ہندوستانی سماج پر نظر ڈالیں تو عورت کی تین تصویریں یہاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ایک انتہائی اعلیٰ درجہ کی عورت جو ماڈرن اور دولت مند طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور جسے ہر طرح کی آزادی اختیارات اور جملہ ’سہولیات‘ میسر ہیں اور وہ فیشن و عریانیت اور ہوس پرستی کے تالاب میں ناک تک ڈوبی ہوئی ہے۔ دوسری وہ عورت جو درمیانی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے اول درجہ کی عورت کی طرح نہ آزادی میسر ہے اور نہ حقوق و اختیارات کی وہ طاقت جس کی بنیاد پر وہ اپنی شخصی آزادی کااستعمال کرسکے، البتہ اسے زندگی گزارنے کے لیے بنیادی ضروریات فراہم ہیں اور وہ اپنی حالت پر مطمئن اور خوش ہے باوجود اس کے کہ اسے گھر اور خاندان میں ایک ملکیت سے بڑھ کر درجہ حاصل نہیں اور یہ کہ وہ سماج میں مردوں کا ضمیمہ بن کر زندگی گزارتی ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں کہ اس کی ذات کیا ہے لیکن اس کی ذہنی ساخت اس طرح کی بن گئی ہے کہ اس نے سب کچھ ’فطری‘ سمجھ کر قبول کرلیا ہے اور اسے اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں کہ حقوق کیا ہیں اورعورت کی ذات و شخصیت چہ معنی دارد۔ تیسری عورت وہ ہے جو سڑکوں کی تعمیر بلند و بالا عمارتوں کے بنانے اور ’قومی ڈولپمنٹ‘ میں اپنی زندگی، آرزوؤں اور بنیادی ضرورتوں کا خون اور اپنے جسم کا پسینہ بہا کر ’ملکی ترقی‘ میں ’اپنی محنت‘ لگا رہی ہے۔ اس کا ٹھکانہ کبھی سڑکوں کے کنارے بنی پلاسٹک کی جھگیاں ہوتی ہیں تو کبھی بلند وبالا زیر تعمیر عمارتوں کے سایے میں ٹین شیڈ سے بنے اندھیرے کوٹھرے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی نسلیں کیڑے مکوڑوں اور آوارہ جانوروں کی طرح سڑکوں پر پل کر جب شعور سنبھالتی ہیں تو پیٹ کی بھوک انہیں ستاتی محسوس ہوتی ہے اور پھر یا تو وہ کوڑے کے ڈھیر سے کچرا چن کر ملک کی ’معاشی ترقی‘ میں اپنا ’یوگ دان‘ کرتے ہیں یا والدین ہی کے ساتھ گارا مٹی اور سیمنٹ و کنکریٹ ڈھوکر اپنا پیٹ پالنے لگتے ہیں۔ غربت و افلاس ان کا مقدر ہے اور پیٹ کی بھوک بجھاتے ہوئے مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہوکر مرنا ان کی آخری منزل۔
ان تینوں طبقوں کی خواتین کے مسائل بھی الگ الگ ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی توجہات ویلفیئر اسکیموں اور خواتین کے امپاورمنٹ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا تناسب بھی مختلف ہے۔
جدید، ماڈرن، تعلیم یافتہ، مغرب زدہ اور مہذب تصور کی جانے والی فیشن زدہ خواتین کے مسائل میں جنسی استحصال، دفتروں، آفسوں اور کام کاج کی جگہ پر ہراسمنٹ، گھریلو تشدد، گھریلو زندگی میں فیشن اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری ان کے اہم مسائل ہیں۔ جبکہ دوسرے طبقے کی عورت کے مسائل میں شخصی آزادی، مساوی حقوق، ناخواندگی اور مردوں کے ذریعے تشدد کا شکار ہونا اور جہیز کے علاوہ ظالمانہ سماجی و معاشرتی رسوم و رواج ہیں جنھوں نے اس کی زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے۔ تیسرے طبقے کی عورت کایو ں تو صرف ایک ہی مسئلہ ہے بھوک۔ کیونکہ اس مسئلہ کے سامنے انہیں اور کوئی بڑا مسئلہ نظر ہی نہیں آتا۔ اور آئے بھی کیسے بھوکا شخص کیا کبھی بیماری کا بھی احساس کرے گا؟ کبھی شخصی آزادی، سیاسی حقوق، نیوٹریشن سے بھر پور غذا اور تعلیم وتربیت اور امپاورمنٹ کے بارے میں بھی سوچ سکے گا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ مگر یہ بھی اس کے مسائل ہیں مگر اس سمت میں سوچنے کے لیے نہ ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ صلاحیت اور نہ ہی یہ ان کی ترجیح میں جگہ پاتا ہے۔
گذشتہ دنوں پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے خواتین رزرویشن بل کے تناظر میں اگر خواتین کے ان مسائل کو دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ حکومت خواتین کے ان تمام ہی طبقات کے مسائل کے حل کے سلسلے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ اور خواتین کے مسائل کو کس طرح سیاست سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جس انداز میں یہ بل پیش کیا گیا ہے اور جس طرح اس کی حمایت اور مخالفت کی گئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کا ارتقاء اور امپاورمنٹ تو محض دعوے ہیں اور ان دعووں کے پس پشت جو مقصد ہے وہ ایک خاص طبقہ کی خواتین کو اپنی اپنی پارٹیوں کے بینر سے پارلیامنٹ میں پہنچانا مقصود ہے۔ اگر پارلیامنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی رزرویشن کے ذریعے خواتین کے مسائل حل ہونے کا امکان ہوتا اور وہ واقعی امپاور کی جاسکتیں تو آج دہلی، راجستھان اور اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم، تشدد اور جہیز کے لیے کی جانے والی اموات کا سلسلہ قائم نہ رہتا۔ دہلی میں گزشتہ سات آٹھ سالوں سے خاتون وزیر اعلیٰ ہے، مگر اس کے باوجود ملک کی راجدھانی دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم میں جو ابال آیا ہوا ہے وہ تشویشناک ہے۔ اخبارات و رسائل بتاتے ہیں کہ ملک کی راجدھانی خواتین کے لیے کس طرح غیر محفوظ شہر بن گئی ہے۔ راجستھان جہاں ایک خاتون وزیر اعلیٰـ گزشتہ کئی سالوں سے برسرِ اقتدار ہیں کیا وہاں خواتین کی صورت ِ حال میں کوئی تبدیلی آئی ہے یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا۔ راجستھان میں آج بھی بچوں کی شادی رائج ہے اور آج بھی جہیز کے لیے جلائی اور قتل کی جانے والی خواتین کا تناسب پہلے کے مقابلے کیوں بڑھا ہے۔ اترپردیش کی دلت وزیر اعلیٰ مایاوتی کے اقتدار میں عام خواتین کی صورت حال اگر بہتر نہ ہوتی تو کم از کم دلت، پسماندہ اور پچھڑی ذات کی خواتین کے حالات میں تو کوئی واضح فرق آنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیںہوا بلکہ آئے دن دلت خواتین کے خلاف اونچی ذات کے لوگوں کے جرائم کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔
اس سے کم از کم ایک بات تو واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ خواتین کے حقوق، اختیارات، امپاورمنٹ اور ان کے بنیادی مسائل کے حل میں ان خوبصورت اور دل ربا نعروں سے تو کوئی بات بننے والی نہیں ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر سماج میں عورت کے لیے جو نقطۂ نظر پایا جاتا ہے وہ تحقیر آمیز ہے اور اسے انسانیت کے اعتبار سے وہ مقام نہیں دیا جاتا جو ایک مرد کو حاصل ہے۔ اس کے شخصی وقار اور حق خودارادی کی وہ قدر نہیں کی جاتی جو ایک مرد کو حاصل ہے۔ یہ سماج کے اس بنیادی ڈھانچے کا نقص ہے جس پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔ یہاں کارپوریٹ سیکٹر یا نام نہاد اونچے خاندانوں اور تعلیم یافتہ طبقے میں یا تو عورت کو محض ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یا اس کے حسن اور خوبصورتی اور اس کی نسوانیت کا استحصال ہوتا ہے۔ درمیانی طبقہ کی عورت کو جس طرح سماج میں دبا کر رکھا جاتا ہے، جس طرح جہیز کے نام پر اس کا استحصال ہوتا ہے اور جس طرح مردوں کے مقابلے میں اس کے مساوی حقوق پر ڈاکہ زنی ہوتی ہے، اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا اور غریب طبقہ کی ان خواتین کے لیے جو محض سرمایہ داروں کے خادم کی حیثیت سے زندگی گزارتی ہیں امپاور کرنے اور انہیں بنیادی انسانی وقار اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشش کیوں نہیں کی جاتی۔ لڑکی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے مرنے تک کے جو مراحل ہیں ان مراحل حیات کو باعزت اور باوقار بنانے کی منصوبہ بندی وہ وزارتیں کیوں نہیں کرتیں جو خواتین کے امور کی ذمہ دار ہیں۔ امپاورمنٹ کی بات ہو یا رزرویشن کا معاملہ، ان تمام نعروں کا فائدہ صرف ایک خاص طبقہ کی ان خواتین کو حاصل ہوتا ہے جو ایک لائف اسٹائل اور ایک خاص معیار فکر ونظر رکھتی ہیں۔ عام خواتین کے لیے تو سماج کا نقطہ نظر آج بھی وہی ہے جو ویدک دور میں ہوا کرتا تھا جس میں اس کی حیثیت وہی تھی جو ایک گائے بیل کی ہوا کرتی تھی جس پر مرد کو جملہ مالکانہ حقوق حاصل تھے۔
ہمارے ملک اور سماج میں عورت مختلف النوع مسائل اور طرح طرح کے مظالم کا شکار ہے۔ اگر عورت کے ان مسائل کا حل تلاش کرنے اور ان مظالم سے نجات دلانے کے سلسلے میں ہم سنجیدہ ہیں تو سیاسی نعرہ بازی سے ہٹ کر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور ایسے راستے تلاش کرنے ہوں گے، جن پر چل کر اس سوچ کو ختم کیا جائے جو عورت کو حقیر سمجھتی اور محض عورت ہونے کے سبب اس کے استحصال کو جائز سمجھتی ہے کیونکہ محض قانون اور دفتری فرمانوں سے نہ تو عورت کے حقوق کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے اس قعر مذلت سے نکالا جاسکتا ہے جس میں آج ہمارے سماج کی عورت پڑی ہوئی ہے۔