دائرے چھوٹے بڑے قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے لوگ اس دائرے میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، لیکن آج کل داخلہ ممنوع ہے۔ صرف خارج کرتے ہیں، چل نکل اسلام کے دائرے سے۔
معروف مزاح نگار ابن انشا کی اس بات پر مولانا مدظلہ العالی عمل پیرا ہی نہیں بلکہ ثابت قدم بھی ہیں۔ ہر جمعہ کو خطبہ سے پہلے عدالت الہ کے جج بن جاتے ہیں۔ اپنے بیان میں مصلیان ہی نہیں بلکہ گاؤں کے سارے مسلمانوں کا حساب کتاب کر کے اپنے حمایتیوں کو جنت کی بشارت اور مخالفین کو جہنم کی رسید عنایت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو کافر، فاسق، فاجر اور منافق بنا دینا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
نماز جمعہ کے بعد ایک من چلا اُن سے بولا:
’’مولی (مولوی) صاحب! آپ نے اللہ میاں کا کام کتنا آسان کر دیا۔ گاؤں کے سارے مسلمانوں کا حساب کتاب پورا کر دیا۔ اب میدان حشر میں اللہ میاں کے ذمے صرف یہاں کے ہندوؤں کا حساب کتاب باقی ہے۔ آپ نے اللہ میاں کا کتنا بڑا کام کر دیا!‘‘
من چلے کی بات سن کر مولانا مدظلہ العالی اسے گھور کر دیکھنے لگے۔ من چلا مسکین صورت بنا کر مولانا مدظلہ العالی کو تکنے لگا۔ کچھ دیر ماہر ہپناٹزم کی طرح گھورنے کے بعد گرج دار آواز ان کے منہ سے نکلی ’’استغفر اللہ‘‘ آواز اتنی گرج دار تھی کہ مسجد کی دیوار کی منڈیر پر بیٹھا کالا کوا اڑ گیا۔ شاید کسی جھوٹے کو کاٹنے کے لیے۔ مگر سماج میں جھوٹے اتنے ہوگئے ہیں کہ کالا کوا کاٹے تو کس کس کو کاٹے۔ بے چارہ صرف گانے کے مکھڑے کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔ ’’جھوٹ بولے کوا کاٹے، کالے کوے سے ڈریو‘‘خیر۔
’’استغفر اللہ‘‘ کہنے کے بعد مولانا مدظلہ العالی نے من چلے کو ڈانٹا۔ ’’مذاق اڑاتے ہو ہمارے بیان کا، ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔ اللہ دل سے ایمان سلب کرلے گا، موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوگاـ۔‘‘ مولانا مدظلہ العالی نے من چلے کو کسی دل جلی عورت کی طرح کوسا، من چلے نے ادھر ادھر دیکھا مولانا مدظلہ العالی کا کوئی حمایتی آس پاس نہیں تھا۔ دل ہی دل میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور سر جھکا کر نکل پڑا۔
اس واقعہ کے بعد جب جمعہ آیا تب من چلے کی بات کو موضوع بنا کر مولانا مدظلہ العالی نے لچھے دار بیان دیا وہ تو ایک عادت موصوف دامت برکاتہ و عنایۃ میں بڑی اچھی ہے کہ وہ بیان میں ڈائرکٹ حملہ نہیں کرتے اِن ڈائرکٹ میں دل کھول کر غبار اڑا دیتے ہیں۔
اس جمعہ کی تقریر میں انھوں نے علما کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ فرما دیا تھا کہ ’’علماء کو محبت کی نظر سے دیکھنا بھی ثواب ہے۔‘‘ پھر کیا تھا، گاؤں کے کم و بیش سارے مسلمان مولانا مدظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ کوئی آنکھیں سکیڑ کر محبت کی نظر سے دیکھ رہا تھا تو کوئی آنکھیں پھاڑ کر۔ جن لوگوں کو بعید النظری و قریب النظری کی شکایت تھی وہ بے چارے چشمہ لگا لگا کر مولانا مدظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کی کوشش میں اپنی توانائی صرف کرنے لگے تھے۔ ایک معتقد نے تو ارجنٹ میں اپنا موتیا بند کا آپریشن اسی لیے کروایا تھا کہ وہ جلد از جلد مولانا مدظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھ سکے۔
محبت کی نظر سے دیکھنے میں ثواب کی بات جب مسلمانوں کے گھروں میں پہنچی تو ثواب کمانے کے لیے گھروں کی عورتیں:
کیا بوڑھی، کیا ادھیڑ کیا جوان، کنواریاں، شادی شدہ ساری عورتیں مولانا مدظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگئیں۔
جب بھی مولانا مدظلہ العالی راستے سے گزرتے ہیں، گھروں میں خبر پہنچ جاتی ہے اور عورتیں اپنا کام دھندا چھوڑ کر کوئی دروازے کے پٹوں کے پیچھے، کوئی کھڑکیوں میں مولانا مدظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے لیے کھڑی ہوجاتیں، گاؤں کی کچھ گلیاں ایسی تھیں جہاں مولانا مدظلہ العالی کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ وہاں کے گھروں کی عورتوں کو ثواب سے محرومی کا افسوس ہونے لگا۔ وہ مولانا مدظلہ العالی کے گھر پہنچ گئیں۔
اُن کی بیگم نے پوچھا: ’’آپ کیسے تشریف لائیں؟‘‘
عورتیں کہنے لگیں ’’مولانا صاحب کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے لیے، کیوں کہ انھوںنے کہا تھا کہ ’’علماء کو محبت کی نظر سے دیکھنا ثواب ہے۔‘‘
مولانا مدظلہ العالی کی بیگم صاحبہ کے دل پر آرے چل گئے۔وہ بھی کوئی معمولی عورت نہیں تھی۔ عالمہ تھیں عالمہ، موقع و محل دیکھ کر صبر و ضبط سے کام لیا۔ کہا ’’مولوی صاحب نے جو کہا وہ مردوں کے لیے ہے۔ قرآن حدیث کی روشنی میں عورت کے لیے تو یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کو محبت کی نظر سے دیکھے۔‘‘
’’اماں ! کس کے پاس اتنی فرصت ہے۔‘‘ ایک ادھیڑ عمر کی عورت ہاتھ نچا کر کہنے لگی:
’’ہمارے گھر میں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، کہاں قرآن و حدیث کی روشنی ایک ٹمٹماتا بلب جلتا رہتا ہے۔ میں دن ڈوبے تک کھیت میں کام کرتی ہوں اور میرا میاں حمالی کرتا ہے۔ شام میں ہم آتے ہیں، کھاتے ہیں، سوجاتے ہیں۔‘‘
مولانا مدظلہ العالی کی بیگم صاحبہ نے اس عورت سے کچھ نہیں کہا۔ وہ چاہ رہی تھیں کہ کسی طرح جلد از جلد وہ عورتیں ان کے گھر سے نکل جائیں تاکہ وہ مولانا مدظلہ العالی کی اچھی طرح پریڈ لے سکیں۔
عورتیں کچھ دیر کھڑی رہیں پھر مایوس ہوکر چلی گئیں۔ مولانا مدظلہ العالی کی بیگم صاحبہ نے فورا دروازے کی کنڈی لگا دی۔ کمرے میں کرسی پر مولانا مدظلہ العالی دم سادھے، سرجھکائے سہمے سہمے خاموش بیٹھے تھے۔بیگم صاحبہ کمرے میں داخل ہوئیں ’’کیوں جی! بیان میں یہ کیا کہہ دیا آپ نے ’’علماء کو محبت کی نظر سے دیکھنا ثواب کا کام بتا دیا۔! بہت ساری عورتیں آپ کا دیدار کرنے کے لیے گھر آگئی تھیں۔‘‘
’’میں نے مردوں کے لیے کہا تھا۔ اپنی حیثیت ٹکائے رکھنے کے لیے ایسا بولنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
’’مجھے مت سمجھائیے۔ اگلے بیان میں اپنی بات کی وضاحت کیجیے یا بیان واپس لیجیے۔‘‘
’’نہیں، یہ نہیں ہوسکتا، میں کوئی نیتا نہیں ہوں کہ اپوزیشن کے دباؤ میں بیان واپس لے لوں۔ مولانا ہوں مولانا، قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرتا ہوں۔‘‘
’’بہت آئے قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرنے والے۔ گھر میں تو کبھی قرآن کھولتے ہیں نہ حدیث کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ جب بھی فرصت میں بیٹھتے ہیں اسمارٹ فون کی اسکرین پر انگلیاں چلاتے رہتے ہیں۔‘‘
مولانا مدظلہ العالی بیگم صاحبہ کی ڈانٹ سر جھکائے خاموش اس لیے سن رہے تھے کہ وہ جھوٹ نہیں کہہ رہی تھیں۔ کالا کوا گھر کی منڈیر پر خاموش بیٹھا تھا۔ بیگم صاحبہ کی ہمت بندھی، شہادت کی انگلی دکھا کر بولیں:
’’دیکھئے! اگر آپ نے اپنا بیان واپس نہیں لیا یا اس کی وضاحت نہیں کی تو میں بھی آپ کے دوست فلاں مولانا صاحب کی طرف محبت کی نظریں پھینکنا شروع کردوں گی۔‘‘
بیگم صاحبہ کے منہ سے جیسے ہی یہ وارننگ مولانا مدظلہ العالی نے سنی مارے طیش کے کرسی سے کھڑے ہوگئے۔ پھر جیسے ان کے اندر فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے کردار جلال الدین اکبر کی روح حلول کر گئی۔ وہ بالکل پرتھوی راج کپور کے انداز میں گرجے ’’خاموش ! ہم تمھیں پردوں کی دیواروں میں قید کر دیں گے!‘‘
جلال میں یہ کہہ کر مولانا مدظلہ العالی دامت برکاتہ گھر سے نکل پڑے اور ذہن میں اپنے اس دوست سے قطع تعلق کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے، جس پر محبت کی نظریں پھینکنے کی وارننگ بیگم صاحبہ انہیں دے چکی تھیں۔lll