ایک مرتبہ اس بات کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ قلب کا تعلق خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہونا چاہیے اور اس میں خدا کی یاد کے سوا اور کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو اس طرح بیان کیا کہ آج کل لوگوں نے قلب کو مرادآباد اسٹیشن کا مسلم مسافر خانہ بنا رکھا ہے کہ سب وہاں آکر ٹھہرتے ہیں۔ بریلی والے بھی، سہارنپور والے بھی۔ میاں قلب تو ایک ہی کے رہنے کی جگہ ہے۔
٭٭
ایک شخص نے بیعت کرنے کے لیے آپ کو خط لکھا کہ اگر حضور نے مرید نہ کیا تو مثل بے آب ماہی کے جان تڑپ تڑپ کے نکل جائے گی۔ اس کا خط پڑھنے کے بعد فرمایا:
’’اس کی تو مثال ایسی ہوئی کہ ایک شخص کہتا ہے کہ اپنا فلاں مکان میرے نام رجسٹری کردو، ورنہ تڑپ تڑپ کر مرجاؤں گا۔‘‘
٭٭
ایک صاحب مجلس میں اس طرح بیٹھے تھے کہ تمام منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ دیکھ کر فرمایا:
’’یہ چوروں کی طرح یا جیسے کوئی سی آئی ڈی ہوتا ہے، اس طرح کیوں بیٹھے ہو۔ کیا مجلس میں بیٹھنے کا یہی طریقہ ہے؟ آخر عورتوں کی طرح سے گھونگھٹ کیوں نکال رکھا ہے؟‘‘
اس سوال کا اس شخص نے اس قدر آہستہ آواز میں جواب دیا کہ کوئی بھی نہ سن سکا، اس پر فرمایا:
’’دیکھا گھونگھٹ کا اثر، آواز بھی عورتوں جیسی ہوگئی کہ کوئی بھی نہ سن سکا۔‘‘
٭٭
ایک سلسلۂ گفتگو میں بطور ظرافت فرمایا: ’’آج کل جس قدر نئی نئی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں، ان کے نام بھی وحشت ناک ہیں۔ مثلاً ہول ڈر کہ ہول بھی ہے اور ڈر بھی۔ موتمر عربی لفظ ہے جس میں موت بھی ہے اور مر بھی۔‘‘
٭٭
توکل کے متعلق مجلس میں تذکرہ ہورہا تھا۔ آپ نے فرمایا توکل کا استعمال تو دین کے لیے ہی رہ گیا ہے۔ دنیا کے کاموں میں کوشش کرتے ہیں، سعی کرتے ہیں، دوڑ دھوپ کرتے ہیں، لیکن دین کے کاموں میں توکل کرتے ہیں۔ اس توکل کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قوم نکاح کرنا چھوڑ دے اور توکل پر اولاد کی تمنا کرے۔ کیا اس طرح اولاد پیدا ہوگی؟
٭٭
ایک شخص بیعت کرنے پر اصرار کررہا تھا۔ حضرتؒ نے اس کو لکھا کہ بیعت کرنا ضروری نہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ بیعت کرنا ضروری ہے۔ حضرتؒ نے لکھا: ’’جب تم خود محقق ہو تو غیر محقق سے کیوں رجوع کرتے ہو؟ دوسرے اس اختلاف میں تم غیر ضروری کو ضروری اور میں ضروری کو غیرضروری سمجھ رہا ہوں۔ اس صورت میں یا تو میں جاہل ہوں یا تم۔‘‘ اس پر اس نے جواب دیا کہ حضرت میں ہی جاہل ہوں۔ اس پر حضرت تھانویؒ نے جواب میں لکھ دیا: ’’میں بھی متفق ہوں۔‘‘
٭٭
ایک شخص نے بیعت ہونے کے لیے لکھا اور الفاظ یہ استعمال کیے کہ مجھ کو اپنی فرزندی میں داخل کرلو۔ حضرتؒ نے لکھا: ’’شریعت میں دوشخصوں کا فرزند ہونا جائز نہیں۔ اپنے باپ کے تو فرزند ہو ہی، دوسروں کے کیسے ہوسکتے ہو۔‘‘
٭٭
ایک شخص نے دریافت کیا کہ کافر سے سود لینا کیوں حرام ہے؟ حضرتؒ نے جواب میں پوچھا کہ کافر عورت سے زنا کیوں حرام ہے؟ اس پر سوال کرنے والے نے کہا کہ علماء کو اتنا خشک نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت ؒ نے جواب میں لکھا کہ جہلاء کو اتنا تر بھی نہ ہونا چاہیے کہ ڈوب ہی جائیں۔
٭٭
حضرت کو کھانسی آرہی تھی۔ ایک شخص نے کہا حضرت شریفہ میوہ جات میں اچھی چیز ہے۔ ممکن ہے کھانسی کے لیے مفید ہو۔ حضرت نے چونکہ دو شادیاں کررکھی تھیں، اس لیے مزاحاً فرمایا کہ اگر آپ لائیں تو کسی شریف کو لائیں۔ شریفہ کو نہ لائیں۔ دوہی بہت ہیں۔ کوئی فوج تھوڑا ہی جمع کرنی ہے۔
٭٭
ایک صاحب نے کہا کہ فلاں صاحب نے کہا ہے کہ گاندھی کے پیچھے نماز پڑھنے میں اتنا نقصان نہیں جتنا دیوبندی کے پیچھے نمازپڑھنے میں ہے۔ فرمایا: ’’ہاں، کیونکہ گاندھی کے پیچھے نماز مکروہ بھی نہیں ہوگی۔‘‘ (یعنی سرے سے ہوگی ہی نہیں)
٭٭
ایک صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ روڑکی کی مسجد میں ایک مرتبہ انھوں نے نماز پڑھائی۔ گرمی کا زمانہ تھا، لوچل رہی تھی اور فرش تپ رہا تھا۔ امام صاحب نے لمبی سورت شروع کردی بعد نماز لوگوں نے کہا کہ یہ کیا کیا ہم تو بہت پریشان ہوئے۔ فرماتے ہیں ذرا سی گرمی میں گھبراگئے۔ وہاں دوزخ میں کس طرح رہوگے؟ اس کے بعد حضرت تھانویؒ نے فرمایا: ’’کم بخت سب کو دوزخ میں بھیجنے کو پھرتا تھا۔‘‘
٭٭
ایک دوست نے کہا: ’’میں دوسری شادی کرنا چاہتاہوں۔‘‘ اس سے دریافت کیا کہ تمہارے گھر کتنے ہیں؟ اس نے کہا کہ گھر ایک ہے۔ حضرت نے کہا کہ پھر تم ہرگز دوسری شادی نہ کرنا۔ تمہارے پاس گھر کم از کم تین ہونے چاہئیں، کیونکہ اگر دونوں سے روٹھ گئے تو پھر جاؤگے کہاں؟
٭٭
ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت اگر تعویذ سے فائدہ ہوجائے تو دوسرے کو دے دوں۔
فرمایا: ہاں، باسی تھوڑا ہی ہوجائے گا۔‘‘