موسیقی بطور تشدد

....

امریکی حکومت نے کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ موسیقی کو تشدد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہیلن بیمبا فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے مائیکل سوزنسکی ماہرنفسیات ہیں اور وہ تشدد سے متاثرہ افراد کے ساتھ دو دہائیوں سے کام کررہے ہیں۔ امریکہ پر ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد سے ان کا واسطہ ایک نئے قسم کے تشدد سے متاثرہ افراد سے پڑا، اور یہ تھے موسیقی سے متاثرہ افراد۔
مائیکل سوزنسکی کا کہنا ہے کہ ’’یہ تصور ہی بہت عجیب ہے کہ موسیقی کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعہ کسی بھی فرد کو نفسیاتی طور پر تباہ کیا جائے۔ لیکن اصولی طور پر موسیقی کے ذریعے کیا جانے والا تشدد روایتی تشدد کی تعریف پر پورا اترتا ہے، یعنی زندگی کی کسی بھی عام سی چیز کو تباہی پھیلانے والے ہتھیار میں تبدیل کردیا جائے۔‘‘
ان کے مطابق آواز ایسی چیز ہے جس کو دماغ سب سے پہلے اور بہت تیزی اور شدت سے محسوس کرتا ہے۔ انسانی ارتقائی عمل میں دماغ نے جس چیز کو سب سے پہلے شدت سے محسوس کرنا شروع کیا تھا وہ آوازیں ہی تھیں۔ اور جب ہم ان افراد کے بارے میں بات کرتے ہیں جن پر موسیقی کے ذریعہ تشدد کیا گیا تو اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا، جسے وہ اس تشدد سے بچنے کے لیے اپنے دفاع میں استعمال کرسکتے۔ انسان کا اعصابی نظام موسیقی سے اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا، اور اس تشدد کی کثرت اعصابی نظام کو مفلوج کردیتی ہے۔
امریکی حکومت نے کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ موسیقی کو تشدد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، اور انٹلی جینس ادارے اسے قومی سلامتی کا معاملہ قرار دے کر اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لہٰذا اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ انھوں نے یہ طریقہ کیوں اختیار کیا، لیکن گوانتاناموبے میں قیدیوں پر موسیقی کے ذریعے تشدد کی جڑیں ۱۹۵۰ء کی دہائی میں امریکی فوجیوں کے ایک تربیتی پروگرام میں پائی جاتی ہیں جسے سیئر کہا جاتا تھا۔
سوزین کیوسک نیویارک یونیورسٹی میں موسیقی کی ماہر ہیں۔ انھوں نے امریکہ کی جانب سے موسیقی کو تفتیش کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے موضوع پر خاصی تحقیقی کررکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سیئر ٹریننگ ان امریکی فوجیوں کے لیے تھی، جن کے دورانِ جنگ دشمن کے ہاتھ لگ جانے کا خدشہ تھا۔ گوانتا ناموبے میں ابتدائی دنوں میں جو محافظ اور تفتیش کار مقرر کیے گئے وہ اس تربیتی پروگرام سے گزرچکے تھے اور اچھی طرح سمجھتے تھے کہ موسیقی کے ذریعے تشدد کی تکنیک کتنی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح جب جنرل جیفری ملر عراق میں تعینات ہوئے تو وہ یہ تفتیشی تکنیک اپنے ساتھ عراق بھی لے گئے۔
جنرل ملر کی عراقی میں تعیناتی کے بعد ابوغریب اور دیگر امریکی قید خانوں میں بھی تشدد کی اس قسم کے اجراء کی شکایات سامنے آنے لگیں۔جوں جوں عراق اور دیگر قید خانوں میں قیدیوں پر تشدد کے لیے موسیقی کے استعمال کی خبریں باہر آنا شروع ہوئیں تو یہ بھی پتا چلا کہ دنیا بھر میں امریکی قید خانوں میں تشدد کے لیے چند گنے چنے گانے ہی بجائے جاتے ہیں۔
ٹارچر پلے لسٹ کے نام سے مشہور ہونے والے ان گانوں میں سلائیوا کے کلک کلک بوم جیسے گانے بھی شامل تھے۔ ایسے تیز موسیقی والے گانوں کے علاوہ بعض ایسے بھی گانے اس ٹارچر پلے لسٹ میں شامل تھے جن کے بارے میں اس طرح کا تصور ہی حیران کن ہے۔
کرس سرف بچوں کے پروگرام سیسم اسٹریٹ کے لیے گزشتہ بیس سال سے موسیقی کی تربیت دے رہے ہیں۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے امریکی قید خانوں میں استعمال نے انھیں کئی ہزار میل دور لڑی جانے والی ایک جنگ سے جوڑ دیا۔ کرس کا کہنا ہے کہ انھوں نے موسیقی کے ذریعے تشدد کے بارے میں ذکر پہلی بار بی بی سی پر سنا ’’میرا پہلا ردِ عمل تھا کہ میں مکمل طور پر حیرت میں ڈوب گیا۔ میں عراق جنگ کا حامی نہیں ہوں،کیوں کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت برا فیصلہ تھا، لیکن اس سے زیادہ بیہودہ بات مجھے یہ لگی کہ ایسی موسیقی جو میں نے بچوں کے لیے ترتیب دی اسے لوگوں سے تفتیش کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘
کرس سرف ان فنکاروں میں شامل ہیں، جنھوں نے تشدد کے لیے موسیقی کے استعمال کے خلاف آواز اٹھائی۔ انھوں نے اس تشدد کے خلاف زیرو ڈی بی کے نام سے ایک باقاعدہ مہم شروع کی۔ اس مہم میں ان کے ساتھ صرف چند موسیقار یا گلوکار شامل ہوئے۔
کون سے گانے تشدد میں استعمال ہوں گے، اس کا فیصلہ کون کرتا تھا، یہ بات واضح نہیں ہے۔ لیکن ان گانوں کو چار مختلف زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جن میں دھمکانے والی موسیقی، تکلیف دو موسیقی، شہوت انگیز موسیقی اور مغربی بالادستی ظاہر کرنے والی موسیقی شامل ہیں۔
گوانتا ناموبے کے قیدی روح الاحمد ابھی تک اس موسیقی کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’موسیقی تو میں اب بھی سنتا ہوں لیکن اس کی اونچی آواز میں برداشت نہیں کرسکتا۔ اونچی آواز کی موسیقی میرے ذہن میں پرانی اور خوفناک یادوں کو ابھار دیتی ہے جو میں کبھی یاد کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
احمد موسیقی سے ہونے والے تشدد کے بعد جس صورت حال سے گزر رہے ہیں، اس کے بارے میں ماہر نفسیات مائیکل سوزنسکی ہر روز سنتے اور دیکھتے ہیں۔ مائیکل کے مطابق ’’موسیقی کے ذریعے تشدد کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس تشدد کے اثرات دیر تک برقرار رہیں۔ اس تشدد کے شکار لوگ جب یہاں سے جائیں تو وہ ٹوٹ چکے ہوں۔ ان کے پیارے جب ان سے پیار کی باتیں کریں یا پیار سے چھوئیں تو یہ احساس بھی انھیں واپس اسی دنیا میں لے جائے جہاں سے وہ فرار چاہتے ہیں۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ اس تشدد سے صرف وہ لوگ متاثر ہوئے جو اس کا نشانہ بنے۔ وہ لوگ جو قیدیوں پر تشدد کرتے تھے، وہ بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکے۔ البرٹ ملیس گوانتاناموبے کے محافظوں میں تھے۔ ان کا کام قیدیوں کو زنجیروں سے جکڑنا اور ان پر موسیقی کے ذریعے تشدد کرنا تھا۔ موسیقی کے ذریعے تشد دکرنے کے باعث وہ خود اب تک نارمل نہیں ہوسکے ہیں۔
’’میں نے شراب کے نشے میں خود کو اس اذیت سے بچانے کی خاطر ڈبودیا، لیکن اس سے بھی میری تکلیف کم نہ ہوئی تو میں نے ایک بحالی مرکز میں شمولیت اختیا رکرلی، لیکن اب بھی جب اس وقت کی باتیں یاد آتی ہیں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ میں دیکھنے میں تو بہت مضبوط نظر آتا ہوں لیکن حقیقت میں ٹوٹ چکا ہوں۔‘‘
امریکہ کی قید میں رہنے والے اور ان پر تشدد کرنے والے، دونوں فریق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ موسیقی کے ذریعے ہونے والا تشدد نہ صرف فوری طور پر آپ کو توڑ کررکھ دیتا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات طویل عرصے تک آپ کے شخصیت پر برقرار رہتے ہیں۔ امریکی صدر کے طور پر حلف لینے کے بعد بارک اوباما نے دو اعلان کیے تھے، جن میں سے ایک گوانتاناموبے کے قید خانے کی بندش اور دوسرا موسیقی اور پانی کے ذریعے تشدد کو ختم کرنا تھا۔ تین سال بعد بھی گوانتاناموبے کا قید خانہ کھلا ہے۔ لیکن موسیقی کے ذریعہ تشدد کی اطلاعات آنا اب بند ہوگئی ہیں، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آئندہ کبھی بھی تشدد کی یہ قسم دوبارہ آزمائی نہیں جائے گی۔ (بی بی سی)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146