ماں کی محبت، ماں کی ممتا، ماں کی آغوش اور ماں کی شفقت کا کوئی بدل نہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ دنیا کتنی بھی ترقی کیوں نہ کرجائے، ماں وہ ہستی ہے کہ ترقی نے جس کی ممتا اور محبت کو کوئی گزند نہ پہنچائی۔
تخلیق کے کرب ناک اور دردناک عمل سے گزر کر، درد کی انتہاؤں کو چھو کر ایک عام سی عورت جب ایک نئی ننھی منی زندگی کو جنم دیتی ہے تو اس لمحے بہت خاص، بہت بلند مرتبہ حاصل کرلیتی ہے۔ ایک ماں کا مرتبہ۔ وہ ماں جو درد کی شدت میں موت کی دہلیز کو چھو آتی ہے مگر گود میں ہمکتی معصوم سی جان دیکھ کر پل بھر میں سب تکلیف، دکھ یکسر فراموش کردیتی ہے۔ ہونٹوں پر ملکوتی مسکان بکھر جاتی ہے اور وہ مسکان اسے دنیا کی سب سے حسین ترین عورت کا درجہ دیتی ہے جس پر ربِ کائنات نے بھی اپنی مہر ثبت کردی ہے اور ماں بننے کی تکلیف کو برداشت کرنے کے انعام میں اپنی جنت ماں کے قدموں تلے بکھیر دی ہے۔
یہ جنت کیوں بکھری ہے، اس پر ہر انسان کو غور وفکر کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی آئندہ پوری زندگی کا دارومدار اس ماں کی پرورش اور تربیت پر ہی ہوتا ہے۔ دنیا کتنی ہی آگے چلی گئی، تمام دنیا گلوبل ویلیج بن گئی، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نے ہر فاصلے کو مٹا دیا لیکن ماں کی آغوش کا کوئی کمپیوٹر، کوئی انٹرنیٹ، کوئی بھی دوسرا ذریعہ یا ٹیکنالوجی بدل نہیں فراہم کرسکتے۔ اس گود کی گرمی، اس کا احساسِ تحفظ، اس کی محبت خاندان کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
ہیلن تھامسن کا یہ کہنا ہے کہ’’ہر بڑے آدمی کے اندر ایک چھوٹا بچہ موجود ہوتا ہے، جو کہ اپنی ماں کو تلاش کرتا ہے۔‘‘
سگمنڈ فرائیڈ کی نفسیات یہ بتاتی ہے کہ بچپن کا احساسِ تحفظ کس طرح بڑے ہوکر بچے کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس میں جنس کی کوئی تخصیص نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد صرف بچے ہی ہیں جن کے لیے ابتدائی سالوں کی فرد کے مستقبل کے لیے بہت زیادہ اہمیت ہے۔
آج اس گلوبل ویلج میں میڈیا، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک وپرنٹ دونوں ہی بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں میڈیا کا کردار جہاں مثبت رجحان پیدا کررہا ہے، وہیں اس کے منفی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں، خاص کر نئی نسل جو ابھی اچھائی اور برائی میں زیادہ تمیز نہیں کرسکتی، ان کو ہر چمکتی ہوئی چیز سونا دکھائی دیتی ہے۔ چاہے وہ چمک ان کی آنکھوں کو خیرہ کردے یا وہ چمک آنکھوں کو اندھا کردے۔
اس لیے اس نسل کی درست سمت میں رہنمائی کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوگیا ہے، کیوں کہ ہر اچھی بری چیز انسان کی فنگر ٹپ پر ہے، چاہے وہ ٹی وی کا ریموٹ ہو یا کمپیوٹر کا ماؤس۔ ایسے میں ماؤں کا کردار ایک ایسے جرنیل کا ہوگیا ہے جو ایک ایسی فوج کی رہنمائی کررہا ہو، جس میں سارے فوجی غیر تربیت یافتہ ہیں اور وہ حالتِ جنگ میں ہے۔ اس وقت سمجھ بوجھ، رہنمائی، روک ٹوک، بچے کے ساتھ مکمل ذہنی ہم آہنگی، دوستانہ رویہ، اور سب سے بڑی چیز آپ کا وقت، خزانہ کی وہ کنجی ہے، جس سے بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں خود بھی برے کو برا اور اچھے کو اچھا سمجھ سکے۔
تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بچپن میں جن بچوں کو نظر انداز کیا جائے، بڑے ہونے پر ان کو مختلف قسم کے تعلقات نبھانے میں بہت زیادہ دشواری ہوتی ہے، چاہے وہ سماجی تعلقات ہوں یا گھریلو… دونوں میں ان کے رویے پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آج بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہماری مائیں جو نوکری پیشہ ہیں، وہ بچوں کو کیئر سینٹرز یا آیا کے حوالے کرنے سے بہتر یہ سمجھتی ہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہوئے انھیں بزرگوں کے سائے میں پروان چڑھایا جائے۔
آج میڈیا کے اس دور میں جب ہم نے اپنے بچوں کے لیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کو ایک ضرورت سمجھ لیا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا بچہ شاید دنیا سے پیچھے رہ جائے گا، اپنے بچے کو سب کچھ فراہم کرکے ہم نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ وہ بچہ اس سہولت کا استعمال کسی مثبت کام کے لیے کررہا ہے یا اس سے منفی باتیں سیکھ رہا ہے، یہ سب ہم نہیں جاننا چاہتے۔ اور یہی فرائض سے پہلو تہی معاشرے میں بگاڑ کی صورت پیدا کررہی ہے۔ ہم ماؤں نے اپنے بچوں سے علیحدہ اپنی دنیا بسالی ہے جس میں ہمارے اسٹار پلس کے ڈرامے، ہمارے نئے فیشن، ہماری فضول بات چیت اور ہمارے اپنے مسائل اتنے اہم ہیں کہ اس میں ہم اپنے بچوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ میڈیا کیا پیش کررہا ہے اور اس سے ہمارے بچے کیا سیکھ رہے ہیں، ہمیں اس پر توجہ دینے کی اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حدیثِ نبویﷺ ہے: ’’بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن ماحول اسے یہودی یا نصرانی بنادیتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ماحول اس کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اپنے ماحول کو اپنے بچے کے لیے کتنا سازگار بناتے ہیں۔ آج یہ بات ہم مانتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ کمپیوٹر، موبائل یا انٹرنیٹ سے مدد لینا اب بچوں کی عادت اور ضرورت بن گیا ہے۔ اکثر اسکولوں میں بھی بچوں کو انٹرنیٹ سے مواد حاصل کرنے کا کام دیا جاتا ہے، اس لیے اگر انٹرنیٹ کا استعمال بچوں کے لیے ناگزیر ہوجائے تو بھی بچوں کے ساتھ اس کام میں مائیں شریک ہوجائیں۔ کمپیوٹر کا استعمال آپ بھی سیکھیں۔ ٹی وی پر وہ کیا دیکھ رہے ہیں، اس پر نظر رکھیں۔ کمپیوٹر کو الگ تھلگ کمرے میں نہ رکھیں، بلکہ ایسی جگہ رکھیں جہاں سے آپ آتے جاتے، کام کرتے ہوئے دیکھ سکیں کہ آپ کا بچہ کمپیوٹر پر کیا کام کررہا ہے۔ اگر اس کے پاس موبائل فون ہے تو اس کو اس کا درست اور ناجائز استعمال دونوں کی بابت سمجھائیں تاکہ وہ خود بھی اس کے غیر ضروری استعمال سے گریز کرے۔
گھر اور ماحول بچوں کے لیے ایسا ٹانک یا زہر ثابت ہوسکتا ہے جس کے استعمال سے وہ طاقتور بھی ہوسکتے ہیں اور کمزور بھی۔ اچھا، تعلیم یافتہ اور محبت بھرا ماحول بچوں کے لیے ایسا ٹانک ہے، جو بچوں میں برائی سے لڑنے کی طاقت اور زمانے کو سمجھنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے، اور بدتر جھگڑا لو ماحول بچے کے لیے وہ زہر ثابت ہوتا ہے جو اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو ختم کرکے اسے بھی معاشرے کے لیے ایک مضر اور تکلیف دہ رکن بنادیتا ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کے لیے ایک پیارا، صحت مند اور پرسکون ماحول دینا ہمارا اولین فر ض ہونا چاہیے۔
——