آج صبح 21؍دسمبر کو جب فجر کی نماز کے لئے بیدار ہوئے تو واٹسپ پر یہ خبر ملی کہ مولانا محمد یوسف اصلاحی اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات پر ہمارے دل رنجیدہ ہیں مگر ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں اور ان کے لئے بلندئ درجات کی دعا کرتے ہیں۔ہم نے سن 1981ء میں انہیں دیکھا۔وہ میری درجہ چہارم کی عمر تھی جب مرکزی درسگاہ اسلامی میں ہمارا داخلہ ہوا تھا۔ان کا گھر اور ہمارا بورڈنگ ہاؤس قریب تھے اور نماز کے لئے مسجد ایک ہی ہوا کرتی تھی۔ یہاں سے ان سے تعارف ہوا۔ اس وقت ہم ان کو ’مولانا ذکریٰ صاحب‘ کے نام سے جانتے تھے۔ اصل میں ان کے گھر کے بیرونی حصہ میں ذکریٰ کا آفس تھا اور باہر ’ذکریٰ‘ کا بورڈ لگا تھا۔ بورڈنگ ہاؤس کے زیادہ تر بچے انہیں ذکریٰ صاحب ہی کے نام سے جانتے تھے۔ اسی محلے میں ایک نیم پاگل ’’مجّن بھائی‘‘ ہوا کرتے تھے جو نماز بڑی پابندی سے پڑھتے اور اکثر صبح فجر کے وقت ان کے دروازے کے گھنٹی بھی بجاتے اور زور زور سے ’ذکریٰ صاحیب‘ کی آواز لگاتے۔
جب کلاس میں پہنچے اور دینیات کی گھنٹی شروع ہوئی تو ایک کتاب ’سچا دین‘ پڑھائی گئی۔ معلوم ہوا کہ یہ کتاب انہی ذکریٰ صاحب کی ہے اور ان کا نام محمد یوسف اصلاحی ہے۔ کالی گھنی داڑھی اور اکثر کالی شیروانی میں ملبوس وجیہ شخصیت! جب خطبہ جمعہ دیتے تو بات دل میں اترتی محسوس ہوتی۔ جاڑے کی دنوں میں وہ اپنے گھر کے سامنے والی’’اونچی مسجد‘‘ میں فجر کی نماز میں تلاوت کرتے تو طبیعت پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی اور دل چاہتا کہ وہ قرآن پڑھتے جائیں۔ ان کے خطبات جمعہ سن کر ان کی قدر و منزلت ذہن و دماغ پر چھاتی گئی۔ پھر ان کی کتاب آداب زندگی پڑھی تو اسلامی زندگی کا شعور اور سلیقہ ملا۔مولانا کی یہ کتاب بلا تفریق مسلک و جماعت نہ صرف اردو دنیا میں معروف و مقبول ہے بلکہ کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔یہ کتاب ان شاء اللہ ان کے لئے بڑا صدقہ جاریہ ثابت ہوگی۔مولانا نہایت نفاست پسند طبیعت کے مالک اور مرنجا مرنج انسان تھے۔ ان کی تذکری گفتگو اور گفتگو کو اللہ نے خاص اثر سے نوازا تھا جس کے سبب وہ سامعین کے دل میں جگہ بنالیتے تھے۔
مولانا نے اللہ کے فضل و کرم سے بھر پور زندگی گزاری جس میں وہ مکمل طور پر دعوت دین اور خدمت اسلام سے جڑے رہے۔مولانا عبد الحئ مرحوم کے بعد انہوں نے کوئی تیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک ملک کی منفرد درسگاہ جامعۃ الصالحات رامپور کی قیادت کی اور بھرپور دعوتی و اصلاحی لٹریچر بھی تیار کیا۔وہ مدت دراز سے جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن تھے اور جب مرکز آتے تو مغرب کی نماز کی امامت کرتے۔ ان دنوں میں اس نماز میں خاص طور پر شریک ہوتا اور وجہ یہ تھی کہ جب وہ تلاوت کرتے تو میں بچپن کی ان یادوں میں چلا جاتا جب وہ فجر کی نماز میں وجد کی کیفیت طاری کر دینے والی تلاوت کیا کرتے تھے۔ گزشتہ مہینے جب وہ دہلی آئے تو میں نے برادر محی الدین غازی کے توسط سے خواہش کی کہ وہ مغرب کی نماز پڑھائیں مگر طبیعت میں نقاہت اور آواز کی خرابی کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے۔میں پچپن میں ان کی نقل اتارنے میں ماہر تھا۔ہمارے ایک پی ٹی ٹیچر کو میرا یہ عمل بہت پسند تھا- وہ اکثر بچوں کے سامنے مجھ سے ان کی نقل کرواتے۔ایک مرتبہ ناظم درسگاہ جناب جاوید اقبال صاحب نے انہیں طلب کیا اور کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ آپ شمشاد میاں سے مولانا کی نقل کرواتے ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا:’’اللہ کسم بالکل ٹروکاپی کرتا ہے،یقین نہ آئے تو بلا لیجئے۔‘‘ناظم صاحب نے کہا کہ نہیں میرا مطلب یہ نہیں ہے۔پھر انہیں سمجھایا کہ یہ اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن سے کوئی سال بھرپہلے جب وہ دہلی آئے ہوئے تھے تو اس وقت کے اَمیر جماعت مولانا جلال الدین عمری نے خیریت دریافت کی تو جواب میں انہوں نے غالب کا یہ شعر پڑھا:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
مولانا کی زبان سے یہ شعر سن کر طبیعت کو دھکا سا لگا اور اس وقت جبکہ ہم ان کی وفات کے بعد یہ سطریں لکھ رہے ہیں ، آنکھیں چھلکی پڑتی ہیں۔ہمیں اپنے رب غفور و رحیم پر یقین ہے کہ ان کی تمام بلائیں ختم ہو گئیں اور اب ایک نئی آرام و راحت کی زندگی شروع ہوگی۔ مولانا سے وابستہ چالیس سالہ یادوں کا سفر آج ختم ہوگیا۔ ان شاءاللہ وہ جنت کے سفر پر روانہ ہوگئے اور ہم موت کے سفر پر چل رہے ہیں۔ ان کی یادوں کا خزانہ دل میں بسا ہے اور اس خزانہ کی سب سے قیمتی چیز ان کی آواز کے پیکر ہیں۔حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:
آج تصویر تو اک قصہ پا رینہ ہے
ساتھ اپنے مری آواز کی پیکر رکھنا
ان کی آواز کے پیکر میرے ساتھ ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بلندئ درجات کی دعا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو صبر دے۔آمین!