کسی بھی خاندان یا معاشرے میں عورت کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے۔ اگر عورت جسمانی، ذہنی و فکری اور نفسیاتی طور پر ٹھیک ہوگی تو وہ اپنے بچوں اور سارے خاندان کی صحیح خطوط پر دیکھ بھال اور پرورش، تربیت کرسکے گی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عورتوں کو وہ مقام حاصل نہیں جس کی وہ صحیح طور پر حقدار ہیں یا جو اسلام انہیں عنایت کرتا ہے۔ پیدائش سے لے کر آخر تک مختلف حیلوں بہانوں سے اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود عورت کا کمال ہے کہ وہ سب کچھ سہتی، چپ چاپ اپنی ذمہ داریاں نبھاتی اور سارے کام بخوبی انجام دیتی ہے۔ موجودہ دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ:
٭ عورت کو معاشرے اور گھر میں باعزت مقام دیا جائے۔
٭ اس کی صحت کا صحیح خیال رکھا جائے۔
٭ اس کی مناسب تعلیم و تربیت کی جائے۔
٭ انہیں صحت و حفظانِ صحت کی صحیح اور وافر معلومات دی جائیں ۔
٭ وسیع تر دینی و سماجی رول کے لیے انہیں تیار کیا جائے۔
اگر عورت صحیح طور پر صحت کی تعلیم کے بنیادی اصولوں سے آشنا ہو تو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کی اچھی طرح حفاظت کرسکتی ہے۔ بچے کی دیکھ بھال، انہیں دودھ پلانا، صحیح پرورش کرنا، بیماریوں کے خلاف انہیں حفاظتی ٹیکوں کا کورس کروانا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ان کا مناسب خیال رکھنا عورت کے اہم کاموں میں شامل ہیں۔ عورتیں بے لوث کام کرتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں زچگی اور بچے کی پیدائش کے دوران عورتیں ہی رضا کارانہ طور پر اپنی ہم جنس عورتوں کے کام آتی ہیں۔ اس لحاظ سے عورتیں کم تعلیم اور سہولتیں نہ ہونے کے باوجود خاندان اور معاشرہ کی صحت کو بحال اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
کسی بھی خاندان یا معاشرے میں عورت کے رول کو اس کی آمدنی، ملازمت، تعلیم، صحت، بچے پیدا کرنے کی صلاحیت اور خاندان یا معاشرہ میں اس کے کردار کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔
گھریلو کام کاج، بچوں کی نگہداشت اور پرورش وغیرہ مستقل اور اہم کام ہیں لیکن سماج میں ان کاموں کو کام تصور نہیں کیا جاتا۔ بچوں کی پیدائش اور پرورش میں عورت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ماں بننے کے عمل میں عورت کو جن دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، ان سے کون واقف نہیں ، اس کے باوجود اس کے لیے ضروری طبی امداد اور مناسب دیکھ بھال تک کا انتظام نہیں ہوتا۔ ماں کی حیثیت سے معاشرہ عورت کو جو اہمیت دیتا ہے یا اس کا جتنا خیال رکھتا ہے، اس سے اس معاشرے میں عورت کے رتبے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کسی ایسے معاشرے میں عورت کو باعزت مقام دیے جانے کا کوئی کیسے دعویٰ کرسکتا ہے۔ اگر وہاں عمل زچگی کے دوران مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے عورت مرجائے یا ناقص غذا اور کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ ایسے بچے کو جنم دے جو زندگی کے پہلے ہی ہفتے میں زندگی کی بازی ہار جائے۔
اگر وہ کام کی زیادتی یا ملازمت کی وجہ سے بچے کو اپنا دودھ نہ پلا سکے۔ اگر زچگی کے دوران ہر دفعہ اس کی صحیح طور پر رہنمائی نہ کی جائے یا بچوں کی پرورش یا گھر کے کام کاج کی وجہ سے اس کو تعلیم نہ دی جاسکے۔
ہمارے ملک میںبچوں میں حادثات اور اموات کی شرح دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکی کو لڑکے مقابلے میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک تجزیہ میں دیکھا گیا ہے کہ پانچ سال تک کے بچوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو ۱۶؍فیصد زیادہ حراروں (کیلوریز) والی غذا دی گئی جس سے ۱۴ فیصد لڑکیاں غذا کی کمی کا شکار ہوئیں۔ جبکہ لڑکوں میں یہ شرح صرف ۵؍فیصد تھی۔ زندگی کے پہلے مہینے اور پہلے سال کے ختم ہوتے وقت جبکہ بچوں کو ماں کی حفاظت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اس مدت کے دوران بچیوں میں موت کی شرح بچوں کے مقابلے میں ۴۴؍فیصد رہی، جس کی بنیادی وجہ لڑکیوں کا سرے سے کوئی علاج نہ کرانا یا پھر تاخیر سے علاج کرانا تھا۔
عورتوں کی اچھی صحت اور ان کی سماجی حیثیت ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں ان کے فعال طریقے سے اپنا کردار ادا کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
اگرچہ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور وہ تقریبا دو تہائی سے زیادہ تمام غذائی پیداوار کا حصہ ہیں لیکن خواتین کو اس میں سے ایک فیصد حصہ ملتا ہے۔ صنعتی ترقی میں عورتوں کے بنیادی کردار کو ہمیشہ نظر انداز کیاجاتا رہا ہے۔ تمام دنیا میں غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کا حصہ ۵۰ فیصد ہے بعض ممالک (جیسے افریقہ) میں یہ شرح ۲۰ سے ۹۰ فیصد تک ہے۔ بنگلہ دیش میں ۹۰ فیصد سے زیادہ عورتیں زرعی ترقی میں شامل ہیں۔فصلوں کو اگانے اور ان کو کاٹنے سے لے کر خوراک تیار کرنے کے تمام مراحل میں عورت نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دور دراز کی جگہوں سے پانی اورایندھن لانے کے لیے عورتوں کا جو وقت اور توانائی صرف ہوتے ہیں ان کو نہ تو کسی تجزیہ میں شمار کیا جاتا ہے اور نہ عورتوں کو ان کی اس محنت کا کوئی صلہ ملتا ہے۔ موجودہ حالات عورتوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر کم تر بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال روز افزوں صنعتی ترقی ہے جس کی وجہ سے مختلف قسم کے کام کرنے والی عورتوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ یوں صنعتی ترقی کے مضمرات نے زیادہ تر عورتوں کی حالت کو اور زیادہ ابتر کردیا ہے۔ شہر کی طرف ہجرت کے رجحان، جنگوں اور مردوں کے کام کی تلاش میں باہر جانے کی وجہ سے بہت سے ترقی پذیر ممالک کے دیہاتی علاقوں میں عورتوں کو کسی ہنر سیکھے بغیر تمام اچھے برے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات بہت سے تجزیوں سے معلوم ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں اکثر غریب گھرانوں کی عورتوں کو ہی گھر کا سارا کام کاج کرنے کے علاوہ گزر بسر کے لیے کمائی بھی کرنی پڑتی ہے۔
قومی ترقی میں عورتوں کے حصے اور کردار کو دیکھنے کے لیے ایک پیمانہ تعلیم بھی ہے۔ ہمارے ملک میں عورتیں مردوں سے بہت کم تعلیم یافتہ ہیں اگرچہ قانونی طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر ہیں تاہم اکثر لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اس کی بعض سماجی اور ثقافتی وجوہ ہیں۔ بہت سی صورتوں میں لڑکیاں صرف ایک یا دو سال کے لیے اسکول جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بمشکل لکھ یا پڑھ سکتی ہیں۔
عورت کی تعلیم، اس کے بچوں کی صحت کو صحیح رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس معاشرہ میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے وہاں عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت اہم ہے کیونکہ جو مائیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں وہ ایک طرف اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کی حفاظت زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتی ہیں، دوسری طرف تعلیم یافتہ مائیں ہی معاشرہ کو مہذب اور تعلیم یافتہ شہری فراہم کرسکتی ہیں۔ عورت کی تعلیم کی اسی اہمیت کے بیش نظر کہا گیا ہے کہ ’’ایک لڑکا تعلیم یافتہ ہوتا ہے تو صرف ایک لڑکا تعلیم یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک لڑکی کو تعلیم دی جاتی ہے تو گویا ایک پوری نسل کو تعلیم دی جاتی ہے۔‘‘
جہاں تک عورت کو کسی وسیع تر دینی وسماجی رول کے لیے تیار کرنے کا سوال ہے یہ عورت کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب میں عورت کے لیے کوئی باوقار اور تعمیری رول نہیں ہے۔ عیسائیت میں وہ سب کچھ تیاگ کرکے محض چرچ کی ہوجائے ہندو دھرم میں بھی سنیاس کا رول ہے۔ جبکہ اسلام اس معاملے میں منفرد ہے۔ اسلام عورت کو ایک وسیع سماجی اور دینی ذمہ داری اور ر ول کے لیے تیار کرتا ہے۔ اور اس کے لیے اسے کچھ بھی تیاگنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ شادی بیاہ اور خانگی زندگی سے محروم نہیں کی جاتی۔ اسے عائلی زندگی گزارتے ہوئے یہ تمام کام انجام دینے ہیں۔ یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے عورت کو بھی وہی دینی رول دیا ہے جو مردوں کو دیا ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج مسلم خواتین نے اپنے اس دینی و سماجی رول کا شعور کھودیا ہے۔ حالانکہ رسول کی زندگی اور صحابہ کرام کی سیرت سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں عورت کس قدر ہمہ گیر کردار ادا کرتی رہی ہے۔
موجودہ مسلم سماج کی عورت اس کا شعور نہیں رکھتی اس لیے مسلم سماج کو چاہیے کہ وہ اسے جہاں عام اصطلاح میں تعلیم یافتہ کرے وہیں اس کی ذہنی و فکری سطح کو بھی بلند کرنے کی بھر پور جدوجہد کرے تاکہ وہ پورے شعور اور اعتماد کے ساتھ حق و باطل کی کشمکش میں مردوں کے ساتھ ساتھ اسی طرح چل سکے جس طرح قرآن میں بیان فرمایا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘
اگر عورت کو جس سے یہاں ہماری خاص مراد مسلم عورت ہے، ایک وسیع دینی و سماجی رول کے لیے تیار کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو دعوتِ اسلامی اور غلبۂ اسلام کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں محض ریت کی دیواریں ہی ثابت ہوں گی۔ اس لیے کہ انسانیت کی نصف آبادی کو نظر انداز کرکے کوئی فکری انقلاب نہیں لایا جاسکتا۔
——