اسی ترقی یافتہ دور کا انسان ہے۔ ہر ایک بے قرار اور پریشان نظر آتا ہے۔ بقول شاعر:

ماہر یہ جدتیں یہ ترقی پسندیاں

جتنے بھی عیب تھے وہ ہنر ہوکے رہ گئے

کوئی بچوں کی پریشانی کا رونا روتا ہے تو کوئی دوسرے لوگوں کی بے اعتمادی سے پریشان ہے۔ کسی کی بیوی شوہر کی بے اعتنائی کا شکوہ کرتی ہے تو کوئی شوہر بیوی کی مصروفیات کا شکوہ کرتا ہے۔ کہیں اولاد والدین کی لاپرواہی کا شکار ہے تو کہیں بوڑھے والدین اولاد کی ان کے لیے بے توجہی پر آنسو بہاتے ہیںگھر کے افراد کا گھر کے ہی افراد سے شکوہ اب عام بات ہوتی جارہی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اسلام وہ واحد دین فطرت ہے جو ایسے بنیادی اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے جن پر چل کر حضرت انسان کی دینی و دنیاوی زندگی میں اطمینان میسر آتا ہے۔ آج اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ جس چیز میں ہم منہمک ہیں وہ ہے میڈیا اور اس کے ذریعہ فراہم کردہ تفریح۔ چاہے وہ نیوز چینل ہو یا ٹی وی سیریل۔ انھوں نے گھر کے افراد کو ہی ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میڈیا نے تمام دنیا کے لوگوں کو قریب کردیا ہے۔ لیکن اسی میڈیا نے گھر کے افراد کو ایک دوسرے سے کافی دور بھی کردیا ہے۔ ایک گھر میں رہ کر بھی افراد کے درمیان تعلقات کمزور ہوتے جارہے ہیں۔

ٹی وی سیریلز کا نشہ

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ برصغیر ہندوپاک میں کیبل کا حصول کتنا آسان بنادیا گیا ہے۔ ضروریاتِ زندگی کے لیے تو ہمیں کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے لیکن کیبل بہت ہی آسانی سے اور سستے داموں ہر محلہ میں دستیاب ہے۔ کیوں؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ اس ثقافتی مار کے پیچھے کون کون سی قوتیں کارفرما ہیں؟ ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان کو تعمیری فکر سے دور اور اخلاقی اقدار سے نا آشنا بنادیا جائے اورڈراموں اور فلموں کی کشش میں لوگ کھوئے رہیں۔ دوسرے لوگ اگر اس لہو و لعب میں مبتلا رہیں تو رہیں کہ یہ ان کا کلچر ہے۔ لیکن ہمارے مسلم گھرانوں کے افراد بھی دوسروں کی طرح اس میں مشغول ہوجائیں یہ حیرت اور افسوس کا مقام ہے۔ یہ ڈرامے کس طرح ہمارے اچھے بھلے معاشرے کو گھن کی طرح اندر ہی اندر کھوکھلا کررہے ہیں اس کا اندازہ ہم بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کی حرکات و سکنات سے لگاسکتے ہیں۔

آج اسٹار پلس اور سونی چینلس کے ڈرامے (سیریلز) اتنے مقبول عام ہیں کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

سیریلس کے اثرات ہمارے گھروں پر

ٹی وی ڈرامے بنانے والی مشہور بھارتی کمپنی بالاجی ہے اس کی اہم ڈائرکٹر ایکتا کپور جو کہ غیر شادی شدہ خاتون ہے اکثر ہندو مذہب کے تشخص کے طور پر گہرے گیروے رنگ کے کپڑے زیب تن کیے رہتی ہے۔ سیریلس کی کہانی سے ہی سیریل بنانے والی کی ذہنیت معلوم ہوتی ہے۔ اسلام مخالف قوتوں کی یہ چال ہے کہ مسلمان گھروں سے نماز اور قرآن کو نکلوا کر اس کی جگہ فحش قسم کے گانے اور بھجن پہنچادیں۔ ہماری سادگی اور لاعلمی پر افسوس صد افسوس کہ ہم غیر محسوس طریقہ پر ان کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں۔ غیروں نے پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتایا ہم نے ان کے کہنے پر اپنے برقعوں کو خیر باد کہا۔ انھوں نے برابری کا نعرہ دے کر مخلوط پارٹیاں کرنے کا حکم دیا اور ہم نے ان کی بات پر لبیک کہا۔ ایک نماز اور اذان ہی رہ گئی تھی اب اس پر بھی اس طرح حملہ آور ہوئے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ ادھر اذان ہورہی ہے اور ہمارے گھروں میں بلند آواز ٹی وی جاری ہے۔ ادھر مسجد میں جماعت کھڑی ہے اور ہم اور ہمارے نوجوان ٹی وی پروگرام میں مست ہیں۔

عام مسلم گھرانوں کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر لوگ اس لعنت کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ان ڈراموں کی کشش انہیں اس سے پیچھا نہیں چھڑانے دیتی۔

سیریلس کی یہ لعنت اتنی عام ہوتی جارہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ایک صاحبہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ ان کی۳ سالہ لڑکی ایک دن دونوں ہاتھ جوڑ کر (پوجا کی شکل میں) ہاتھ اٹھا کر گھر میں داخل ہوئی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایک سیریل بعنوان ساس بھی کبھی بہو تھی کی وہ شائق تھی اور اس میں اس نے کرداروں کو اس طرح کرتے دیکھا تھا۔

ہم غیر محسوس طریقہ پر ہندو کلچر کو اور ان کے طریقوں کو اپنے گھروں میں لارہے ہیں جن کے منفی اثرات ہمارے گھروں میں بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہماری مسلم خواتین جن پر پوری نسل کو سنوارنے کی عظیم ذمہ داری ہے وہ ان سیریلس میں منہمک ہوجائیں تو صالح تربیت کا عظیم کام کون انجام دے گا۔ بچوں کی صحیح اسلامی تربیت کیسے ممکن ہوگی؟ ظاہر سی بات ہے کہ بچے وہی سیکھیں گے جو وہ دیکھتے اور سنتے ہیں۔ وہ تو ایک کورے کاغذ کی مانند ہیں کہ آپ جس طرح چاہیں ان میں رنگ بھردیں۔

بچہ اپنے بچپن کی باتیں کبھی نہیں بھولتا اس کا دماغ ایک سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے جس پر جو چاہیں لکھ دیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک چھوٹے سے پودے پر اگر کوئی نشان بنا دیا جائے تو وہ تناور درخت بننے کے بعد بھی اس پر موجود رہتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’والدین اپنی اولاد کو جو سب سے بہترین تحفہ دے سکتے ہیں وہ ہے ان کی صالح تربیت۔‘‘

ٹی وی سیریلس کی بدولت زوجین کے تعلقات میں بگاڑ

ان ٹی وی سیریلس میں جو چیز سب سے برے طریقے سے بتائی جاتی ہے وہ ہے میاں بیوی کے تعلقات۔جب ہماری خواتین دن رات وہی سیریلس دیکھتی رہیں گی تو نتیجتاً اس کا اثر ان کی گھریلو زندگی پر بھی ہوگا۔ سیریلس کو اتنا چٹ پٹا بنادیا گیا ہے کہ ہر کوئی اس کی رنگینی میں گم ہے۔ ان سیریلس کی شکار ہماری نونہال لڑکیاں اور خواتین تو ہیں ہی ریٹائرڈ مرد حضرات کی بھی ایک کثیر تعداد ان میں شامل ہے جو بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ ان سیریلس میں ازدواجی زندگی کی پامالی اور فحش کپڑوں کو خوشنما بناکر دکھایا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات میں خرابی، شوہر بیوی پر شک کررہا ہے تو بیوی شوہر پر، گھریلو جھگڑے اور اسی طرح کے معاملات ان سیریلس میں عام طور سے بتائے جاتے ہیں۔ جبکہ میاں بیوی کا تو رشتہ ہی اعتماد پر قائم ہوتا ہے۔ اب صورت حال یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہمارے مسلم گھرانوں میں عام رواج ہے کہ گھر کے تمام لوگ چاہے وہ بڑے بوڑھے ہوں یا دوسرے افراد تمام فیملی مل کر یہ ڈرامے دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ڈرامے ’’کسوٹی زندگی کی‘‘ کے خلاف غیر مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا۔ اس کی اصل وجہ وہ حیا سوز اور فحش لباس ہیں جو اس ڈرامے میںدکھائے گئے ہیں۔ آج انہی فحش ملبوسات کے غلط اثرات ہماری اچھی بھلی نوجوان بیٹیوں پر تو پڑہی رہے ہیں اکثر عمر رسیدہ خواتین بھی ایسا ہی لباس زیب تن کرتی پائی گئی ہیں۔ تنگ لباس، کٹ آستین، شارٹ کرتا وغیرہ وغیرہ پہننا ہم ترقی سمجھنے لگے ہیں۔

مسلم خواتین کو چاہیے کہ اس برائی سے بچی رہیں۔ اسلام کی نگاہ میں وہ لباس درحقیقت لباس نہیں ہے جو اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرتا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی برہنہ رہیں اور دوسروں کو رجھائیں اور خود دوسروں پر ریجھیں اور بختی اونٹ کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کرکے چلیں وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی بو پائیں گی۔‘‘ (مسلم)

سیریل کی ہر قسط میں برتھ ڈے پارٹی ایک سال گرہ اور ایک بھجن یا پھر کوئی ایک تہوار ضرور دکھایا جاتا ہے۔ کیا برتھ ڈے پارٹیز اور اینورسریز روز مرہ کا معمول ہوسکتے ہیں؟ اسلام اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا یہ سب مغربی کلچر ہے۔ جس نے تیوہاروں کو اپنی سیلنگ اور بزنس کا ذریعہ بنایا لیاہے۔ یہ دیکھنے کے بعد ہماری ایک عام گھریلو خواتین بھی یہ خواہش کرتی ہیں کہ ان کا بھی بڑا گھر ہو اس قسم کی تقریبات منائی جائیں اور شوہر ا نھیں قیمتی تحفے دیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم ان جانے میں ایسے کلچر کو رواج دے رہے ہیں جو کہ ہمارا نہیں ہے اور جو قومیں دوسری قوموں کی نقالی کرتی ہیں یا ان سے متاثر ہوتی ہیں تو پھر وہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ بقول شاعر:

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے۔‘‘ (احمد، ابوداؤد)

ڈرامے لہو الحدیث کے زمرے میں

لہو الحدیث کے معنی ہوتے ہیں ایسا بے کار کام جس کا نہ کوئی دینی فائدہ ہو نہ دنیاوی۔ سورہ لقمان آیت ۶ میں ارشاد باری ہے :

ومن الناس من یشتری لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ۔

’’اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید لاتا ہے تاکہ وہ بھٹکائے اللہ کے راستے سے بغیر علم کے۔‘‘

شیطان نے ہمیں اس لہو الحدیث میں اس طرح الجھا دیا ہے کہ ہم اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ یہ ٹی وی سیریلس لہو الحدیث کے زمرے میں ہی آتے ہیں کہ یہ وہ چیز ہیں جو اللہ کی یاد سے غافل کردے۔ اور انسان اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائے۔ اللہ نے جن اور انس کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ ہمارا اصل مقصد تو دین سیکھنا اور سکھانا اور اس کی تبلیغ ہے۔

ہماری نوجوان نسل پر اس کے اثرات

ان ڈراموں سے سب سے زیادہ مرعوب ہماری نوجوان نسل ہورہی ہے جبکہ یہی لڑکیاں آگے چل کر ایک خاندان کی بنیاد ڈالتی ہیں۔ اگر ان کے ذہن اس ثقافت کے عادی ہوگئے تو یہ اپنے بچوں کی اور خاندان کی کیسے تربیت کریں گی؟ ماں کی گود تو بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ سب سے بیہودہ چیز جو ان سیریلس میں دکھائی جاتی ہے وہ ہے بغیر شادی اور نکاح کے، قبل از وقت ماں بننا۔ اس قدر قابل مذمت اور شرمناک فعل میں والدین کے تعاون تک کو ان سیریلس میں اجاگر کیا جاتا ہے۔

کسی ڈرامے میںساس بہو کی لڑائی تو کسی میں ماں بیٹی کی اور کسی میں میاں بیوی کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں انتشار پھیلتا جارہا ہے۔ طلاق کی شرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اسلام تو ہمیں اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، حسن اخلاق کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ خدمت میں ہی عظمت ہے۔ آج ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے موضوع گفتگو یہی ڈرامے اور کہانیاں ہیں اور اس کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم ان سے دوسری قوموں کے سیریلس جیسے ’’رامائن، مہابھارت‘‘ کے بارے میں پوچھیں تو انہیں تفصیل سے معلوم ہوگا۔ تمام پروڈیوسرس اور ڈائرکٹرس کے نام وہ اچھی طرح جانتی ہیں۔ اس کے برخلاف اگر ہم ان سے صحابیات کے نام پوچھ لیں تو جواب مشکل ہی سے ملے گا۔ شرم و حیا جیسے ناپید ہوتی جارہی ہے ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

ہمارے لیے اور ہماری بیٹیوں بہنوں کے لیے قابل تقلید فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی جلیل القدر صحابیات ہونی چاہئیں۔ ہماری بیٹیاں یہ سب تعلیمات کس سے سیکھیں؟ کون انہیں بتائے گا کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے؟ گھر کے تمام افراد کو ٹی وی ڈراموں سے فرصت نہیں تو کون ان کی تعلیم و تربیت کرے گا؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے اور اپنے دائرہ عمل کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (بخاری)

ایک زمانہ تھا بچے صبح بیدار ہوتے تو اذان یا تلاوت قرآن سنا کرتے اور جب وہ سوتے تو مائیں انہیں دعائیں اور قرآنی سورتیں پڑھایا کرتیں۔ اخلاقی کہانیوں سے بچوں کے ذہنوں کو معطر کرتیں لیکن آج بچوں کے دن کی ابتداء انہی فحش پروگراموں سے ہوتی ہے اور انہی پروگراموں کا مشاہدہ کرتے ہوئے وہ رات کو نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ صبح بیدار ہوتے ہی وہی ٹی وی، وہی ڈرامے۔

عبادات پر ڈراموں کا اثر

یہ انسانی فطرت ہے کہ جن چیزوں میں انسان کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے اس کے اثر کو وہ بہت دنوں تک اپنے ذہنوں میں رکھتا ہے۔ اسی طرح ان ڈراموں کے اثرات ہماری نمازوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی بجائے ان ڈراموں کی باتیں ذہن میں شیطان کسی نہ کسی طرح لے آئے گا۔ ایک سروے کے مطابق اکثر خواتین اپنے گھریلو کام حتی کہ نمازیں تک ان ڈراموں کے اوقات کے حساب سے سیٹ کرتی ہیں کہ فلاں سیریل دیکھنے کا وقت ہورہا ہے جلد از جلد نماز پڑھ لی جائے۔

جب فرض نمازیں ہی جیسی تیسی پڑھی جائیں گی تو قرآن پڑھنے، اس کی آیات میں تدبر کرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا ہمیں موقع کب ملے گا؟ سورہ نور میں ارشاد باری ہے کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ یہ ٹی وی سیریل سب شیطان کے ہتھکنڈے ہیں جسے خوشنما اور پرکشش بناکر وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اللہ سے دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۰۸)

تدارک

حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر کوئی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘

٭ شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں پر نظر رکھے کہ گھر میں نماز کا اہتمام ہورہا ہے یا نہیں؟ گھر میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کا سبب بنے نہ کہ بگاڑ کا۔ اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ جو ٹی وی اس نے گھر میں لاکر دیا ہے اس سے گھر کا ماحول بن رہا ہے یا بگڑ رہا ہے۔ مرد سوچے کے وہ یایہا الذین آمنوا قوا انفسکم واہلیکم نارا کی ذمے داری کے لیے حساس ہے یا نہیں۔ وہ مسؤل ہے اپنے گھر والوں کا۔ وہ اس کی ضمانت دے کہ گھر والوں کی اور بچوں کی دینی تربیت کا انتظام ہورہا ہے یا نہیں؟

٭کیبل کنکشن کا مفید استعمال صرف اور صرف دینی و معلوماتی پروگرامس کے لیے ہو ورنہ اس سہولت کو ختم کرلے۔

٭ گھر کے فارغ افراد کو اس طرح مشغول کریں کہ ان کا وقت تعمیری کاموں میں صرف ہو۔

٭بلاناغہ روزانہ ایک نظم ہو کہ وقت مقررہ پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے۔

٭اگر آپ سفر کررہے ہوں تو بچوں سے قرآنی آیات یا دینِ اسلام کی باتیں کریں۔

٭ بچوں کو اسلامی تاریخ سے واقعات سنائے جائیں۔

٭کوئز کیے جائیں اور ان کی ہمت افزائی کے لیے تحفے دئے جائیں۔

٭ ہماری بیٹیوں کو صحابیات کے واقعات سنائے جائیں اور اسلام سے محبت ان کے دلوں میں اجاگر کی جائے، ان میں خود اعتمادی پیدا کریں اوران کی ذہنی تربیت کے لیے ماحول ساز گار کیا جائے۔

٭ دین کی ترقی اس کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے نئے نئے طریقے (آئیڈیاز) سنجیدگی سے سوچیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے:

چھوٹے ذہن لوگوں کو موضوع بحث بناتے ہیں۔

درمیانی ذہن واقعات پر بحث کرتے ہیں۔

اور عظیم ذہن افکار و خیالات پر بحث کرتے ہیں۔

٭آج کل والدین حجاب کو اتنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ بے پردگی کو بولڈنیس اور خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اپنی بیٹیوں کی طرف سے غفلت نہ برتیں، اور سختی سے حجاب کی پابندی کروائیں۔

٭ ٹی وی کا صحیح استعمال کریں۔ اسے تلاوقت قرآن یا دروس سننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ بچوں کو کارٹون سیریلس کی لعنت سے بچائیں۔

٭ سیریلس میں نامحرمات کے ساتھ جس طرح تعلقات دکھائے جاتے ہیں، اپنی بیٹیوں کو سمجھائیں کہ یہ اسلامی شعار نہیں ہے۔ نامحرمات سے تعلقات چاہے وہ گھر میں ہوں یا باہر (کالج) میں، کے بارے میں ضرور سمجھائیں۔

ایک لڑکی کی تعلیم و تربیت دراصل پورے خاندان کی تعلیم ہے۔ نیپولین نے کہا تھا: ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘

کسی بھی قوم میں انقلاب اس کے نوجوانوں کی بدولت رونما ہوتا ہے۔ گھر کی خواتین کی خاص طور پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی گودوں میں پلنے والی نسل کو انقلابی اور صالح انقلاب کی نقیب بنائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146